۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
شیخ عبدالله جبری

حوزہ/ شیخ عبداللہ جبری نے کہا: اسلامی شریعت کا نظریہ مختلف آراء کے ذریعہ اسلامی معاشرہ کے مختلف شعبوں حتی کہ بین الاقوامی سطح پر بھی وسعت اختیار کر سکتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جنبش الامہ لبنان (لبنانی قومی تحریک) کے سیکرٹری جنرل جناب شیخ عبداللہ جبری نے "امت اسلامی کی بیداری میں تصوف کا کردار"کے عنوان سے منعقدہ  ایک علمی کانفرنس میں جو کہ دفتر ادیان و مذاہب یونیورسٹی کی طرف سے منعقد ہوئی تھی، خطاب کرتے ہوئے کہا: "تصوف کی تعریف میں مختلف نظریات ہیں جن میں سے سب سے قریب ترین اور جامع تعریف زکریا انصاری نے کی ہے۔ انہوں نے تصوف کی تعریف میں کہا ہے کہ "تصوف تذکیۂ نفس کے حالات واحوال کو جاننے اور انہیں بہتر بنانے کا نام ہے"۔

انہوں نے مزید کہا: تاریخ میں بے شمار مورخین اور فیلسوف حضرات جیسے ابن سینا اور غزالی نے تصوف پر بحث کی ہے اور علماء علمِ کلام نے بھی تصوف اور اس کے اصولوں کے بارے میں مختلف نظریات بیان کئے ہیں۔

لبنانی قومی تحریک کے سیکرٹری جنرل نے کہا: صوفیہ میں دو طرح کے نظریات پائے جاتے ہیں۔ ایک نظریہ جس نے نوآبادیاتی سوچ کا سامنا کیا ہے اور دوسرا نظریہ جو کہ اسلام کے قوانین اور تعلیمات کو پسماندہ سمجھتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تصوف میں موجود اصلاحات حالیہ دنوں میں وجود میں آئی ہیں بلکہ یہ شروع سے ہی امام غزالی اور ابن عربی جیسے لوگوں کے ذہنوں میں موجود تھیں۔ انہوں نے کوشش کی کہ تصوف میں عقل و اندیشہ کے مقام کو دوبارہ بحال کریں۔ تو اب موجودہ اسلامی معاشرہ میں تصوف و صوفی ازم کا کیا کردار ہے اور کیا صوفی ازم کے پاس ضروری علمی وسائل موجود ہیں جن کے سبب وہ امت مسلمہ کے درمیان تقریب و وحدت کو بہتر بنایا جا سکے؟ اس کا جواب اسلام کی جوہری فکر پر مبنی ہے اور ہم ہر اس پروجیکٹ کو جو اسلام کے دائرے سے باہر ہو، قبول نہیں کرتے۔ ہم ایسے نظریات کو قبول کرتے ہیں جو معاشرتی عقائد کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر رکھتے ہیں اور معاشرہ کی اکثریت اس پر یقین رکھتی ہے اور تصوف بھی اسلامی معاشرہ میں تقریب مذاہب کی صلاحیت اور اس کے طریقہ کار اور علمی حل کو اپنے وجود میں رکھتا ہے۔

لبنانی قومی تحریک کے سیکرٹری جنرل نے کہا: تصوف اور اس کا طریقۂ کار دوسروں کے ساتھ تعاون کرنا ہے۔حقیقی تصوف انفرادی اسلام کا نام نہیں ہے بلکہ مختلف اسلامی قرائات کو قبول کرتا ہے اور ایک جملہ میں اگر کہیں تو یعنی "فکری کشادگی" رکھتا ہے۔ لہذا ہمیں معاشرہ میں حقیقی تصوف کو واپس لانے کی ضرورت ہے۔ زیادہ تر لوگ جو اسلام قبول کرتے ہیں وہ صوفی ازم اور روحانیت کو پسند کرتے ہیں اور ان کی تعداد ان لوگوں سے کہیں زیادہ ہیں جو اسلامِ سیاسی کی طرف تمائل رکھتے ہیں کیونکہ اسلامِ سیاسی میں کچھ لوگ اپنے دین کو سیاست کی خدمت کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

جناب جبری نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ وہابیت شیعہ اور سنی دونوں کی دشمن ہے ، مزید کہا: وہابیت اسلامی تصوف کے درست نظریات کو کمزور کرنے کے سوا طاقت و قدرت تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔ وہابی مسلک مسلمانوں میں روحانیت کی جڑیں خشک کر رہا ہے۔ جب ہم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے لئے جاتے ہیں اور ہمارے ہاتھوں میں تسبیح ہوتی ہے تو وہ ہمیں اس عبادت سے منع کرتے ہیں اور یہاں تک کہ وہ چاہتے ہیں کہ مومنوں کے دلوں پر سے روحانیت اور معنویت محو ہو جائے تاکہ ان کے دل "قساوتِ قلبی" کا شکار ہو جائیں۔ 13 سالوں سے ہم نے "عربی بہار" کی شکل میں رونما ہونے والے واقعات کو دیکھا ہے کہ جنہوں نے "اللہ اکبر" کا نعرہ لگاتے ہوئے کئی بے گناہ لوگوں کو بآسانی قتل کر دیا۔ جب یہ مجرم پیشہ لوگ مختلف ممالک سے جمع ہوئے تو یہ سب سلفی عقائد و تعلیمات پر یقین رکھتے تھے نہ کہ صوفی ازم پر اورحتی  ایک بھی صوفی مذہب ان افراد کے درمیان نہیں تھا۔ افریقہ میں بھی مذہبی تنازعہ (بوکوحرام) ان کی وہابی سوچ پر مبنی ہے نہ کہ تصوف کی بنا پر۔

انہوں نے مزید کہا: صوفی مشائخ چاہے وہ سابقہ افراد ہوں یا بعدمیں آنے والے، دونوں اہل بیت علیہم السلام سے محبت اور پیار کرتے ہیں۔ البتہ بعض صوفیاء مخالف عقائد بھی رکھتے تھے یا ان کے شاگردوں نے ان کے نظریات کو تحریف کر کے پیش کیا لیکن حقیقی تصوف اہل بیت علیہم السلام سے محبت بلکہ پیار و محبت کے طوفان کا پتا دیتا ہے۔

جبری نے مزید کہا: کچھ ایرانی اور شیعہ افراد یہ سمجھتے ہیں کہ شاید تمام سنی داعش کا حصہ ہیں اور اہل بیت علیہم السلام کے مخالف ہیں۔ حالانکہ یہ بات بالکل بھی درست نہیں ہے اور بہت کم اہل تسنن جو کہ وہابی اور سلفی مذہب ہیں وہ شیعہ کے مخالف ہیں اور اغلب صوفی مذہب افراد شیعوں سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں لہذا ہمیں اپنے اتحاد سے ان دشمنانِ اسلام کو سرکوب کرنا چاہئے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .