۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
سلمان رشدی

حوزہ/ بدنام زمانہ مصنف کی گردن میں تین سنگین زخم آئے ہیں۔ ایک ہاتھ اس لیے ناکارہ ہے کیونکہ بازو کے اعصاب کٹ گئے ہیں اور سینے اور دھڑ میں تقریباً 15 مزید زخم ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،سلمان رشدی کے ایجنٹ نے ایک ہسپانوی اخبار کو بتایا ہے کہ اگست میں نیویارک میں ہونے والے حملے کے نتیجے میں وہ ایک آنکھ کی بینائی اور ہاتھ میں حرکت سے محروم ہوگئے ہیں۔ سینے اور دھڑ میں بھی تقریباً 15مزید زخم ہیں۔متنازع مصنف سلمان رشدی کے ایجنٹ اینڈریو وائلی نے ہسپانوی اخبار 'ایل پیس' کو بتایا کہ اس سال اگست میں نیویارک میں ایک ادبی تقریب کے دوران ایک شخص نے اسٹیج پر آکر ان کے موکل کو بار بار چاقو مار کر بری طرح زخمی کر دیا تھا۔ اس حملے کے نتیجے میں رشدی کی ایک آنکھ کی بینائی چلی گئی اور ان کا ایک ہاتھ بھی ناکارہ ہوگیا ہے۔ اینڈریو وائلی نے بتایا ''وہ ایک آنکھ کی بینائی سے محروم ہو گئے ہیں...

بدنام زمانہ مصنف کی گردن میں تین سنگین زخم آئے ہیں۔ ایک ہاتھ اس لیے ناکارہ ہے کیونکہ بازو کے اعصاب کٹ گئے ہیں اور سینے اور دھڑ میں تقریباً 15 مزید زخم ہیں''۔ وائلی نے زخموں کو ''گہرا'' قرار دیتے ہوئے کہا کہ ''یہ ایک وحشیانہ حملہ تھا۔'' ایجنٹ نے تاہم یہ بتانے سے انکارکر دیا کہ آیا ''شیطانی آیات" (دی سیٹینک ورسیز) کے 75 سالہ مصنف اب بھی اسپتال میں ہیں۔ اس نے البتہ کہا کہ "وہ صحت یاب ہو رہے ہیں... اور یہ اہم بات ہے۔" توہین مذہب پر مبنی فلم اور رشدی کا ناول پولیس نے بتایا تھا کہ نیو جرسی سے تعلق رکھنے والے ایک 24 سالہ شخص نے سلمان رشدی کی گردن اور دھڑ میں چاقو سے پے درپے وار کیے تھے۔ بفلو سے تقریباً 90 کلومیٹر دور ایری جھیل کے قریب واقع شیتوقوا انسٹی ٹیوشن میں انہیں اسٹیج پر متعارف کرایا جا رہا تھا کہ ایک شخص نے اسٹیج پر آکر اس پر چاقو سے حملہ کردیا۔ حملے میں وہ شدید زخمی ہوگیا اور اسے فوری ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں وہ کئی روز تک وینٹی لیٹر پر رکھا گیا۔ چاقو حملے میں اس کے بازو کے اعصابی نظام کو شدید نقصان پہنچا اور اس کے جگر میں بھی زخم آئے تھے۔ اس کی ایک آنکھ بھی متاثر ہو گئی تھی۔

آیت اللہ خمینی کی جانب سے رشدی کے ناول ''شیطانی آیات'' پر 1989 میں اس کے خلاف ''فتویٰ'' جاری کرنے کے بعد سے ہی اس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ روپوشی میں گزارا۔ امام خمینی علیہ الرحمہ نے اس ناول کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں توہین آمیز قرار دیا تھا اور سلمان رشدی کو قتل کرنے والے کو تین ملین ڈالر انعام دینے کا اعلان کیا تھا۔ حالانکہ بعد میں ایران کی حکومت نے امام خمینی علیہ الرحمہ کے اس فتوے سے خود کو الگ کرلیا تاہم یہ فتوی اب بھی بدستور موجود ہے اور ایک نیم سرکاری ایرانی مذہبی ادارے نے سن 2012 میں انعام میں مزید پانچ لاکھ ڈالر کا اضافہ کیا۔

برسوں تک سخت حفاظتی تنہائی کے بعد رشدی نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران دوبارہ آزادانہ طور پر سفر کرنا شروع کردیا تھا۔ رشدی نے ماضی میں اس بارے میں بات بھی کی تھی کہ کس طرح اس نے کبھی بھی خطرے سے خود کو محفوظ نہیں سمجھا۔ اس کے ایجنٹ وائلی نے کہا کہ حملہ بالکل وحشیانہ انداز میں ہوا، جس کا انہیں خوف تھا، اچانک ایک شخص کہیں سے نمودار ہواور حملہ کر دیا۔" اس نے مزید کہا"آپ اس سے حفاظت نہیں کرسکتے کیونکہ یہ بالکل غیر متوقع اورغیر منطقی تھا۔" اس حملے کی مغرب اور آزادی اظہار کے حامیوں نے سخت مذمت کی لیکن ایران اور پاکستان جیسے مسلم ممالک میں اس کی تعریفیں بھی کیں۔ ملزم اقدام قتل کے مقدمے کا منتظر جائے واردات پر ہی ایک لبنانی نژاد 24 سالہ امریکی ہادی مطر کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔ مطر نیوجرسی میں رہتے ہیں اور انہوں نے قتل کی کوشش کا اعتراف نہیں کیا ہے۔ ہادی مطر نے تاہم واردات کے فوراً بعد ایک اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ انہیں یہ سن کر حیرت ہوئی ہے کہ اس حملے میں رشدی کی موت نہیں ہوئی۔ انہوں نے امام خمینی علیہ الرحمہ کی تعریف کی اور کہا کہ وہ رشدی اور "شیطانی آیات" کو پسند نہیں کرتے، جس کے "صرف چند صفحات" انہوں نے پڑھے ہیں۔ ہادی مطر کے وکیل نے متنبہ کیا ہے کہ اس طرح کے انٹرویو کی اشاعت سے انصاف کا حصول مشکل ہو سکتا ہے۔ ایران کی موجودہ حکومت، جو اس وقت سخت مذہبی قوانین کے خلاف مظاہروں کا سامنا کر رہی ہے، نے چاقو زنی کے واقعے کے بعد کہا تھا کہ "کسی کو ایران پر الزام لگانے کا حق نہیں ہے، رشدی کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے لیے وہ خود اور اس کے حامی ذمہ دار ہیں اور مذمت کے لائق ہیں۔"

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .