حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حیدرآباد/ ہر انسان جو خدا کو مانتا ہے وہ دوسروں کا احترام کرنا بھی جانتا ہے۔ مختلف لوگ مختلف زبانوں اور مذہبوں میں اوپر والے کو خدا، اللہ، ایشور، گاڈ کہتے ہیں۔ اس سے سمجھ میں آتا ہے کہ زبانیں تو مختلف ہیں لیکن ان میں پنہا معنی ایک ہی ہیں۔ یہ زبانوں کی خوبصورتی ہے۔ اسی کو سمجھتے ہوئے ہمیں اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہے۔ تبھی ہم اپنے وطن کو ایک بہترین ملک بنا پائیں گے۔ دفاع کے ماہر ڈاکٹر اندریش کمار نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں آج ”بھارت کے اتحاد میں زبانوں کے کردار“ کے زیر عنوان سمینار میں کلیدی خطبہ دیتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا۔ پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر مانو یو جی سی - مرکز برائے فروغ انسانی وسائل کے زیر اہتمام منعقدہ قومی سمینار کے صدر نشین تھے۔
ڈاکٹر اندریش کمار نے کہا کہ جو ہمیشہ تناﺅ میں رہے، تشدد جس کا وطیرہ ہو اور لوگوں کو جو تناﺅ میں رکھے اسے برا انسان کہیں گے جبکہ ایسا انسان جو خود خوش رہے، لوگوں کو سہولت پہنچائے اور انہیں خوش رکھے اسے ایک اچھا انسان کہا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سبھی کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں میں اتحاد، امن اور یکجہتی کو فروغ دیں۔
پروفیسر سید عین الحسن نے کہا کہ قدیم ایران میں تین طرح کے رسم الخط رائج تھے اور تینوں کے ماہرین بھی تھے تو اس پر وہ لوگ فخر کرتے تھے۔ لیکن ہندوستان میں کئی زبانیں بھی موجود ہیں، ان کا رسم الخط بھی موجود ہے اور ان میں اعلیٰ پائے کا ادب بھی ہے۔ اس سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ بحیثیت ہندوستانی ہم کتنے قابل فخر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 11 ویں صدی عیسوی سے ہی ہماری زبان کا آغاز ہوگیا تھا ۔ اس وقت محمود غزنوی کی فوج میں یہاں کے عوام سے رابطہ کے لیے فوجیوں او رمقامی زبان کے ماہرین موجود تھے۔ رفتہ رفتہ کھڑی بولی کے بیچ کی نشو نما ہوئی۔ پودے ابھرے، جوان ہوئے جڑوں میں ہندی پہنچ گئی اور شاخوں پر اردو نمودار ہوئی۔
پروفیسر ای سریش کمار، رکن یونیورسٹی گرانٹس کمیشن و وائس چانسلر، ایفلو، حیدرآباد نے کہا کہ جو لوگ تین زبانیں جانتے ہیں کہ وہ مسائل کو بہتر طور پر سمجھ کر ان کا بہترین حل نکال سکتے ہیں اور جو لوگ چوتھی زبان بھی جانتے ہیں وہ مزید بہتر ہوتے ہیں۔ انہوں طلبہ کو زیادہ زبانیں سیکھنے کی مشورہ دیا۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ جانے والے ہندوستانی عمومی طور پر تین زبانوں کے ماہر ہوتے ہیں ایک ان کی مادری زبان ہوتی ہے، دوسری ہندی یا اردو اور پھر وہ انگریزی بھی جانتے ہیں اس لیے وہاں پر عمومی طور پر کامیاب ہوتے ہیں۔
پروفیسر بی جے راﺅ، وائس چانسلر، یونیورسٹی آف حیدرآباد نے کہا کہ ہندوستان دنیا کے لیے ایک تحفے کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیونکہ یہاں خیالات کی کثرت پائی جاتی ہے۔ اگر ہم اپنی زبان کو محفوظ کریں گے تو اپنے خیالات کو بھی محفوظ کریں گے۔ ہم اپنی زبان میں سونچتے ہیں اور لیکن ضرورت کے مطابق انگریزی یا کسی اور زبان میں مافی الضمیر بیان کرتے ہیں۔
پروفیسر شاہد اختر، رکن ، نیشنل کمیشن فار مائناریٹی ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنس ، حکومت ہند نے کہا کہ اردو اتحاد کی زبان ہے۔ اگر ہم زبان کو اہمیت نہیں دیں گے تو اپنی تہذیب سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں کے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح اسمارٹ سٹی کے طرز پر شہروں کو ترقی دی جاتی ہے اسی طرح ہمہ لسانی شہر بھی فروغ دیئے جائیں۔ اس کے لیے انہوں نے ان کی ریاست جھارکھنڈ میں موجود شہر جمشیدپور کی مثال پیش کی۔ جہاں ٹاٹا کمپنی کے باعث ہندوستان بھر کی تمام زبانیں بولنے والے لوگ پائے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زبانوں کے ذریعہ اتحاد قائم ہوتا ہے اور اتحاد ملک کی ترقی کا ضامن ہوتا ہے۔
پروفیسر پی فضل الرحمن، کنوینر سمینار و ڈائرکٹر مرکز برائے فروغ انسانی وسائل نے ابتداءمیں خیر مقدم کیا۔ انہوں نے کہا کہ قدیم ہندوستان میں سنسکرت کی اہمیت رہی وہیں عہد وسطیٰ میں اردو اور ہندی نے اپنے قدم جمائے۔ انہوں نے اردو زبان کے لسانی تنوع کا حوالہ دیتے ہوئے یونیورسٹی میں تلگو اور سنسکرت کے شعبوں کے قیام کی خواہش ظاہر کی۔
ڈاکٹر شکیل احمد، اسسٹنٹ پروفیسراسلامک اسٹڈیز نے کاروائی چلائی اور مہمانوں کا تعارف پیش کیا۔ ڈاکٹر بونتھو کوٹیا ، اسسٹنٹ پروفیسر و سمینار کے کو آرڈینیٹر نے شکریہ ادا کیا۔ جناب عاطف عمران کی قرا ٔت کلام پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا۔