حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سرسید احمدخان نے جب مدرستہ العلوم قائم کیا تو باقاعدہ ایک کمیٹی تشکیل دی، جس کے اراکین کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس ادارے میں دینی تعلیم اور اس کے نصاب سے متعلق غور و خوض کر کے لائحۂ عمل تیار کریں اور مناسب تجاویز پیش کریں تاکہ اس کو عملی شکل دینے کی طرف پہل کی جا سکے۔
واضح رہے بانی درسگاہ سر سید احمد خان نے شیعہ دینیات اور سنی دینیات دونوں کے لیے الگ الگ کمیٹی تشکیل دی تھی۔
شعبہ سنی دینیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ندیم اشرف نے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ سرسید احمد خان نے جب مدرسۃ العلوم کی بنیاد ڈالی تو ان کے ذہن میں کافی کشادگی تھی، وہ دور اندیش شخص تھے۔
انہوں نے سوچا مسلمانوں کو پہلے اس علوم سے آراستہ کیا جائے کہ جن کے ذریعہ انگریز ان پر حکومت کر رہے ہیں۔ اسی کے ساتھ ان کے ذہن کے دوسرے خانے میں بھی بات تھی کہ جب تک دینی تعلیم سے طلباء کا رشتہ ہموار نہیں ہوگا تب تک ایک کامیاب انسان کا تصور نہیں ہو سکتا۔ اس لیے سرسید احمد خان نے باقاعدہ دینی تعلیم کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی۔
سر سید احمد خان نے جب 1875 میں مدرسۃ العلوم کے قیام کا ارادہ کیا تو ان کی نیت پر شک کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ وہ اپنے نظریات کے فروغ اور اشاعت کے لیے کالج قائم کر رہے ہیں۔
سر سید نے ان تمام باتوں سے بے پروا ہو کر وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں علماء سے یہ ذمہ داری سنبھالنے کی گزارش کی اور انہیں اس بات کا یقین دلایا کہ اس شعبہ میں ان کی کوئی مداخلت نہیں ہوگی بلکہ آپ کے تجویز کیے گئے نصاب کے مطابق دینیات کا درس ہوگا۔ تا کہ طلبہ کو عصری علوم کے ساتھ دینی علوم بھی مل سکیں۔
بالاآخر طلبہ کی دینی تربیت اور نشو و نما کے لیے بانی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا قاسم نانوتوی کے داماد مولانا عبداللہ انصاری کا انتخاب عمل میں آیا۔
مولانا عبداللہ انصاری 1893 میں علی گڑھ آئے اور بحیثیت ناظم دینیات اپنے فرائض کی انجام دہی میں مشغول ہو گئے اور اپنی وفات تک 1925 اس منصب پر فائز رہے۔
ان کی قیادت میں مدرسۃ العلوم نے عالم اسلام میں اپنا نمایاں مقام اور مرتبہ قائم کیا۔
اس طرح سرسید احمد خاں نے قدیم صالح اور جدید نافع کے حسین امتزاج کا جو خواب دیکھا تھا وہ شرمندہ تعبیر ہونے لگا۔
1925 کے بعد دینیات کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔
1۔ صدارت برائے عمومی تعلیم دینیات۔
2۔ نظامت برائے نگرانی مذہبی امور۔
صدر شعبہ کی حیثیت سے اس وقت کے نامور عالم دین مولانا سلیمان اشرف نے اپنی ذمہ داری سنبھالی جبکہ مولانا ابو بکر جون پوری ناظم دینیات مقرر کیے گئے۔ یہ دونوں حضرات علمی اور دینی حلقوں میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔
اے ایم یو دینیات فیکلٹی کے ڈین پروفیسر ایم سعود عالم قاسمی نے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ اے ایم یو دینیات فیکلٹی میں تعلیمی شعبے تو دو ہیں سنی اور شیعہ دینیات۔ اس کے علاوہ انتظامی شعبہ بھی ہے جو نظامت دینیات کہلاتا ہے۔ وہ بھی شیعہ سنی دو حصوں میں ہیں، جن کا کام مساجد، قبرستان اور مذہبی امور کی نگرانی کرنا ہے۔
دینیات فیکلٹی میں شیعہ سنی دونوں کو ملا کر تقریباً 200 طلباء ہوتے ہیں۔ شیعہ شعبہ میں 6 اور شعبہ سنی میں 13 اساتذہ ہیں اور تقریباً 60 ریسرچ سکالر ہیں۔
شیعہ دینیات کے صدور ایک نظر میں
مولانا سید علی نقی نقوی 1971- 1960 تک شعبہ صدر رہے، ان کے بعد بالترتیب سید مجتبیٰ حسن، پروفیسر سید کلب عابد، پروفیسر سید قاسم نقوی، پروفیسر سید منظور محسن نقوی، ڈاکٹر مرتضیٰ حسین، پروفیسر سید فرمان حسین، پروفیسر سید علی محمد نقوی صدر ہوئے۔ ڈین فیکلٹی دینیات کی حیثیت سے پروفیسر توقیر عالم اور پروفیسر محمد سلیم بھی صدر ہوئے۔
شعبہ سنی دینیات کے صدور ایک نظر میں
پروفیسر سید احمد اکبر آبادی نے 1960 سے 1979 تک بحیثیت صدر اس شعبہ کی خدمات انجام دیں۔ ان کے بعد بالترتیب پروفیسر قاضی مظہر الدین بلگرامی، پروفیسر فضل الرحمن نوری، پروفیسر قاری رضوان اللہ، پروفیسر تقی امینی، پروفیسر روفہ اقبال، پروفیسر عبدالعلیم خان، پروفیسرز ذین الساجدین صدیقی، ڈاکٹر نسیم منظور، پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی، پروفیسر عبدالخالق، ڈاکٹر مفتی زاہد علی خان، پروفیسر توقیر عالم اور سلیم صدر شعبہ مقرر ہوئے۔
خلاصہ یہ ہے کہ شعبہ دینیات روز اول سے ہی یونیورسٹی میں اسلامی ماحول قائم کرنے، اسلامی تہذیب و ثقافت کو فروغ دینے اور طلباء کی قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی کرنے میں مصروف ہے۔
اس لئے بقول پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی "یہ محض ایک شعبہ نہیں بلکہ دینی تعلیم اور مذہبی سرگرمیوں کا ایک ایسا مرکز ہے جو یونیورسٹی کے جملہ شعبوں سے کسی نہ کسی درجے میں مربوط ہے"۔