۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
آیت اللہ سید یوسف موسوی

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | آغا سید یوسف موسوی سنہ 1902ء بمطابق سنہ 1322ھ میں سرزمین بڈگام صوبہ کشمیر پر پیدا ہوۓ ، آپ کا شجرہ ساتویں امام "حضرت امام موسیٰ کاظمؑ" تک 37 اور" حضرت میر سید شمس الدین محمد عراقی "تک چودہ سلسلوں سے پہونچتا ہے۔

موصوف نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی انکے انتقال کے بعد سنہ 1353ھ میں اعلیٰ تعلیم کے لۓ نجف اشرف چلے گۓ اور وہاں جاکر آیت اللہ ابو الحسن اصفہانی، آیت اللہ ضیاء الدین عراقی،آیت اللہ شیخ محمد اصفہانی، آیت اللہ میرابوالحسن مشکینی، آیت اللہ سید محسن الحکیم، آیت اللہ جمال موسیٰ گلپائیگانی وغیرہ جیسے جید علماء سے کسب فیض کیا، آپ کے اساتذہ آپ کی علمی استعداد اور صلاحیتوں کے قائل تھے، نجف اشرف میں ایک مدت تک قیام کرنے کے بعد کشمیر واپس آگۓ اور اپنے بھائی سیداحمد کی وفات کے بعدسنہ 1364ھ میں کشمیر کے مرجع وقت قرار پاۓ ۔

تمام لوگ آپ کے علم ،حلم، تقویٰ، حسن تدبیر ،پرہیزگاری،دیانتداری،بزرگی،عظمت اور ذہانت کے قائل تھے یہاں تک کہ امراء، وزراء ، سیاستدان اور علماء بھی اس زمرے میں شامل ہیں جن میں سے : آیت اللہ سید محسن الحکیم ،آیت اللہ سیدابوالحسن اصفہانی، آیت اللہ سید محمود شاہرودی،آیت اللہ سید ابراہیم حسینی،آیت اللہ سید حسین طباطبائی بروجردی، آیت اللہ سید جمال الدین گلپائگانی،علامہ آغا بزرگ تہرانی اور علامہ سید محسن جلالی جیسے بزرگ علماء آپ کی شرافت ، فضیلت اور علمی استعداد کا اعتراف کرتے تھے۔

آغا یوسف موسوی شیعوں کے حقوق کے سلسلے میں ہمیشہ آواز بلند کرتے رہے اسی لۓ آپ نے قومی فلاح و بہبود کے لۓ "انجمن شرعی شیعیان جموں و کشمیر" کی داغ بیل ڈالی اور یہ تنظیم آپ کے زیر نگرانی مذہب حقہ کی تبلیغ و ترقی میں مصروف رہی، 17 ربیع الاول سنہ 1370 ھ میں لوگوں کو اسلامی علوم سکھانے کے لۓ مدرسہ باب العلم کی بنیاد ڈالی اور اسی سال یہاں تدریس کا سلسلہ شروع ہو گیا ، اس کی شاخیں تمام جموں و کشمیر میں کھولی گئیں تاکہ کوئی بھی شخص دینی تعلیم سے محروم نہ رہ سکے،آپ نے باب العلم کی فلاح کے لۓ لاکھوں روپۓ کی ملکیت کی اراضی وقف کر دی تھی-

اسکے علاوہ آپ نے "کشمیریونیورسٹی کی اورینٹل فیکلٹی" میں شیعہ اسٹو ڈنٹس کے لۓ امامیہ نصاب منظور کروایا ،شہری اور دیہاتی علاقوں میں مدرسوں کے علاوہ انجمن شرعی کے تحت امام باڑے اور مساجد بھی تعمیر کرائے جن میں سے: امامباڑہ بڈگام اور حسن آباد کی مرمت کرائی اور امام باڑہ میر گنڈ ،جامع مسجد بڈگام اور خانقاہ جڈی بل کو از سر نو تعمیر کرایا،علاقہ جڈیبل اور بڈگام میں اوقاف کی کئ عمارتیں تعمیر کرائیں ،آپ کی خدمات کو یاد رکھتے ہوۓ آپ کے نام پر کئی ادارے اس وقت کام کر رہے ہیں جن میں سے: آیت اللہ یوسف میموریل ٹرسٹ ، آیت اللہ یوسف مرکزی امام بارگاہ بمنہ، آیت اللہ یوسف میموریل ڈسٹرکٹ بڈگام کے اسماء سر فہرست ہیں ۔

آقا سید یوسف نے اپنے گھر پر شرعی عدالت قائم کی تھی جہاں شرعی نظام کے تحت فیصلے ہوتے تھے،نہ فقط شیعہ بلکہ اہل سنت یہاں تک کہ غیر مسلم بھی ان فیصلوں کا احترام کرتے تھے ،بعض سرکاری عدالتیں تو پیچیدہ معاملات میں انہیں کی طرف رجوع کرتی تھیں، آپ نہ تو کسی سرکاری عہدہ پر فائز تھے اور نہ ہی سیاست سے کوئی سروکار تھا لیکن اس کے باوجود ملک کے بڑے بڑے سیاستدان اور سرکاری افسر بھی انکا بہت احترام کرتے تھے ، کشمیر کے سابق وزراء اعلیٰ بخشی غلام محمد، خواجہ غلام محمد صادق ، سید میر قاسم اور شیخ محمد عبد اللہ اکثرو بیشتر آپ سے ملاقات کا شرف حاصل کرتے تھے۔

اتنی مصروفیات کے با وجود آپ نے تصانیف و تالیف میں نمایاں کردار ادا کیا ،آپ کے آثار میں ایقاظ العباد ، وسیلۃ النجاۃ اورسرمایہ نجات کے اسماء قابل ذکر ہیں، ان کتابوں کے علاوہ آپ نے" مجلہ الارشاد" کے نام سے ایک ماہنامہ بھی جاری کیا جسمیں آپ کے اور علماء عرب و عجم کے گرانقدر مقالات چھپتے تھے، مگر افسوس آپ کی وفات کے بعد یہ رسالہ بند ہو گیا ، آپ نے انجمن شرعی کے زیر اہتمام نشرو اشاعت کا شعبہ بھی قائم کیا تھا جسکے تحت کئ اہم کتابیں زیور طبع سے آراستہ ہوئی ہیں ، ان میں ترجمہ "لمعہ دمشقیہ" جیسی ضخیم کتاب قابل ذکر ہے ، آپ کی فعالیت کو دیکھ کر بعض لوگ اتنے متاثر ہوۓ کہ انہوں نے آپ سے متعلق رسائل اور جرائد میں مضمون لکھنا شروع کۓ ، "غلام رسول رینزو سابق ہوم سکریٹری" نے انجمن کو دو ہزار روپۓ نقد آپ کا شرح حال طبع کروانے کے لۓ دۓ تھے ۔

آپ آخری وقت میں قلیل عرصہ کے لۓ علیل ہو گۓ ،وزیر اعلٰیٰ شیخ محمد عبد اللہ نے دہلی سے اپنے معالج ڈاکٹر خلیل اللہ اور دوسرے ڈاکٹروں کو اپنے فرزند فاروق عبد اللہ کے ساتھ آپ کے علاج کے لۓ بھیجا آخر کار اس علم و فضل کے آفتاب نے مختصر علالت کے بعد شب دوشنبہ 10 ذی قعدہ 1420ھ بمطابق 30 اگست 1982 ء میں داعی اجل کو لبیک کہا ،آپ کی وفات کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پورے کشمیر میں پھیل گئی اور وادی بھر سےلوگ بڈگام آنا شروع ہو گۓ، ہر ایک آنکھ اشکباراور چہرہ اداس ، پورا کشمیر دردو کرب میں ڈوبا ہوا تھا ، صبح نو بجے آپ کا تابوت گھر سے برآمد ہوا تو لوگوں نے اپنے گریبان چاک کر ڈالے،ان کے گریہ و زاری سے زمین بڈگام متزلزل ہوئی ،تابوت 12 بجے تک امام باڑہ بڈگام میں رکھا گیا ، پھر "کریوہ بڈگام" کے وسیع میدان میں نمازہ جنازہ" آقا سید مصطفےٰ موسوی" نے پڑھائی اور سہ پہر کے وقت آپ کو اپنے دادا کے قریب اپنے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا

سرکاری طور پر ایک دن کا سوگ منایا گیا اور تعطیل کا بھی اعلان ہوا ،سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں رہا اور ضلع بڈگام میں تین روز تک تمام سرکاری دفاتر اور کاروباری ادارے بند رہے ، سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی ریاستی گورنر "جی-کےنہرو "کے ہمراہ بڈگام گئیں اور سید یوسف کے لواحقین کو تعزیت پیش کی مجلس سوئم بروز جمعہ امام باڑہ بڈگام میں منعقد ہوئی جسمیں علماء کرام ،شعراء، دانشمندان ،سیاستدان اور عوام کے جم غفیر نے شرکت کی ،امام خمینی کی طرف سے آیت اللہ سید محمد جعفریان نے مجلس سوم میں نمائندگی فرمائی ۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ،تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج9، ص137دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2023ء

ویڈیو دیکھیں:

https://youtu.be/Zq1BzFpvYBw

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .