۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
آیۃ اللہ سید یوسف حسین امروہوی

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | یوسف الملت آیۃ اللہ سید یوسف حسین صاحب 18/رجب سنہ 1312 ھ میں سرزمینِ امروہہ پر محلہ دانشمندان میں پیدا ہوئے، یوسف الملت کے والد محترم مولانا حاجی سید مرتضیٰ حسین صاحب قبلہ تھے۔آیۃ اللہ یوسف امروہوی اپنے زمانہ کے مسلّم الثبوت مجتہد تھے۔ 

آیۃ اللہ سید یوسف حسین صاحب نے ابتدائی تعلیم نیز عربی و فارسی اپنے والد محتر م سے حاصل کی کیونکہ آپ کے والد اپنے زمانہ کے معتبر علماء و فضلاء میں شمار ہوتے تھے۔ابتدائی تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے رامپور کا رخ کیا اور وہاں جناب محمد امین شاہ آبادی کے پاس معقولات کی تعلیم حاصل کی۔ 

1905ء میں اپنی تعلیم کو آگے بڑھانے کی غرض سے دربار مولائے کائنات "نجف اشرف" میں حاضر ہوئے، وہاں آیۃ اللہ محمد کاظم طباطبائی کے مدرسہ میں قیام فرمایا، وہاں رہ کر بزرگ اور تجربہ کار اساتذہ کرام کی خدمت میں زانوئے ادب تہہ کئے مثلاً: آیۃ اللہ محمد کاظم خراسانی، آیۃ اللہ محمد کاظم طباطبائی، آیۃ اللہ سید ابوالحسن اصفہانی، آیۃ اللہ شیخ علی قوچانی، آیۃ اللہ ضیاء الدین عراقی اور آیۃ اللہ سید ابوتراب خوانساری وغیرہ۔

آیۃ اللہ یوسف صاحب نے متعدد اساتذہ اور آیات عظام سے اجتہاد و روایت کے اجازے حاصل کئے جن میں سے کچھ آیات عظام کے اسمائے گرامی اس طرح ہیں: آیۃ اللہ سید محمد کاظم طباطبائی , آیۃ اللہ ضیاء الدین عراقی، آیۃ اللہ سید ابوالحسن اصفہانی، آیۃ اللہ محمد حسین مازندرانی، آیۃ اللہ علی خراسانی قوچانی، آیۃ اللہ سید ابوتراب خراسانی، شیخ الشریعۃ آیۃ اللہ فتح اللہ شیرازی اور آیۃ اللہ علی گناآبادی خراسانی۔ان اجازوں کے ذریعہ آیات عظام نے آپ کے علم کا اعتراف کیا ہے جس سے آپ  کی صلاحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔

آیۃ اللہ یوسف امروہوی صاحب سنہ 1333ھ میں نجف اشرف سے اپنے وطن امروہہ واپس آئے اور وہاں تشنگان علوم آل محمد کو سیراب کرنے لگے۔
جب یوسف الملت عراق سے ہندوستان واپس آئے تو ہندوستان میں پہلی جنگ عظیم ختم ہوچکی تھی اور انگریزوں کے خلاف تحریک جاری ہوچکی تھی۔

جس وقت برطانوی حکومت کے خلاف ذرا سی انگشت نمائی پر گردن ماردی جاتی تھی ایسے پرآشوب ماحول میں آیۃ اللہ یوسف حسین امروہوی نے برطانوی فوج اور پولیس کی ملازمت پر حرمت کا فتویٰ صادر کیا۔ ان کے فتوے کا اثر یہ ہوا کہ مسلم قیادت میں استحکام پیدا ہوگیا اور اتحاد بین المسلمین کو تقویت پہنچی۔

آیۃ اللہ یوسف صاحب نورالمدارس امروہہ میں پرنسپل کی حیثیت سے مقرر ہوگئے۔ یہ مدرسہ آپ کے والد محترم مولانا مرتضیٰ حسین صاحب کی کوششوں کے سبب ممتاز مدارس میں شمار ہوتا تھا۔

جب برطانوی حکومت نے نجف اشرف میں مولا علیؑ کے روضہ منورہ پر حملہ کیا جس سے روضہ کو کافی نقصان پہنچا تو انہوں نے امروہہ میں صدائے احتجاج بلند کی۔

اس مدرسہ کی تعلیم اس اعلیٰ معیار کی تھی کہ اس مدرسہ میں دنیاوی تعلیم حاصل کرنے والا طالب علم جب فارغ ہوکر نکلتا تھا تو اکثر پبلک یا گورنمنٹ کالج میں استاد کی حیثیت سے مقرر ہوجاتا تھا۔

سنہ 1922ء/1340ھ میں جب نورالمدارس نامی مدرسہ، خاندان کی میراث میں تبدیل ہونے لگا تو  یوسف الملت  ڈپٹی کلکٹر جناب محمد حسین صاحب کے اصرار پرمنصبیہ عربی کالج میرٹھ کے پرنسپل منتخب کرلئے گئے۔ آپ منصبیہ میں تین سال تک استادو مدیر  کی حیثیت سےرہے اور اس دوران مدرسہ کو  آیت اللہ یوسف صاحب نے توقع سے زیادہ ترقی کے مراحل طے کرائے۔

سنہ 1925ء / 1343ھ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں شمس العلماء مولانا قاریسید عباس حسین رضوی جارچوی کی جگہ پر استاد دینیات کی حیثیت سے آپ کاتقرر  ہوا، اس وقت آپ کی تنخواہ پانچ سو روپیہ تھی۔

جب آیۃ اللہ یوسف صاحب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پہنچے تو اس وقت یونیورسٹی میں شیعہ نماز جمعہ کا تصور نہیں تھا، آپ کی کاوشوں کے ذریعہ وہاں شیعہ نماز جمعہ قائم ہوئی جو آج تک جاری و ساری ہے۔

یوسف الملت  اپنی زندگی کے آخری لمحات تک اسی عہدہ پر برقرار رہے۔ ان کے کارنامے دیکھنے دکھانے کے قابل تھے۔ وہ  بے حد منکسر المزاج اور بااخلاق شخصیت کے حامل تھے۔ مہمان  نوازی ان کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔  موصوف  کے گھر کا دروازہ بلا تفریق و مذہب و ملت ہر طالب علم کے لئے کھلا تھا خاص طور سے جدید طلاب کی بہت زیادہ حمایت کرتے تھے۔

آیۃ اللہ یوسف صاحب میرٹھ سے "الہادی" نام کا رسالہ نکالتے تھے جس میں یوسف الملت  کے فتاویٰ شائع ہوتے تھے۔

آیۃ اللہ سید یوسف حسین صاحب نے متعدد کتابیں تالیف کیں جن میں سے تفسیر یوسفی، مستطاب نہج البلاغہ(ترجمہ و حاشیہ نہج البلاغہ)، رسالہ جعفریہ، ترجمہ ذخیرۃ العباد،  کفایۃ الاصول کا حاشیہ، شافیہ کے جوابات اور توضیح الرکعات کے اسماء قابل ذکر ہیں۔
یوسف الملت تالیف و تصنیف میں دن رات ایک کئے رہتے تھےجس کی وجہ سے بیمار ہوگئے، اپنے دور کے بڑے سے بڑے حکماء سے علاج کرایا لیکن صحت مستقل گرتی رہی لہٰذا مجبور ہوکر امروہہ واپس آگئے اور یہ بیماری آپ کی خدا سے ملاقات کا سبب بن گئی۔ آیۃ اللہ سید یوسف حسین صاحب سنہ 1352ہجری میں بارگاہ خداوندی سے منسلک ہوگئے اورمجمع کی  ہزارآہ و بکا کے ہمراہ عزاخانہ نورالمدارس محلہ دانشمندان کی شہ نشین میں سپرد خاک کئے گئے۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ (تذکرہ علمائے شیعیان ہند)، ج 4، ص289 ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .