حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، علی گڑھ ہندوستان میں پروفیسر سید غلام مرتضٰی نقوی مرحوم ابن سید معظم حسین نقوی مرحوم طاب ثراہ کی روح کے بلندی درجات کے لئے امامیہ ہال، نیشنل کالونی، امیر نشاں میں مجلسِ سید الشہداء کا اہتمام کیا گیا، جس سے مولانا مصطفیٰ علی خان نے خطاب کیا۔
مجلس کا آغاز قرآن کریم کی تلاوت سے ہوا۔ جناب ضامن رضا صاحب شکار پوری نے اپنی مخصوص آواز، انداز، لب و لہجہ میں سید الشہداء کی بارگاہ سوز خوانی کی صورت میں میں خراجِ عقیدت پیش کیا۔
مولانا سید شباب حیدر صاحب قبلہ نے مرحوم کی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اپنی زندگی کو کامیاب و خوبصورت بنانا آسان ہے، لیکن جو مؤمن ہوتا ہے وہ اپنی زندگی کے اعمال پر نظر رکھتا ہے اس کے ساتھ وہ اپنی اولاد، عزیز، اقارب، پڑوسی، ضرورتمندوں اور قوم کے سبھی افراد پر نظر رکھتا ہے، یہی خوبی مرحوم سید غلام مرتضٰی میں پنہاں تھی۔ کسی کی حاجت پوری کرتے وقت آدھار کارڈ کا مطالبہ نہیں کرتے۔
پروفیسر (ڈاکٹر) مولانا اعجاز قائمی صاحب نے مرحوم کی صلہ رحمی سے مؤمنین کو روشناس کروایا اور صلہ رحمی کی فضیلت اور قطع صلہ رحمی کے نقصانات پر تفصیلی گفتگو کی۔
مجلس عزاء سے حجت الاسلام والمسلمین مولانا مصطفٰی علی خان صاحب قبلہ نے نیز خطاب کیا۔
مولانا موصوف نے ان آیت مبارکہ کا ذکر کیا جس میں خداوند عالم مؤمنین کو مخاطب کرتے ہوئے فرما رہا ہے کہ صادقین کے ساتھ ہو جاؤ۔ رحمٰن و رحیم نے 80 مقامات پر مؤمنین کو خطاب کیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالٰی نے مشرکین، کفار اور انبیائے کرام علیہم السّلام سے بھی خطاب کیا ہے۔
مولانا مصطفیٰ خان نے کہا کہ تقویٰ کے ساتھ اپنے اعمال پر بھی توجہ لازمی ہے، استعمال کیا جانے والا لباس و خوراک پر بھی نظر ہونی چاہیئے اور ہمارا کردار بھی با بصیرت ہو۔
انہوں نے آیت اللہ سید محمد کاظم قزوینی اعلیٰ اللہ مقامہ کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا کہ آپ نے معصومین علیہم السلام پر کتابیں تصنیف کی ہیں۔ آپ کی وصیت تھی کہ کتاب "فاطمتہ الزہراؑ" دفن کرتے وقت میرے سینے پر رکھ دینا۔ ان کی وصیت کی تکمیل ہوئی۔ میں بذات خود آپ کی قبر کشائی کے چشم دید گواہ ہوں۔
مولانا نے کہا کہ مرحوم قزوینی طاب ثراہ کی رحلت کے سترہ سال کے بعد جب حضرت معصومہ س کے حرم کی توسیع کے لیے آپ کی قبر کشائی کی گئی تو آپ کا جسد خاکی اور آپ کی وصیت کے مطابق آپ کے ساتھ رکھی گئی مشہور و معروف کتاب "فاطمتہ الزہؑرا من الھدا الی الحد" بھی صحیح و سالم نکلی۔ جیسے حضرت حُر کے جسد خاکی اپنی اصلی حالت میں دیکھا گیا، لہٰذا کربلا سے ہم عبرت حاصل کریں، شہادت کے لئے آمادہ ہوں۔ حضرت زینبؑ بنت حیدر کرارؑ کے روضہ اقدس کی حفاظت میں ایران، عراق، شام، لبنان، یمن، پاکستان اور افغانستان کے مؤمنین نے اپنی جان کو قربان کر دیا اور مسلسل قربانیاں پیش کر رہے ہیں، لیکن ہم ہندوستانی خراب حالات میں روضہ مقدسہ کی زیارت کے لیے بھی نہیں جاتے، شہادت دینا تو دور کی بات ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم العجل العجل تو کہتے ہیں اور اعوان و انصار میں شامل ہونے کی دعا کرتے ہیں، لیکن امام زمانہ عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف آگئے تو کیا ہوگا؟
مجلسِ سید الشہداء میں کثیر تعداد میں مؤمنین نے شرکت کی۔