حوزہ نیوز ایجنسی | مولانا قاری سید جعفر علی رضوی جارچوی صاحب سنہ 1230 ہجری میں سرزمین جارچہ ضلع بلند شہر پر پیدا ہوئے (حالانکہ حال حاضر میں جارچہ کا ضلع "نوئیڈا" ہے)۔ آپ کے والد محترم سیدافضال علی رضوی صاحب تھے۔
مولانا کو قاری جعفر کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم دہلی میں حاصل کی اس کے بعد عازم لکھنؤ ہوئے۔
موصوف نے قرآن مجید کی تعلیم اور فن قرائت استاد "قاری محمد اصفہانی تبریزی" صاحب سے حاصل کی۔ آپ نے قرآن مجید کی قرائت میں اتنا ملکہ حاصل کر لیا تھا کہ اگر کوئی تلاوت کی آواز سنتا تھا تو اسے یقین نہیں ہوتا تھا کہ قاری ہندوستانی ہے!۔
مولانا نے تفسیر، منطق، فلسفہ، فقہ اور اصول وغیرہ کی کتابیں آیۃ اللہ سید حسین علیین مکان وغیرہ سے پڑھیں ۔
آپ کی آواز اتنی اچھی تھی کہ راستہ چلتے ہوئے لوگ سننے کے لئے رک جاتے تھے۔ قاری جعفر علی صاحب نہ یہ کہ صرف قاری تھے بلکہ حافظ قرآن بھی تھےنیزحفاظ کرام کو قرآن کا درس دیتے تھے۔ ان کی قرائت شیعہ و سنی علماء کی پسندیدہ قرائت تھی۔
جب سنہ 1857 عیسوی میں جنگ آزادی کا آغاز ہوا تو مولانا کو جارچہ کے لوگوں کے ساتھ قید کر لیا گیا۔ جس وقت آپ قید خانہ میں تھے، وقت نماز آپ کی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں کھل جاتی تھیں اور جب نماز پڑھ لیتے تھے تو ہتھکڑی اور بیڑی ہاتھ پیروں میں پہن لیتے تھے۔
جس وقت قاری جعفر صاحب قید سے آزاد ہوئے تو آپ کی مالی حالت اچھی نہیں تھی جارچہ کے لوگوں نے چاہا کہ سب مل کر ان کی مدد کریں تو مولانا نے مدد سے انکار کرتے ہوئے کہا: میں راضی نہیں ہوں کہ آپ لوگوں میری وجہ سے مشکل میں پڑیں، میں جارچہ کو ترک کرکے کسی اور جگہ چلا جاؤں گا ۔ آخرکار انہوں نے جارچہ کے لوگوں سے کوئی مدد قبول نہیں فرمائی۔
قاری جعفر علی صاحب روزہ نماز اور احکام شرعی کے پابند تھے اور حکم شرعی کو بیان کرتے وقت کسی سے نہیں ڈرتے تھے۔
آپ نواب فضل علی خان بہادر اعتمادالدولہ دہلی کے مدرسہ کے میں مدرس اعلیٰ رہے اور اسی طرح مدرسہ منصبیہ میرٹھ میں بھی مدرس اعلیٰ رہے مگر آپ نے کچھ وجوہات کی بنا پر میرٹھ ترک کردیا۔
علی گڑھ یونیورسٹی کے بانی جناب" سر سید احمد خان" صاحب نے یونیورسٹی کے شعبہ دینیات میں مدرس اعلیٰ کے لئے درخواست کی مگر آپ نے ان کو مثبت جواب نہیں دیا۔
اس کے بعد آپ عازم حیدر آباد ہوئے اور وہاں مولانا کے قیام کے دوران جناب سرسید احمد خان صاحب بھی عازم حیدر آباد ہوئے انہوں نے قاری جعفر صاحب سے ملاقات کی اور پھر اپنی درخواست مولانا کے سامنے رکھی، قاری صاحب نے ان کا احترام کرتے ہوئے یونیورسٹی میں تدریس کا وعدہ کر لیا اور حیدر آباد کو ترک کرکے علی گڑھ تشریف لے آئے۔
موصوف اپنی عمر کے آخری حصہ تک علیگڑھ یونیورسٹی کے شعبہ دینیات میں خدمات انجام دیتے رہے۔
مولانا قاری جعفر علی صاحب کے بچوں میں شمس العلماء قاری عباس حسین (جو عالم ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھےقاری بھی تھے)، جناب سید ہادی حسین صاحب اور جناب سید شبیر حسین صاحب کے اسماء قابل ذکر ہیں۔
قاری جعفر صاحب 84 سال کی عمر میں سنہ 1314 ہجری میں اس دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کر گئے اور جارچہ میں موجود اپنے آبائی قبرستان میں دفن ہوئے۔
ماخوذ از : نجوم الہدایہ (تذکرہ علمائے شیعیان ہند)، ج2، ص45 ۔
آپ کا تبصرہ