تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم،سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
حوزہ نیوز ایجنسی | ہولو کاسٹ سے مراد صہیونیوں کا وہ نظریہ ہے جس کی بنیاد پر صہیونیوں نے سرزمین فلسطین کی طرف اپنی غیر قانونی ہجرت او ر فلسطین پر غاصبانہ تسلط کو جائز قرار دینے کی ناکام کوشش کی ہے۔ ہولوکاسٹ کا نظریہ رکھنے والا یہ صہیونی طبقہ شدت سے اس بات کا پرچار کرتا ہے کہ جرمنی میں یہودیوں کے ساتھ بد ترین مظالم کئے گئے اور ہٹلر کے زمانہ میں یہودیوں کو گیس کے چیمبروں میں بند کر کے موت کی نیند سلا یا گیا، اسی طرح ان کاکہنا ہے کہ سنگین ترین انداز میں یہودیوں کا قتل عام کیا گیا اور چن چن کر یہودیوں کو بد ترین مظالم کا نشانہ بنایا گیا۔البتہ اسی نظریہ کے مقابلہ میں ایک اور نظریہ بھی موجو دہے کہ جس کے معتقدین میں یہودی، عیسائی اور مسلمانوں سمیت دنیا کی دیگر اقوام شامل ہیں۔ ان کاکہنا ہے کہ اس طر ح کے کوئی مظالم نہیں ڈھائے گئے بلکہ جنگ کے زمانے میں جس طرح لوگ جنگوں سے متاثر ہوتے ہیں اور جنگ کا ایندھن بنتے ہیں اسی طرح یہودی بھی چونکہ جرمنی میں آباد تھے اور جنگی حالات کے دوران یہودیوں کو جانی نقصان پہنچا۔ آسان الفاظ میں سمجھانے کے لئے میں یہ کہتا ہوں کہ ایک طرف صہیونیوں کا نظریہ ہے تو دوسری طرف دنیا کی اقوام کے مابین اس نظریہ کا رد بھی موجود ہے۔ حتیٰ بعض مفکرین اور تاریخ دانوں نے ہولوکاسٹ کو ایک افسانہ کہا ہے اور اس افسانہ کو یہودیوں کے لئے ایک ہتھیار جواز کیا ہے کہ جس کی بنیادی پر صہیونیوں نے فلسطین پر یہودیوں کے نام پر ایک ریاست بعنوان اسرائیل قائم کی۔
بہر حال اصل بحث میں داخل ہونے سے پہلے یہ بات بھی واضح کرنا انتہائی ضروری ہے کہ اگر واقعی صہیونیوں کے ہولوکاسٹ کے دعوی میں سچائی ہے اور کچھ دیر کے لئے تسلیم کر لیا جائے کہ جو کچھ صہیونیوں نے ہولوکاسٹ کے بارے میں کہا ہے وہ سب کچھ سچ ہے تو پھر بھی یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ ان سب گناہوں اور مظالم کا انتقال فلسطین پر اسرائیل کے ناجائز قیام کے طور پر لینا اور پھر فلسطین کے اصلی باشندوں کو ان کے اپنے وطن سے باہر نکال دینا اور اسی طرح ستر سال سے زائد عرصہ سے فلسطینی عوام پر وہ سب مظالم ڈھانہ جن کا خود صہیونی اپنے لئے جرمنی کی طرف سے اقرار کرتے ہیں۔کیا یہ انصاف کی بات ہے کیا عقل اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ ظلم یورپ میں ہو اور اس کا انتقام فلسطین میں فلسطینیوں سے لیا جائے؟
ہولوکاسٹ ایک ایسی بحث ہے کہ جس پر بات کرنا مغربی دنی(یورپ اور تمام مغربی دنیا) میں پابندی اور جرم کے قریب تصور کیاجاتا ہے۔ صہیونیوں نے مغربی حکومتوں پر دباؤ ڈال کر یقینی بنا لیا ہے کہ کوئی بھی مغربی دنیا میں ہولوکاسٹ کے متعلق بات نہیں کرے گا۔ آج دنیا بھر کی یونیورسٹیز میں تمام علوم اور معاشرتی مسائل وغیرہ پر تحقیق کی جاتی ہے لیکن مغربی دنیا میں اگر کسی موضوع پر تحقیق سے روکا جاتا ہے تو وہ یہی ہولوکاسٹ کا موضوع ہے۔نہ صرف مغربی دنیا میں اس بات سے روک دیا جاتا ہے بلکہ ہولوکاسٹ کا عنوان شروع کرنے والوں کو سخت اذیت سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے اور کئی ایک مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح دنیا کے گوش و کنار میں کسی بھی جگہ ہولوکاسٹ سے متعلق گفتگو کی جائے یا کوئی تحقیقی کام کرنے کی کوشش کی جائے تو صہیونی لابی مغربی حکومتوں کی مدد سے کسی نہ کسی طرح اس معاملہ پر براہ راست اور بالواسطہ اثر انداز ہو تی ہے اور رکاوٹ کھڑی کرتی ہے۔
مغربی معاشرہ ایک ایسا معاشرہ ہے کہ جس کے بارے میں دنیا میں تاثر پیدا کیا گیا ہے کہ یہاں دنیا کے دیگر ممالک سے زیادہ انسانی حقوق، آزادی اظہار اور دیگر حقوق حاصل ہیں۔اگر چہ مغربی معاشرے کی اصل شکل اس کے بر عکس ہی پائی جاتی ہے۔ مغربی دنیا کی حکومتیں بالخصوص امریکہ دنیا میں انسانی حقوق کو پائمال کرنے میں سب سے آگے ہے۔ اسی طرح برطانوی حکومت کے ماتھے پر فلسطین میں غاصب صہیونیوں کو لا کر اسرائیل بنوانے کا سیاہ داغ آج بھی واضح نظر آ رہا ہے۔ یورپ کے دیگر ممالک میں بھی اسی طرح ک صورت حال موجود ہے۔ہر یورپی ملک کسی نہ کسی طرح امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ مل کر کسی نہ کسی دوسری حکومت اور ممالک کے عوام کے حقوق سلب کرنے میں پیش پیش ہیں۔
مغربی دنیا کی حکومتوں نے انسانی حقوق کے بعد دوسرا ہتھیار جو استعمال کیا ہے وہ آزادی اظہار رائے ہے۔ حالانکہ آزادی اظہار ایک اچھی بات ہے کہ ہر انسان کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا حق دیا جائے۔تا کہ معاشروں میں مختلف ذہیت رکھنے والے افراد ایک دوسرے کے خیالات سے آگاہ ہو سکیں او ر تجربات حاصل کریں۔لیکن مغربی دنیا اور اس کی حکومتوں کی جانب سے ہمیشہ آزادی اظہار رائے کے حق کو دنیا کی دوسری حکومتوں کے خلاف استعمال کرنے کے لئے بطور ہتھیار رکھا گیا ہے۔
آج کی جدید ترین دنیا میں مغربی ممالک میں ہی ہولوکاسٹ کے موضوع پر بات کرنا جرم بنا دیا گیا ہے۔ آزادی اظہار رائے کے کھوکھلے نعروں نے دم توڑ دیا ہے کیونکہ دنیا بخوبی اس بات کا مشاہدہ کر رہی ہے کہ مغربی دنیا کی حکومتیں صرف اور صرف اپنی پسند کی بات کو اظہار کرنے کی اجازت دیتی ہیں لیکن جب بات ہولوکاسٹ کی ہوتی ہے تو یہاں ا ٓزادی اظہار رائے پر باقاعدہ سرکاری سطح پر قدغن لگا دی جاتی ہے۔
مغربی دنیا کی حکومتوں کے دوہرے معیار ہی کا نتیجہ ہے کہ آزادی اظہار کے نام پر دنیا کے دوسرے مذاہب کی توہین کی جاتی ہے، دنیا میں بسنے والی دیگر اقوام اور ان کے مذاہب کا مذاق اڑایا جاتا ہے، مقدسات کی توہین کی جاتی ہے۔ اس معاملہ میں مسلمانوں کو نشانہ پر رکھا گیا ہے۔آئے روز یورپ کے مختلف ممالک میں توہین اسلام، توہین قرآن، توہین رسالت اور نہ جانے کیا کچھ صرف اور صرف آزادی اظہار کے نام پر کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔حالانکہ انہی مغربی معاشرو ں میں کسی کو یہ اجازت نہیں ہے کہ ہولوکاسٹ کے افسانہ پر لب کشائی کریں۔سلمان رشدی جیسا ملعون انسان کہ جس نے نہ صرف خدا وند کریم کی شان میں توہین کی بلکہ تمام انبیائے کرام کہ جن میں حضرت عیسیٰ (ع)، حضرت موسی(ع)، ختمی مرتب نبی کریم (ص) اور حضرت جبرائیل (ع) سمیت خدا کی طرف سے بھیجی گئی آسمانی کتابوں اور آیات کی تو ہین کی ہے۔ایسے ملعون اور شاتم شخص کو اگر کسی نے آزاد اور پناہ گاہ میں رکھا ہے تو وہ یہی مغربی حکومتیں بالخصو ص امریکہ اور برطانیہ ہیں کہ جن کے حکمرانوں کے خو دکے مذہب توہین بھی انہوں نے آزادی اظہار کی نظر کر دی ہے لیکن یہی حکمران جب آپ ہولوکاسٹ کی بات کریں گے تو تکلیف سے بلبلا اٹھیں گے۔
میں یہ سوال اٹھاتا رہوں گا کہ آخر مغرب میں ہولوکاسٹ پر بات کرنا آزادی اظہار رائے کہ خلاف ہے تو پھر دنیا کی اقوام کے مذاہب اور ان کے مقدسات کی توہین کرنے او ر توہین کرنے والوں کو پناہ دینا کیسے درست ہے؟ مغربی دنیا کی حکومتوں کے منہ پر ہولوکاسٹ ایک ایسا طمانچہ ہے کہ جس کی آواز ہمیشہ گونجتی رہے گی۔اب مغربی حکومتیں خود اپنی عوام کو بتائیں کہ آخر ہولوکاسٹ پر بات کرنے کے جرم میں آزادی اظہار کی خلاف ورزی کا قانون لگا کر گرفتاریاں اور مشکلات سے دوچار کیوں کیا جاتا ہے اور دوسرے مذاہب کی توہین اور ان کے مقدسات کی توہین کرنے پر آزادی اظہار کا وہی قانون لاگو کیوں نہیں کیا جاتا جو ہولوکاسٹ پر بات کرنے کے جرم میں لاگو کیا جاتا ہے۔مغرب کا دوہرا معیار نہ صرف دنیا کی دیگر اقوام کا دشمن ہے بلکہ خود مغربی معاشروں کی اقوام کی تباہی کا ذمہ دار بھی ہے۔