۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
سلمان رشدی

حوزہ/ سلمان رشدی پرقاتلانہ حملے کے بعد اظہار رائے کی آزادی کے سوال پر ایک بار پھر بحث چھڑ گئی ہے۔اس وقت پوری دنیا میں اسلام اسکی مقدس ہستیوں اور مقدسات کی بے حرمتی کی ایک لہر سی آئی ہوئی ہے۔خاص بات یہ ہیکہ سلمان رشدی ہی دور حاضر میں اس نفرت انگیز مہم کو شروع کرنے والا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،توہین آمیز کتاب شیطانی آیات کے منصنف اور گستاخ رسول سلمان رشدی پر ریاست نیویارک کے مغربی شہر چوتکوا کی ایک تقریب میں قاتلانہ حملہ ہوا۔رشدی گردن اور پیٹ میں چاقو کے پے در پے وار کے سبب زخمی ہوا۔ سلمان رشدی اس وقت وینٹی لیٹر پر ہے جبکہ اس کے گلے، بازو اور پیٹ میں زخم آئے ہیں۔ زخموں کی وجہ سے سلمان رشدی بولنے کی قوت سے محروم ہوچکا ہے جبکہ اس کی کتابوں کے ایجنٹ کے مطابق ایک آنکھ کی بصارت ضائع ہونے کا خدشہ بھی پایا جاتا ہے۔

سلمان رشدی پر قاتلانہ حملہ۔اظہار رائے کی آزادی پر پھر بحث شروع

سلمان رشدی پرقاتلانہ حملے کے بعد اظہار رائے کی آزادی کے سوال پر ایک بار پھر بحث چھڑ گئی ہے۔اس وقت پوری دنیا میں اسلام اسکی مقدس ہستیوں اور مقدسات کی بے حرمتی کی ایک لہر سی آئی ہوئی ہے۔خاص بات یہ ہیکہ سلمان رشدی ہی دور حاضر میں اس نفرت انگیز مہم کو شروع کرنے والا ہے۔اظہار رائے کی آزادی کے نام پر اسلام اور اسکے مقدسات کی توہین مغرب کے نام نہاد دانشوروں اور ان نام نہاد دانشوروں کے پیروکاروں کا وطیرہ بن چکا ہے۔جب مسلمان اپنے مقدستات کی توہین پر رد عمل ظاہر کرتے ہیں تو دہشت گردی کا ایک اور الزام انکے ماتھے پر لکھ دیا جاتا ہے۔ اسلام اور اسکے مقدسات کی توہین کے واقعات کی ایک طویل فہرست ہے۔

یہ بات بھی قابل غور ہیکہ اسلام دشمنی کی ان تمام حرکات کے پیچھے مغرب کے پاوں کے نشانات صاف اور واضح نظر آتے ہیں۔تمام تر اسلام مخالف سرگرمیوں میں سلمان رشدی سے لے کر چارلی ایبڈو تک مغرب کی حمایت کے نشان دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ حمایتیں مختلف شکلوں میں ہوتی رہی ہیں۔ گستاخ افراد کی سیکورٹی سے لے کر مالی اور تشہیراتی امداد تک سب کچھ اس میں شامل ہے۔

سلمان رشدی پر قاتلانہ حملہ۔اظہار رائے کی آزادی پر پھر بحث شروع

2005میں ڈنمارک کے ایک اخبار میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پیغمبر اکرم (ص) کے اہانت آمیز کارٹون شائع کئے۔ یہ کارٹون بیان کی آزادی کے نام پر ڈنمارک کے اخبار و رسائل میں چھپے اور تیزی کے ساتھ انٹرنیٹ پر پھیل گئے۔۔ان کارٹون کی بنیاد پر اگلے سال یعنی 2006 میں ہالینڈ کے ایک فلمساز نے ایک ڈاکیومنٹری بنائی جس کا نام فتنہ رکھا۔ ڈاکیومنڑی کا آغاز قرآن کے کچھ صفحات سے ہوتا ہے جس کے شروع میں گستاخانہ کارٹون دکھایا جاتا ہے اور قرآن مجید کی آیات اور پیغمبر اکرم (ص) کی شخصیت کی توہین کی جاتی ہے۔ فلم کے آخر میں مسلمانوں سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اپنے قرآن سے ان آیات کو پھاڑ کر پھینک دیں ۔2010میں 11 ستمبر کے واقعے کی سالگرہ کے موقع پر کچھ افراطی اور شدت پسند امریکیوں نے قرآن مجید کو جلایا جس پر مسلمانوں کے جذبات بھڑکے اور شدید غم وغصے کی لہر اٹھی۔ اسی سال قرآن سوزی کے کئی واقعات ہوئے۔ اس قرآن سوزی کا اصلی محرک اور اس آگ کا پہلا شعلہ پادری ٹیری جونز کی طرف سے لگایا گیا۔اس نے اپنے چرچ میں قرآن جلایا تھا۔2011میں اسلام دشمن امریکی پادری ٹیری جونزنے ایک فلم (اینوسینس آف مسلمز) بنائی۔ فلم میں پیغمبر اسلام (ص) کی کردار کشی اور توہین کی گئی تھی۔

سلمان رشدی پر قاتلانہ حملہ۔اظہار رائے کی آزادی پر پھر بحث شروع

جنوری 2015 میں فراسیسی جریدے چارلی ایبڈو نے ایک مرتبہ پھر پیغمبر اسلام (ص) کے متعلق گستاخانہ خاکے شائع کئے۔ توہین آمیز کارٹون کی اشاعت کے بعد پیرس میں جریدے کے دفتر پر حملہ کیا گیا۔ حملے کے دوران 18 افراد مارے گئے جس میں 12 افراد جریدے کے ملازمین تھے۔ مارے جانے والوں میں توہین آمیز کارٹون بنانے والا کارٹونسٹ بھی شامل تھا۔ اور سلمان رشدی نے جریدے کے اس اقدام کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھاکہ مسلمانوں کو اپنی مورد احترام شخصیات کے توہین آمیز کارٹونز برداشت کرنا ہوں گے۔

اس قسم کے اقدامات موجودہ سالوں کے دوران بدستور جاری رہے اور گاہے بگاہے یورپی اور امریکی ملکوں سے اسلام کی توہین اور پیغمبر اکرم (ص)کی کردار کشی اور اہانت پر مبنی خبریں آتی رہی ہیں۔ ابھی کچھ مہینے پہلے سویڈن کے شہر مالمو میں دائیں بازو کے کچھ بنیاد پرستوں نے قرآن مجید کی توہین کی اور قرآن کا ایک نسخہ نذر آتش کردیا۔ اسی طرح ایک بنیاد پرست پارٹی کے رہنما راسموس پالوڈان نے بھی قرآن سوزی کا عمومی اعلان کیا تھا جو کہ موقع پر مسلمانوں کے اعتراض اور احتجاج کی وجہ سے پورا نہ ہوسکا۔

سلمان رشدی پر قاتلانہ حملہ۔اظہار رائے کی آزادی پر پھر بحث شروع

اسلام اور اسکے مقدسات کی توہین اظہار رائے کی آزادی کے نام پر کی جاتی ہے لیکن ہالو کاسٹ کے معاملے پر مغرب کا دوغلہ پن کھل کر سامنے آجاتا ہے۔جرمنی میں یہودیوں کی قتل و غارتگری کے معاملے پر مغرب میں سوال اٹھانا قانونی طور سے جرم ہے۔ اب یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ اگر مغرب آزادی بیان کی حمایت کے نعرے تلے اسلام دشمن افراد کی حمایت کرتا ہے جبکہ ان حرکتوں سے دنیا بھر کے دو کھرب مسلمانوں کے عقیدے کی توہین اور ان کے جذبات مجروح کرتے ہیں تو ہالو کاسٹ پر بات کرنا اظہار رائے کی آزادی کے زمرے میں کیوں نہیں آتا ہے۔ہالو کاسٹ پر بات کرنے کی ممانعت اس لئے ہیکہ مغرب نے ہٹلر کے دور میں یہودیوں کے قتل کے اعداد و شمار بڑھا چڑھا کر پیش کئے۔فلسطین میں یہودیوں کو بسانے اور عربوں کو انکی زمینوں سے بے دخل کرنے کا منصوبہ ہالو کاسٹ کی اسی افسانہ طرازی پر منحصر ہے۔ہالوکاسٹ پر بات کرنے سے مغرب کا جھوٹ بے نقاب ہوتا ہے اور فلسطینیوں کی زمین پر اسرائیل کے ناجائز قیام کے ناپاک منصوبے کی قلعی کھلتی ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .