حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مولانا آزاد یونیورسٹی، جودھ پور، انڈیا کے سابق صدر پروفیسر اختر الواسع نے اپنے سفر اور ایران کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا : ایران جانے سے قبل ہمیں ایران کے دہشت اور وحشت زدہ حالات کے متعلق خبریں مل رہی تھیں، ہم ایران کے دار الحکومت تہران پہنچے اور مختلف شہروں میں منعقد کانفرنس میں شریک ہوئے، ہمیں کسی جگہ محصور اور نظر بند کر کے نہیں رکھا گیا، اس کے با وجود ہمیں کہیں بھی کسی بھی شہر میں کسی بھی سڑک پر کوئی احتجاج کرنے والا نظر نہیں آیا۔
انہوں نے ایران میں خواتین کی آزادی اور اختیارات کے سلسلے میں بات کرتے ہوئے کہا: امام خمینیؒ انٹرنیشنل ائرپورٹ پر اترنے کے بعد جب شہر میں داخل ہوئے تو ہر مقام پر خواتین کے اختیارات کے نمونے نظر آئے ، کاؤنٹر سے لے کر سڑک تک اور ویٹر سے لے کر مینیجر تک ہر جگہ خواتین بر سر کار دکھائی دیں گی، اور سب سے اہم چیز یہ کہ ہم نےخواتین کے حجاب دیکھے، بعض نے مکمل حجاب پہن رکھا تھا اور بعض نے مکمل حجاب نہیں کر رکھا تھا، بعض نے چادر زہرا (س) پہن رکھی تھی اور بعض نے اسکارف پہن رکھا تھا، لیکن ہم نے نہیں دیکھا کسی نے اس بدحجاب خاتون کو تازیانہ یا کوڑا لگایا ہو۔
برہنگی مغرب کا نظریہ ہو سکتا ہے لیکن مشرق میں ایسا کوئی تصور نہیں
مولانا آزاد یونیورسٹی، جودھ پور، انڈیا کے سابق صدر نے ایران کے سفر اور مختلف شہروں کے سفر کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا: ہم نے مشہد ، قم، تہران، طوس اور نیشاپور کا سفر کیا اور ان شہروں میں ہمیں کوئی مظاہرہ نہیں دکھائی دیا، البتہ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں ہے کہ بعض ایسے افراد ہو سکتے ہیں جنہوں نے کسی کے بہکاوے اور اشارے پراحتجاج کیا ہو۔
پروفیسر اختر الواسع نے مشرقی تہذیب اور اسلامی ملک کے قانون کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ایران میں برہنگی کی اجازت نہیں ہے، اور یہ صرف عورت نہیں بلکہ مرد کے لئے بھی یہی قانون ہے، اس لئے آپ کو وہاں کوئی شخص شارٹس پہنے روڈ پر چلتا ہوا دکھائی نہیں دے گا، البتہ مسلم معاشروں میں ایسا ہی ہوتا ہے اور کوئی تعجب کا مقام نہیں ہے، لوگ کہیں گے کہ یہ آزادی انسانی کے خلاف ہے، تو بالکل آپ کا یہ تصور اور مغربی نظریہ ہو سکتا ہے لیکن مشرق میں ایسا کوئی تصور نہیں ہے۔
جب پیغمبر اسلام ؐ پر سب کا اتفاق ہے تو یہ اختلاف نہیں ہونا چاہئے
انہوں نے کانفرنس سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا: پچھلے ۳۶ سال سے ایران میں ربیع الاول کے مہینے میں مجمع تقریب بین المذاہب نامی تنظیم کی جانب سے کانفرنس منعقد ہوتی آرہی ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ مذاہب اسلامی میں اتحاد اور اتفاق ہونا چاہئے، جب پیغمبر اسلام ؐ پر سب کا اتفاق ہے تو یہ اختلاف نہیں ہونا چاہئے۔
پروفیسر اختر الواسع نے ہندوستانی مسلمانوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا: ہندوستان کا کوئی بھی مسلمان مذہبی بنیادوں پر اپنے ملک کی دوسری تقسیم نہیں چاہتا، ہندوستان میں مسلمانوں کے درپیش مسائل کا ہم انکار نہیں کرتے لیکن ہمارا عدلیہ اور ہمارا دستور اور ہماری سوسائٹی بنیادی طور پر ہماری حمایت کرتی ہے اور ہمارے ساتھ کھڑی رہتی ہے، لہذا ایک ہندوستان مسلمان ہونے کے ناطے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے ملک کا دفاع کریں۔
انہوں نے تکفیریوں کے متعلق کہا: پیغمبر اسلام ؐ کافروں کو مسلمان بنانے آئے تھے، نہ کہ مسلمانوں کو کافر بنانے آئے تھے، لہذا تکفیر کا کاروبار بند ہونا چاہئے، اور جب اللہ ایک ہے، رسول ایک ہے، کعبہ ایک ہے اور قرآن ایک ہے تو مسلمان ایک کیوں نہیں ہو سکتا؟ لہذا جب تک اتحاد و اتفاق نہیں ہوتا ہم اسی طرح دنیا میں مصیبتوں کا شکار ہوتے رہیں گے۔
پروفیسر اختر الواسع نے فلسطین کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا: ہولوکاسٹ ہٹلر کے ذریعہ یورپ میں ہوا، اس کی سزا مسلمانوں کو کیوں دی جا رہی ہے، ایران اسی سلسلے میں بہت سنجیدگی کے ساتھ احتجاج کر رہا ہے اور ایران میں رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس کا نام دیا گیا ہے، لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ لوگ فلسطین کے مسئلے کو اس طرح نہیں دیکھ رہے ہیں جس طرح دیکھنا چاہئے، جن لوگوں پر اسرائیل سے نمٹنے کی ذمہ داری تھی اور جن کو فلسطین کی حمایت کرنی تھی وہ اسرائیل کے ساتھ ہاتھ ملا رہے ہیں۔