۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
مولانا آزاد نیشنل

حوزہ/ہندوستان میں فارسی کے فروغ کے لیے صرف ایران ہی نہیں پورے وسطی ایشیاء نے اہم رول ادا کیا ہے۔ مغل دور کو ہندوستان میں فارسی کا سنہرا دور کہا جاتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق فارسی کے فروغ میں خواتین کا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا کہ مردوں کا۔ عہد وسطیٰ میں ہمیں بڑے پیمانے پر ایسی خواتین نظر آتی ہے جنہوں نے ادب و ثقافت کے فروغ میں نمایاں رول ادا کیا۔ اس سلسلہ میں ایک اہم نام مغل حکمراں ہمایوں کی بہن گلبدن بیگم کا ہے جس نے 'ہمایوں نامہ' لکھا۔ اس طرح انہیں ہندوستان میں پہلی تاریخ نویس خاتون قرار دیا جاسکتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز اسکالر پروفیسر آذرمی دخت صفوی، مشیر پرشین ریسرچ انسٹیٹیوٹ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، شعبۂ فارسی کے زیر اہتمام دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں کلیدی خطبہ دیتے ہوئے کیا۔

اس کانفرنس کا عنوان ''فارسی زبان، ادب، سائنس، فن، تہذیب اور ثقافت کے فروغ میں خواتین کا حصہ'' تھا۔ اسے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، نئی دہلی کے تعاون سے منعقد کیا گیا، پروفیسر ایوب خان، وائس چانسلر انچارج نے اسکی صدارت کی۔

پروفیسر صفوی نے کہا کہ ہندوستان میں فارسی کے فروغ کے لیے صرف ایران ہی نہیں پورے وسطی ایشیاء نے اہم رول ادا کیا ہے۔ مغل دور کو ہندوستان میں فارسی کا سنہرا دور کہا جاتا ہے اور مغل ازبیکستان سے آئے تھے ۔ پروفیسر صفوی نے اس دور کی خواتین کے نام گنوائے جنہوں نے فارسی زبان و ادب کی بڑی خدمت کی۔ انہوں نے کہا کہ جہانگیر کی ملکہ نورجہاں ایک بہترین شاعرہ تھیں۔ ان کے علاوہ رضیہ سلطانہ نے بھی فارسی ثقافت کو کافی فروغ دیا۔ دیگر خواتین میں رابعہ، حمیدہ، ماہم بیگم، جاناں بیگم، زیب النساء، قندھار بیگم، بیگمات بھوپال اور دکن میں ماہ لقا بائی چندا نے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ 

ایوب خان، وائس چانسلر انچارج نے کہاہے کہ دنیا میں خواتین کا مقام اہم ہے۔ انہوں نے موضوع کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ آج کے دور میں اس طرح کے موضوعات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کسی بھی دیئے گئے کام میں اکثر مردوں سے بہتر ثابت ہوتی ہیں۔ مولانا رحیم الدین انصاری، صدر نشین تلنگانہ اردو اکیڈیمی نے کہا کہ خواتین پر سمینار یقینا ضروری ہے۔ اسلام نے بھی خواتین کو اعلیٰ مراتب پر فائز کیا۔ چنانچہ ماں کے قدموں کے نیچے جنت قرار دیا گیا۔ اسی طرح بہن اور بیٹی کے ساتھ بہتر سلوک کی تعلیم دی گئی۔

پروفیسر عزیز الدین، سابق ڈائرکٹر، رضا لائبریری، رام پور نے کہا کہ جاگیردارانہ نظام کے باعث خواتین کو تعلیم سے دور کردیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ تیرہویں تا اٹھاورہویں صدی کے لمبے عرصے تک خواتین کے لیے کوئی مدرسہ نہیں تھا۔ جبکہ خانقاہوں میں مردوں اور خواتین کی تعلیم کا انتظام ضرور رہا۔ خواتین کی تعلیم اور بااختیاری پر توجہ انگریزوں کے دور میں باضابطہ طور پر دی گئی۔

ڈاکٹر علی رضا قزوہ، نائب ثقافتی قونصل، ایران کلچر ہائوس، نئی دہلی نے کہا کہ انقلابِ ایران کے بعد ایران میں خواتین کا رول بڑھ گیا ہے۔ پروفیسر احمد جان فرانبکوف، تاشقند، ازبیکستان نے بھی خطاب کیا۔پروفیسر عزیز بانو، ڈائرکٹر سمینار نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ فارسی کے فروغ میں خواتین کا اہم رول ہے۔ حیات بخشی بیگم جو قطب شاہی دور میں ایک بادشاہ کی بیٹی، دوسرے بادشاہ کی بیوی اور تیسری بادشاہ کی ماں تھیں کا دکن پر نمایاں اثر نظر آتا ہے۔ ان کا اثر نہ صرف تعمیرات پر تھا بلکہ انہوں نے تعلیم کی ترویج پر بھی کافی کام کیا۔ ماہ لقا بائی چندا کی ہی جاگیر پر عثمانیہ یونیورسٹی قائم ہوئی۔

پروفیسر شاہد نوخیز اعظمی نے مہمانوں کا خیر مقدم کیا۔ ڈاکٹر عصمت جہاں نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ڈاکٹر جنید احمد، کوآرڈینیٹر کانفرنس کے شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ ڈاکٹر ثمینہ کوثر، اسسٹنٹ پروفیسر عربی کی قرأت کلام پاک سے جلسہ کا آغاز ہوا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .