حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ہندوستان کے ممتاز اسلامی اسکالر و جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ موجودہ حالات میں یہاں ملک میں جو ہورہا ہے اس میں اکثریت کا ایک چھوٹا سا طبقہ ملوث ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلاشبہ اکثریت اس سوچ کے خلاف ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ طبقہ خاموش ہے۔
انہوں نے کہا کہ کہیں ہولی پر مساجد میں نماز جمعہ کو روکا جارہا ہے تو کہیں مندر کے میلے میں مسلمانوں کو دکانیں لگانے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ اب وقت کا تقاضا ہے کہ مسلم رہنماؤں کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا، ایک مشترکہ حکمت عملی تیار کرنی ہوگی، وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سے بات کرنی ہوگی۔ انہون نے کہا کہ ان کا سیاسی نظریہ مختلف ہوسکتا ہے لیکن وہ ملک کے اہم عہدوں پر ہیں۔
پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو ہی اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ امن و امان برقرار رہے، کسی کے مذہبی جذبات مجروح نہ ہوں، کسی مذہب کی توہن نہ ہو۔
پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ مسلم لیڈران کو وزیر اعظم سے ملاقات کرکے اس سلسلے میں ان کا موقف معلوم کرنا چاہیئے، یہ معلوم کرنا چاہیئے کہ اس سلسلے میں وہ کیا اقدام کرسکتے ہیں کیونکہ جو کچھ ملک میں ہورہا ہے وہ ملک کے وقار اور معیار متاثر کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک جانب ’ہندو دھرم سنسد‘ کے نام پر مسلمانوں کی نسل کشی کی بات کرنے والے کو ضمانت مل جاتی ہے، حالانکہ وہ سینہ تان کر اپنی بات پر اٹل رہا لیکن دوسری جانب نوجوان طلباء لیڈر کو ضمانت نہیں مل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ مسلم رہنما ملک کے وزیر اعظم سے بات کریں کیونکہ جو لوگ اس قسم کی سرگرمیوں میں شامل ہیں وہ اب نہ صرف دستور بلکہ ترنگا کے بھی خلاف ہیں جو کہ ملک کی جمہوری قدروں اور روح کے خلاف ہے۔