۲۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۹ ذیقعدهٔ ۱۴۴۵ | May 17, 2024
مولانا سبحان علی خان بریلوی

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | مولانا سبحان علی خان سن 1180 ہجری میں شہر بریلی صوبہ اترپردیش میں پیدا ہوئے ، موصوف کے والد جناب علی حسین کنبوہ کے نام سے معروف تھے۔

علامہ عبدالحیی کے بقول: "مولانا سبحان علی کے بزرگ قائن (خراسان-ایران)سے ہندوستان آئے تھے"۔ نواب سبحان علی خان کا شمار اپنے دور کے مشہور و معروف اور بزرگ علماء میں ہوتا ہے، موصوف علم منطق، فلسفہ، ادب، تفسیر، حدیث اور فقہ وغیرہ میں قابلِ رشک مہارت کے مالک تھے۔

مولانا سبحان علی خان کے، علامہ شیخ محمد علی حزینؔ لاہیجی اور علامہ تفضل حسین خان سے بہت گہرے تعلقات تھے۔ غفرانمآب علامہ سید دلدار علی، مولانا سبحان علی کا بہت احترام کرتے تھے۔ مفتی محمد قلی، مفتی محمد عباس شوشتری، سلطان العلماء سید محمد بن غفرانمآب وغیرہ نے جو مولانا سبحان علی کے نام خطوط لکھے ہیں ان سے سمجھ میں آتا ہے کہ مولانا موصوف کتنے باصلاحیت ، مقدس اور اہم شخصیت کے مالک تھے!۔

کتاب حصن المتین میں ہے کہ مولانا سبحان علی، فاضل کامل، فصیح، ادیب، عابد، نماز شب کے پابند اور کثیرالبکا تھے۔ علم طب، ریاضی اور کلام میں ماہر تھے۔ ان کا علم و تقدّس اس بات کا سبب قرار پایا کہ بادشاہ اور وزراء سے گہرے تعلقات رہے۔

کلیات نثر غالب میں مولانا موصوف کے تین خطوط دیکھنے میں آئے ہیں، مفتی محمد عباس شوشتری نے موصوف کی شان میں قصیدہ لکھا ہے۔ مولانا موصوف کی تحریر میں عربی و فارسی کے خطوط بھی نظر آئے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ متعدد زبانوں میں ماہر تھے، ان میں سے عربی، فارسی، انگلش اور عبری کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے۔

مولانا پہلے تو غازی الدین حیدر کے استاد رہے اس کے بعد نصیرالدین حیدر کے زمانہ میں حکومت کی نیابت، وزارت، نظارت اور سرپرستی بھی آپ ہی کے ذمہ تھی اور اس ذمہ داری کی بابت حکومت سے پچاس ہزار روپئے ملتے تھے؛ علماء، ارباب ریاست و سیاست آپ سے مشورہ کرتے تھے؛آپ اپنا ہر کام نہایت احتیاط اور دوراندیشی کے ساتھ انجام دیتے تھے۔

سن 1243ہجری میں جب "آقامیر" پر سیاسی زوال آیا تو مولانا سبحان علی کے خلاف بھی سازش رچی گئی جس کے سبب موصوف کو حکومتی امور سے معزول کردیا گیا لیکن جب غلط فہمی کا ازالہ ہوا تو مولانا کو ان کے منصب پر دوبارہ بحال کردیا گیا اور آپ پھر اسی طرز پر مشورہ دینے لگے۔

مولانا سبحان علی عتبات عالیات اور بیت اللہ الحرام کی زیارات سے مشرف ہوئے۔ آپ مختلف علوم میں ماہر تھے چنانچہ متعدد موضوعات پر کتابیں بھی تالیف کیں جن میں سے اکثر کتابیں جنگ آزادی کی نذر ہوگئیں اور کچھ کتابیں گھر تبدیل کرتے وقت ضائع ہوگئیں۔

سن 1857عیسوی کی جنگ میں علماء کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا، اس دوران مولانا سبحان علی بھی نقصان سے دوچار ہوئے لیکن "ہمت مردان مدد خدا" کے تحت انہوں نے شکست کو قبول نہیں کیا اور اپنے کام کو جاری و ساری رکھا۔ آپ نے عوام الناس کے لئے جو کار خیر انجام دیئے ہیں ان میں سے "خیریہ اودھ" کا نام روز روشن کی مانند واضح ہے۔

اگرچہ حکومت اودھ کا زمانہ بہت کم تھا لیکن اس مختصر عرصہ کو غنیمت شمار کرتے ہوئے دین کے خدمتگزاروں نے قومی خدمت کے حوالہ سے کسی قسم کی کوتاہی نہیں کی بلکہ آپ نےحتی الامکان خدمات انجام دیں؛ مطب ، کلینک، ہاسپٹل ، اسکول، نشر و اشاعت کے ادارے اور تحقیقی مراکز بنائے ۔ ان کی خدمات میں سے ضرورتمندوں کے لئےگھر بنوانا، مسجد، امامباڑے، باغات وغیرہ بھی قابل ذکر ہیں۔

18 ذی الحجہ سن 1234ہجری کی مبارک تاریخ میں غازی الدین حیدر کی رسم تاجپوشی انجام پائی اور ان کی بادشاہت کا اعلان ہوا، اس زمانہ میں سب سے اہم کام جو مولانا سبحان علی نے انجام دیا وہ یہ تھا کہ جو اموال انگریزوں کے ذریعہ برطانیہ پہنچ رہا تھے، آپ نے اس کا رخ ضرورتمندوں کی طرف موڑ دیا اور وہ رقومات ان تک پہنچائیں۔ یہ کام موصوف نے اس لئے انجام دیا کہ سن 1229ہجری میں بادشاہ یمین الدولہ کی رحلت ہوگئی تو اس کے تمام مال ومنال پر فرنگی کارندے، چیل جیسی آنکھیں گاڑے ہوئے تھےلہٰذا مولانا نے اس کے ذریعہ محتاجوں کی مدد فرمائی ۔

محمد شاہ کنبوہ کا بیان ہے: میں نواب سبحان علی خان کا پوتا ہوں، ایک عرصہ سے کربلا میں مقیم ہوں، میں یہاں پر زمیندار ہوں، انہوں نے(یعنی میرے دادا سبحان علی خان نے) یہ جائداد بادشاہ غازی الدین حیدر کے ذریعہ وقف کرائی تھی۔

مولانا سبحان علی خان نے کافی تعداد میں علمی سرمایہ چھوڑا جس میں سےشمس-الضحیٰ، شرح حدیث اثر،حدیث ثقلین، حدیث حوض، لطافۃ المقال، جواب رسالہ مکاتیب حیدر علی وغیرہ کے نام لئے جاسکتے ہیں۔

خداوند عالم نے مولانا موصوف کو پانچ نعمتوں سے نوازا جن کے اسمائے گرامی کچھ اس طرح ہیں: احسان حسین، مظفر حسین، فدا حسین، رضا حسین و پیارے صاحب۔

آخرکار مولانا سبحان علی خان سن 1264ہجری میں جہانِ فانی سے جہانِ باقی کی طرف کوچ کرگئے اور آپ کی وصیت کے مطابق نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد کربلائے معلّی عراق میں سپردِ خاک کیا گیا۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ(دانشنامہ علمای شیعہ در ھند-دایرۃ المعارف)، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج9، ص271، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2023ء۔

ویڈیو دیکھیں:

https://youtu.be/8-LLXW2ixl8?si=j1N6uIKo1zNKyhaD

تبصرہ ارسال

You are replying to: .