۱۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 30, 2024
تکریم انسانیت اسلام اور لبرال ازم کی نظر میں

حوزہ/ لبرال ازم کی نظر میں تکریم انسانیت ، ایک بعدی، مادی ، حیوانی اور دنیایی ہے لیکن اسلام کی نظر میں تکریم انسانیت  میں ابعاد مختلف  وجودی، مادی اور معنوی ،حیوانی اور انسانی ، دنیوی اور اخروی سب شامل ہے اس بنا پر تکریم انسانیت  کے موضوع پر اسلام اور لبرال ازم میں فرق  ہے اس لئے ان دونوں مکاتب فکر کو ہم عقیدہ اور ہم فکر سمجھنا صحیح نہیں ہے ۔

تجزیہ نگار: محمد جواد حبیب

حوزہ نیوز ایجنسی। لبرال ازم وہ مکتب فکر یا روش زندگی ہے جسمیں انسانوں کی فردی آزادی پر سب سے زیادہ زور دیا جاتاہے یہ مکتب فکر استبداد اور آمریت (authoritarianism) کے مخالفت کرتی ہے چاہے وہ استبداد حکومت کی جانب سے ہو یا کسی دین و مذھب یا سیاسی پارٹی کی جانب سے ہو یہ مکتب انکے مخالفت کرتی نظر آتی ہے ۔
لبرالیسم فکر کی جڑیں بعض محقیق کے مطابق جب انسان نے اپنی آزادی کے لئے قدم اٹھایا ہے تب سے لبرال ازم کی سوچ شروع ہوئی ہے لیکن لبرال ازم (اباحیت) آج کل کے اصطلاح میں یہ ہیومیزم(Humanism) فکر کا پیدا کردہ محصول ہے جو رنسانس،تحریک اصلاح(Reformation) اور تحریک تنویر(Enlightenment) کے بعد مغرب میں وجود میں آئی ہے۔
حقیقت میں لبرال ازم تحریک تنویر(Enlightenment) جو ۱۸ صدی عیسوی میں واقع ہوئی تھی ایک مکتب فکر کی صورت میں ابھر کر سامنے آئی ہے ۔
لبرال ازم کی نمایان خصوصیت انسان کی فردی آزادی ہے وہ آزادی کو تمام اقدار و اخلاق پر فوقیت دیتی ہے اور یہ آزادی انسان کی بنیادی حقوق میں سے ایک ہے لبرال ازم کی نظر مٰیں انسان ذاتی طور پر تکریم و تعظیم کا حقدار ہے۔
ایک طرف اسے دین مبین اسلام جو خدا کا آخرین و کامل ترین دین ہے جو «ما انزل الله» ہے یعنی خدا کی جانب سے انسانوں کے پاس آیا ہے اسلام کی نظر میں بھی انسان صاحب کرامت ہے عزت ، شرافت اور سربلندی انسان سے مخصوص ہے انسان کی تکریم و تعظیم کرنا سب پر واجب ہے اسلام کی نظر میں انسان ایک ایسا موجود ہے جو روح الھی سرشار ہے اور اس میں آسمانی اور الھی ہونے کی صلاحیت موجود ہے وہ اس مقام و منزلت فائز ہوسکتا ہے جھاں وہ خدا کے سواء کسی کو نہ پائے ۔
قرآن آشکارا اعلان کررہا ہے که : انسان ذاتی طور پر کرامت و شرافت کا حقدار ہے(وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ) اور خدا نے زمین کی ساری نعمتوں کو انسان کےلئے خلق فرمایاہے (هُوَ الَّـذِىْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِى الْاَرْضِ جَـمِيْعًا) ۔
اس بنا پر اسلام اور لبرال ازم دونوں انسان کی تکریم و تعظیم پر تاکید کررہے ہیں اور یہ دعو ہے کہ انسان کو عزت و شرافت سے نوازا جائے ۔
اس مقالہ میں انسان کی تکریم و تعظیم سے ہماری مراد یہ ہے کہ انسان کے مادی اور معنوی حقوق کی ادائے گی ،مکیت ،ثروت، امنت ، تعلیم و تربیت اور بہترین آبرومندانہ زندگی ،سیاسی و اجتماعی میدانون میں آزادی ، حق پرستی ، عبادت ، دینداری وغیرہ وغیرہ انسان کابنیادی حقوق میں شامل ہیں اس سے کوئی بھی اسکو محرم نہیں کرسکتا ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلام و لبرال ازم انسان کو تکریم و تعظیم میں ہم عقیدہ اور ہم فکر ہے ؟ اگر آپ کا جواب منفی ہے تو اسلام اور لبرال ازم میں انسان کی تکریم کے حوالے سے کیا فرق پایا جاتا ہے؟ ہم اس مقالہ میں صرف اس سوال کا جواب پیش کرنے کی کوشش کرینگے۔

تکریم انسانیت اسلام اور لبرال ازم میں :

جب ہم تکریم انسانیت کے موضوع پر اسلام اور لبرال ازم کا مطالعہ کرتے ہیں اس وقت یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ لبرال ازم کی نگاہ میں انسان کی زندگی موت پر ختم ہوجاتی ہے لیکن اسلام کی نگاہ میں انسان کی دنیوی زندگی مقدمہ ہے اخروی زندگی کے لئے اور اخروی زندگی موت کے بعد شروع ہوجاتی ہے لبرال ازم انسان کو وحی سے بے نیاز سمجھتا ہے لیکن اسلام انسان کو وحی کا محتاج سمجھتا ہے لبرال ازم خدا کو نہیں مانتا ہے لیکن اسلام خداوند کا قائل ہے اس کے علاوہ اور بھی اختلافات ان دونوں مکاتب فکر میں پاے جاتے ہیں جسکی تفصیل ذیل میں بیان کیا جاتا ہے :

1۔ انسان کی تکریم او رتعظیم اسلام کی نگاہ میں عقل اور شریعت کے چار چوب میں ہوتی ہے لیکن لبرال ازم کی نگاہ انسان کی آزادی ہے خواہ وہ آزادی انسان کی فطرت اور عقل کے مخالف ہی کیوں نہ ہوبس صرف شرط یہ ہے کہ آپ کی آزادی سے معاشرے میں موجود دوسروں کی آزادی میں روکاوٹ نہ ہو۔ اس مکتب فکرکی نظر میں اگر کوئی شخص اپنے جسم و جان کو نقصان پہونچائے و ہ آزاد ہے لیکن اسلام کی نظر میں یہ کام کرنا جائز نہیں ہے۔
2۔ لبرال ازم کی نظر میں ہوائے نفس کا شکار انسان جو اپنے لئے ہر طرح کے قول و فقل کو مباح سمجھتا ہے نفس امارہ اور عقل پرستی میں مبتلاء انسان کو صاحب کرامت جانتا ہے لیکن اسلام نفس امارہ کی پیروی سے منع کرتا ہے اور عقل انسان کو وحی کے معارف کا محتاج سمجھتا ہے ۔
3۔ لبرال ازم کی نظر میں انسان پوشاک ، خوارک اور مسکن میں آزاد ہے وہ کچھ بھی پہن سکتا ہے کچھ بھی کھا سکتا ہے اور کسی بھی جگہ جاسکتا ہے اگر انسان کو یہ سب کرنے دیا جائے گویا اس کی تکریم اور تعظیم کی ہے لیکن اسلام انسان کو لباس، خوراک اور مسکن میں خاص شرایط کے تحت اجازت دیتا ہے مردوں کے لئے مردوں کا لباس اور عورتوں کے لئے عورتوں کا لباس قرار دیتا ہے اور عریان معاشرے میں جانے کو منع کرتا ہے ۔کھانے میں حلال اور حرام ، نجس و پاک کی رعایت لازمی ہے شراب ، مردار، خون اور نجاست کھا نا جائز نہیں ہے مسکن میں جائز اور نا جائز کا قید ہے گناہ کی محفل میں نہیں جاسکتا ہے ۔( يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا كُلُوْا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوْا لِلّـٰهِ اِنْ كُنْتُـمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ )اے ایمان والو پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کی اور اللہ کا شکر کرو اگر تم اس کی عبادت کرتے ہو۔ (اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْـمَ الْخِنزِيْـرِ وَمَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْـرِ اللّـٰهِ ۖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْـرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَآ اِثْـمَ عَلَيْهِ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْـمٌ) سوائے اس کے نہیں کہ تم پر مردار اور خون اور سؤر کا گوشت، اور اس چیز کو کہ اللہ کے سوا اور کے نام سے پکاری گئی ہو، حرام کیا ہے، پس جو لاچار ہو جائے نہ سرکشی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر کوئی گناہ نہیں، بے شک اللہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔
4۔ لبرال ازم بیہودگی ، بے عفتی ، بے حیایی، مزاق اڑانا، غیبت کرنا ،تھمت لگانا سب میں انسان کو آزادی دیتا ہے اور اسی کو کرامت اور شرافت انسانی سمجھتا ہے لیکن اسلام ان کاموں کو انجام دینے سے سختی سے منع کرتا ہے ۔(يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُـوْنُـوْا خَيْـرًا مِّنْـهُـمْ وَلَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُنَّ خَيْـرًا مِّنْهُنَّ ۖ وَلَا تَلْمِزُوٓا اَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ ۖ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِيْمَانِ ۚ وَمَنْ لَّمْ يَتُبْ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الظَّالِمُوْنَ )اے ایمان والو! ایک قوم دوسری قوم سے ٹھٹھا نہ کرے عجب نہیں کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں سے ٹھٹھا کریں کچھ بعید نہیں کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور ایک دوسرے کو طعنے نہ دو اور نہ ایک دوسرے کے نام دھرو، فسق کے نام لینے ایمان لانے کے بعد بہت برے ہیں، اور جو باز نہ آئیں سو وہی ظالم ہیں۔(يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْـرًا مِّنَ الظَّنِّۖ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْـمٌ ۖ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا ۚ اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْـمَ اَخِيْهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ ۚ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ تَوَّابٌ رَّحِـيْـمٌ )اے ایمان والو! بہت سی بدگمانیوں سے بچتے رہو، کیوں کہ بعض گمان تو گناہ ہیں، اور ٹٹول بھی نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی سے غیبت کیا کرے، کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے سو اس کو تو تم ناپسند کرتے ہو، اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم والا ہے۔
5۔ لبرال ازم کی نظر میں انسان جنسی تعلقات میں آزاد ہے وہ کسی کے ساتھ بھی تعلقات قائم کرسکتا ہے اس کے مطابق زنا، ہمجنس بازی اور جنسی انحرافات سب میں آزاد ہے یہی اس کے لئے تکریم و تعظیم شمار کیا جاتا ہے لیکن اسلام اس طرح کے جنسی تعلقات کی اجازت نہیں دیتا ہے (اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِىْ فَاجْلِـدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْـدَةٍ ۖ وَّلَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَـةٌ فِىْ دِيْنِ اللّـٰهِ اِنْ كُنْتُـمْ تُؤْمِنُـوْنَ بِاللّـٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۖ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَـآئِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ )بدکار عورت اور بدکار مرد پس دونوں میں سے ہر ایک کو سو سو دُرّے مارو، اور تمہیں اللہ کے معاملہ میں ان پر ذرا رحم نہ آنا چاہیے اگر تم اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو، اور ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت کو حاضر رہنا چاہیے۔( وَالَّـذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنَاتِ ثُـمَّ لَمْ يَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ فَاجْلِـدُوْهُـمْ ثَمَانِيْنَ جَلْـدَةً وَّّلَا تَقْبَلُوْا لَـهُـمْ شَهَادَةً اَبَدًا ۚ وَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْفَاسِقُوْنَ )اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں اور پھر چار گواہ نہیں لاتے تو انہیں اسّی دُرّے مارو اور کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو، اور وہی لوگ نافرمان ہیں۔
6۔ لبرال ازم کی نظر میں انسان کی کرامت انسان پرستی یا انسان محوری(Humanism) میں ہے لیکن اسلام کی نظر میں کرامت انسانی توحید پرستی اور خدا پرستی میں ہے ۔
7۔ لبرال ازم میں فرد معاشرے پر مقدم ہے فرد اصل ہے معاشر ہ فرغ ہے فردی آزادی معاشرے کی آزادی پر مقدم ہے اس کو کرامت انسانی سمجھتا ہے لیکن اسلام کی نظر میں نہ فرد اصل ہے اور نہ معاشرہ اصل ہے بلکہ حق اصل اور اساس ہے اگر فرد کے پاس حق ہے فرد مقدم ہے معاشرے پر اور اگر معاشرہ کے پاس حق ہے تو معاشرہ فرد پر مقدم ہے اور یہی کرامت انسانی ہے ۔
8۔ اسلام کی نظر میں دین کے انتخاب میں زبردستی نہیں ہے «لا اکراه فی الدین قد تبین الرشد من الغی » اور دین کے جانب دعوت دینے میں بھی بہترین طریقہ کے انتخاب کرنے کا حکم دیا ہے «ادع الی سبیل ربک بالحکمه و المو عظه الحسنه و جادلهم بالتی هی احسن» ۔
9۔ اسلام کی شریعت بھی آسان ہے خداوند سختی سے کام نہیں لیتا ہے«یرید الله بکم الیسر و لا یرید بکم العسر» اور نہ کبھی انسان کے توانی سے زیادہ تکلیف دیتا ہے«لا یکلف الله نفسا الا وسعها» لیکن اسلام کبھی لبیرال تسامح اور تساھل کو قبول نہیں کرتا ہے اسلام کی نظر میں جب تک کسی انسان کا عقیدہ راہ حق ، منطق ، ادب اور قانون سے خارج نہیں ہوتا تب تک اس کے ساتھ مدار کرسکتا ہے او ر چشم پوشی سے کام لے سکتا ہے لیکن اگر کسی کا عقیدہ راہ حق پر نہ ہو اس وقت تساہل وار تسامح جایز نہیں ہے لیکن لبرال ازم ہر طرح کے تسامح اور چشم پوشی کا قایل ہے ۔

خلاصہ یہ ہے کہ لبرال ازم کی نظر میں تکریم انسانیت ، ایک بعدی، مادی ، حیوانی اور دنیایی ہے لیکن اسلام کی نظر میں تکریم انسانیت میں ابعاد مختلف وجودی، مادی اور معنوی ،حیوانی اور انسانی ، دنیوی اور اخروی سب شامل ہے اس بنا پر تکریم انسانیت کے موضوع پر اسلام اور لبرال ازم میں فرق ہے اس لئے ان دونوں مکاتب فکر کو ہم عقیدہ اور ہم فکر سمجھنا صحیح نہیں ہے ۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات و مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .