حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، فرانسیسی صدر کے اسلام مخالف رویے پر مجمع علماء و خطباء حیدرآباد دکن ہندوستان نے سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اظہار خیال کی آزادی کے بہانہ توہین رسالت ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔
بیانیہ کا مکمل متن اس طرح ہے:
بسمہ تعالی
گزشتہ کچھ برسوں میں عالمی استکبار کی جانب سے مغربی دنیا اور ایشایی خطہ میں اسلام ہراسی کی تمام تر کوششوں کے باوجود سلیم العقل و فطرت افراد کا رجحان اسلام کی طرف روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ موج اسلام مغربی ممالک میں برق رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے ۔ اسی موج کی رفتار کو کم کرنے کی غرض سے دشمنان اسلام ، وقتا فوقتاً بانیٔ اسلام سرکار ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی ؐ کی توہین کا حربہ استعمال کرتے ہیں جو کہ اپنے مقصد میں ناکام لوگوں کی نشانی ہے۔ اس سے قبل کئی بار انہوں نے رسول خداؐ کے بیہودہ کارٹون بناکر اسلام اور بانیٔ اسلام سے اپنی دیرینہ دشمنی اور کینہ و بغض کا ثبوت فراہم کیا ہے لیکن ہم ان سے یہی کہنا چاہتے ہیں کہ :
؎نور خد ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
توہین رسالت کے جرم سے زیادہ سنگین جرم یہ ہے کہ بعض نام نہاد جمہوری اور ترقی یافتہ ملکوں کے مذہبی اور سیاسی رہنما ،کسی مذہب کی مقدس ہستیوں کی توہین کے سنگین جرم پر بازپرس اورسزا دینے کے بجائے، اظہار خیال کی آزادی کا حوالہ دے کرتوہین کرنے والے افراد کی تشویق اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔
اظہار خیال کی آزادی جمہوری نظام میں سب کا مسلمہ حق ہے لیکن اس کے حدود بھی واضح اور روشن ہیں کہ اس حق کے نام پر کوئی، کسی عام انسان کی توہین کرنے کا حق نہیں رکھتا چہ جائے کہ کسی عظیم مذہبی شخصیت کی توہین کی جائے کہ جس سے دنیا کے کروڑوں افراد کے والہانہ جذبات وابستہ ہوں ۔اس دنیا میں کسی بھی انسان کا کوئی بھی حق مطلق نہیں ہو سکتا بلکہ تمام حقوق نِسبی ہیں کیونکہ کسی ایک فرد کے لئے مطلق حق اور آزادی کے قائل ہونے کامطلب دوسرے تمام انسانوں کے حقوق اور آزادی کی پامالی ہے۔
لہذا ہم اُس میگزین کے ایڈیٹر کی بھی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں ؛جس نے توہین رسالت پر مبنی کارٹون نشر کیا اور اِس پست عمل کی معافی کے ساتھ آئندہ اس قسم کے مطالب کو نشر کرنے سے پرہیز کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ہم اُس معلم کے عمل کی بھی شدید مذمت کرتے ہیں جس نے اپنے تدریسی فریضہ کو نظر انداز کرکے اپنے شاگردو ں کے درمیان ایک خاص مذہب اور اس کے ماننے والوں کے لئے نفرت اور کینہ پیدا کرنے کی کوشش کی اور تعصب سے کام لیا البتہ ساتھ ہی اس نام نہاد مسلمان کے عمل کی بھی مخالفت کرتے ہیں جس نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے اس معلم کو قتل کیا اور اس کے ذریعہ دشمن کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں دانستہ یا نادانستہ طور پر مدد کی۔
لیکن افسوس کہ فرانس کے صدر مکرون نے ایسے توہن آمیز مواد کے نشر کرنے کو قانونی طور پر جائز قرار دے کر دنیا بھر کے تمام حریت پسند انسانوں کے دلوں کو ٹھیس پہونچائی ہے۔ ہم ان کے حالیہ بیان کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اُن تمام افراد سے فوری طور پر معافی مانگیں جن کے قلوب کو انہوں نے اپنے نازیبا اور نامناسب بیان سے مجروح کیا ہے۔
منجانب: مجمع علماء و خطباء حیدر آباد، دکن، ہندوستان