تحریر: مولانا سید علی بنیامین نقوی
حوزہ نیوز ایجنسی | تصوف سالک الی اللہ ہوتا ہے اپنا بچپن ، نوجوانی، جوانی، ادھیڑعمر، بڑھاپا خدا کی منشاء پر گزارتا ہے خدا کی پسند کو پسند کرتا ہے اور ناپسند کو ناپسند خواہش کا غلام نہیں ہوتا زاہد ہوتا ہے یہ سالک ہیں کیونکہ خدا کو دھوکا نہیں دیا جاسکتا ہے انسان ساری زندگی شہوات، تملق ،تمرر اور عیاشی میں گزارے بڑھاپا آئے تو توبہ کرلے یہ تائب ہے لیکن سالک نہیں ہند و پاک میں کچھ صوفیاء گزرے ہیں ایک دور تھا جسے صوفیاء کا دور کہا جاتا تھا جیسے شہباز قلندر ،شاہ شمس تبریز ،عبدالقادر جیلانی و غیرہ یہ سب صوفی بزرگ تھے جو سالک تھے تارک دنیا تھے فناء فی الدین تھے یہ جو صوفیاء کا دور تھا یہ ترکی کے صوفی ازم سے لیا گیا تھا وہاں کے دو صوفی اور فلسفی بہت ہی مشہور تھے ابن العربی جو خالصتا صوفی بزرگ تھے اور ایک ابن العربی جو محض فلسفی تھے وغیرہ اس دور کو جو کم و بیش ایک صدی یا اس سے زیادہ پر محیط تھا اس دور کو صوفیاء کا دور کہا جاتا تھا انکے پیروکار بھی کافی تھے اور ہیں۔
عرفان
عارف باللہ، عرفان کی منزل جدا ہے جو عرفان سالک الی اللہ سے آگے کی منزل ہے سالک راہ اپناتا ہے اسی راہ پر باقی رہتا ہے اور ایک پارسا شخص اور زاہد انسان ہوتا ہے لیکن عارف اس ہستی کا نام ہے جو خدا کو پالیتی ہے جو لقاء اللہ کی منزل تک پہنچ چکا ہوتا ہے سالک تہ الارض ہوتا ہے لیکن عارف کیلئے تہ الارض ایک بہت چھوٹی سی بات ہے عارف مقام محمود کے قریب اور لقاء اللہ کی منزل پر فائض ہوتا ہے عارف اپنے آپ کو دنیا سے جدا نہیں کرتا وہ دنیا میں رہتا ہے شادی کرتا ہے اولاد پیدا کرتا ہے ملازمت کرتا ہے یعنی معاشرے سے جڑا ریتا ہے اوامر ونواہی کرتا ہے اور صوفیاء بھی کرتے ہیں لیکن وہ خود ساز ہوتے ہیں معاشرے سے کٹے رہنے کو ہی اپنے تئیں درست سمجھتے ہیں لیکن عارف ایسا نہیں ہوتا عارف ایک امام امت ہوتا ہے۔
امت کی زمام اپنے ہاتھ لیتا ہے فتنہ و فساد کے خلاف ڈٹ جاتا ہے اور حتی حاکم وقت اگر منافق ہو ظالم ہو فاسق ہو جہاد کرتا ہے اور اگر ممکن ہو اقتدار تک رسائی حاصل کرتا ہے وہ اس وجہ سے کہ وہ ایک مصلح ہوتا ہے اس کیلئے اقتدار ثانوی حیثیت رکھتا ہے اولین ترجیح اصلاح معاشرہ ہوتی ہے ذاتیات کے حصول کیلئے کچھ نہیں کرتا اللہ تعالیٰ عارف کو اٹھارہ قسم کی کرامات عطاء فرماتا ہے تہ الارض تو بہت ہی چھوٹی کرامت اور صفت ہے جو ہر نفس پر غلبہ پانے والے اور ضبط کرنے والے کو مل ہی جاتی ہے لہذا من عرف نفسہ فقد عرف ربه کو سامنے رکھتے ہوئے عارف بنیے صوفی نہیں۔
صوفیاء حلول کے قائل ہیں کہ خدا نعوذباللہ انسان میں حلول کرجاتا ہے جبکہ عارف اسکے برعکس موحد ہوتا ہے وہ خدا کا زمین پر نمائندہ ہوتا ہے خلیفہ خدا ہوتا ہے خدا کی صفات کا مظہر ہوتا ہے ایک عالم ہوتا ہے فقیہ ہوتا ہے اور اعلم ہوتا ہے۔
امیرالمومنین علی علیہ السّلام نے فرمایا:
صوفیاء تمہارے سب سے بڑے دشمن ہیں
اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے جو میں سمجھا ہوں اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ مکمل تارک دنیا ہوتے ہیں حلول کے قائل ہوتے ہیں وحدت الوجود بعض وحدت الشہود کے قائل ہوتے ہیں اسی لئے سالک کہلاتے ہیں اپنے آپ ہی کو مصلح اور امام وقت سمجھتے ہیں اور لوگوں سے بیعت لیتے ہیں حتی امام معصوم علیہم السلام کے سامنے آجاتے ہیں اور خود کو امام معصوم علیہم السلام سے بہتر سمجھتے ہیں۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔