تحریر: عادل فراز
حوزہ نیوز ایجنسی | نئے زرعی قانون کے خلاف کسانوں کا احتجاج جاری ہے ۔کسانوں کے ساتھ مسلسل مذاکرات کے بعد بھی سرکار انہیں مطمئن نہیں کرسکی ۔سرکار کا کہناہے کہ نیا زرعی قانون کسانوں کی فلاح و بہبود کے لئے بنایا گیاہے جبکہ کسان اس قانون کو اپنے مستقبل کے لئے خطرناک سمجھ رہے ہیں ۔سرکار کا الزام ہے کہ اس احتجاج کے پیچھے بڑی منڈیوں کے آڑھتی اور سرمایہ دار ہیں جبکہ کسان آندولن میں ایسا کوئی چہرہ نظر نہیں آیاجو سرکار کے الزامات کو صحیح ثابت کرسکے ۔حزب اختلاف نے کسان آندولن کی حمایت ضرور کی ہے لیکن کسانوں نے اپنے آندولن کو ہر سیاسی جماعت سے الگ رکھاہے ۔ان کا اپنا لائحۂ عمل اور حکمت عملی ہے جس کے مطابق ان کے رہنما کام کررہے ہیں ۔موجودہ صورتحال یہ ہے کہ کسانوں نے سرکار کے خلاف پوری طرح محاذ کھول دیاہے اور وہ اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے ہر خطرہ اٹھانے کے لئے تیار ہیں ۔اس آندولن کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کسانوں نے کارپوریٹ گھرانوں کے خلاف بھی مورچہ کھول دیاہے ۔انہوں نے آڈانی اور امبانی جیسے سرمایہ داروں کی کمپنیوں اوراسٹورس کے بائیکاٹ کا اعلان کیاہے۔ان کا ماننا ہے کہ سرکار چند کارپوریٹ گھرانوں کی نوکر بن کر رہ گئی ہے ۔سرکار کو اپنے سرمایہ دار دوستوں کے مفادات کے علاوہ کسانوں اور غریبوں کے مفادات کی بالکل پرواہ نہیں ہے ۔نئے زرعی قانون کی مخالفت اور کسانوں کے احتجاج پر سرکار کا غیر ذمہ دارانہ رویہ دیکھ کر کسانوں کے الزامات درست لگتے ہیں اور یقین ہوتاہے کہ ہماری سرکار کسانوں اور ان کےمستقبل کے لئے فکر مند نہیں ہے ۔
چونکہ میرا تعلق ہریانہ اور پنجاب کے سرحدی علاقے سے ہے اور کسان گھرانے سے تعلق ہونے کی وجہ سے ان کے مسائل اور پریشانیوں کو بہتر طریقے سے سمجھ سکتا ہوں ،اس لئے یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ موجودہ سرکار زرعی قانون کے ذریعہ کسانوں کے ہاتھ کاٹنے کا کام کررہی ہے ۔کسان جو پہلے ہی اقتصادی بدحالی کا شکار ہے اس قانون کے نفاذ کے بعد اس کی زندگی میں ہی موت کا اعلان کردیا جائے گا ۔یوں بھی ہماری سرکاروں کو کبھی کسانوں کی پرواہ نہیں رہی ۔ہر سرکار کسانوں کو ووٹ بینک کی طرح استعمال کرتی آئی ہے مگر اب حالات بدل رہے ہیں ۔کسان تعلیم یافتہ ہورہے ہیں اور جدید ٹکنالوجی کے ذریعہ اچھے اور برے کی تمیز پیدا ہورہی ہے ۔اب انہیں استعمال کرنا آسان نہیں ہے کیونکہ انہیں قومی سیاست کا علم بھی ہے ۔خاص طورپر ہریانہ اور پنجاب میں قومی سیاست کا دارومدار کسانوں پر ہے ۔سرکار دھیان رکھے کہ کسان زرعی قانون کو سمجھتے بھی ہیں اور اس پر دانشوروانہ انداز میں میڈیا کے سامنے بات بھی کررہے ہیں ۔لہذا سرکار اس غلط فہمی میں بالکل نہ رہے کہ کسانوں کو زرعی قانون کی پیچیدگیوں کا علم نہیں ہے ۔
لاک ڈائون کے دوران جب دھان کی فصل کی کٹائی ہورہی تھی ،اس وقت منڈی کا نظام اپنے بدترین دور سے گذر رہا تھا ۔کسانوں کی فصلیں کھیتوں میں تیار کھڑی تھیں مگر سرکار انہیں خریدنے کے لئے پوری طرح تیار نہیں تھی ۔جب کہ بار بار تمام ریاستوں کی سرکاروں کی طرف سے اعلان ہوتارہاکہ دھان خرید کے لئے مناسب انتظامات کرلئے گئے ہیں ،اس کے بعد بھی ہفتوں تک کسانوں کوانتظار کرنا پڑا اور ان کی محنت کی کمائی منڈیوں میں پڑی سڑتی رہی ۔خریدار آئے تو اونے پونے داموں پر فصلوں کو بیچنا پڑا ۔دھان کی فصل آدھی قیمتوں پر فروخت کرنا کسانوں کی مجبوری بن گئی اور انہیں یہ محسوس ہوگیاکہ سرکار صرف دعوے کرتی ہے ۔ان کے لئے حکومت کے پاس کوئی ایکشن پلان نہیں ہے ۔ وہ کسانوں کے حقوق اور ان کے مستقبل کے لئے ذرہ برابر فکر مند نہیں ہے ۔سرحدی علاقوں میں تو کسانوں کے منڈیوں میں داخلے پر پولیس آمرانہ ٹیکس وصول رہی تھی ۔یوں بھی ہمارے ملک کی پولیس دن بہ دن کرپٹ ہوتی جارہی ہے ۔لاک ڈائون میں انہوں نے کسانوں کی مجبوری اور بدحالی پر بھی رحم نہیں کھایا اور منڈیوں میں آتے جاتے کسانوں سے بھاری وصولی کی گئی۔کیا ان معاملات کی خبر سرکار کو نہیں ہوتی ۔؟
معلوم ہونا چاہئے کہ کسانوں کی نئی پیڑھی کھیتی باڑی پر زیادہ بھروسہ نہیں رکھتی ہے۔اسکی سب سے بڑی وجہ ان کی محنت کا معقول معاوضہ نہ ملناہے ۔کھیتی پر خرچ زیادہ ہے اور آمدنی ’نا‘ کے برابر ہے ۔پچاس بیگہ سے کم زمین والے کسانوں کی سالانہ بچت ایک لاکھ روپیہ کے آس پاس بھی نہیں ہوتی ۔اس بچت میں بینکوں سے لئے گئے قرضہ کی رقم پر جو بیاج لگتاہے اس کی بھرپائی بھی کرنا مشکل ہوجاتاہے اور جس آڑھتی کے پاس سے دوائیاں ،کھاد اور تیل اٹھاتے ہیں ،اسے بھی بیاج ادا کرنا ہوتاہے ۔کسانوں کے بقول انہیں کھیتی سے فقط سال بھر کا اناج اور بھوسا بچتاہے ،جس سے ان کی اور جانوروں کی گذر بسر ہوجاتی ہے ۔لیکن دوسرے اخراجات اس قدر زیادہ ہیں کہ انہیں بنیوں سے بھاری بیاج پر رقم اٹھانی پڑی ہے جس کا بیاج بھی ادا نہیں ہوپا تا جس کے نتیجے میں کسان اپنی زمین گروی رکھتاہے یا پھر بیج دیتاہے ۔غم اور خوشی کے موقع پر ان کےپاس بنیے اور آڑھتی کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہوتا ۔بہت کم ایسے کسان ہیں جو کھیتی کی آمدنی سے کچھ پس انداز کرلیتے ہیں اور اپنی گزر بسر میں بنیوں،بینکوں اور آڑھتیوں کے محتاج نہیں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کی زندگی آڑھتیوں اور بنیوں کے بغیر ادھوری ہے ۔وہ زمین کی گارنٹی پر آسانی سے ادھار یا بیاج پر رقم اٹھالیتے ہیں اور پھر رفتہ رفتہ اس رقم کو ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔آج عالم یہ ہے کہ چھوٹے کسانوں کی زمینیں یا تو گروی پڑی ہیں یا وہ قرضے کے بوجھ میں دب کر اپنی زمینیں نیلام کرچکے ہیں ۔سرکار کو یہ بھی سروے کرانا چاہئے کہ گزشتہ پچاس سالوں میں کتنے کسانوں نے بنیوں ،آڑھتیوں اور بینکوں کو اپنی زمینیں نیلام کی ہیں یا ان پر قبضہ کرلیا گیاہے ۔آج کسان مزدوری کررہاہے یا شہروں میںکام کی تلاش میں بھٹک رہاہے اور بنیے بقال ان کی زمینوں کو جوت رہے ہیں ۔انہی مسائل اور صورتحال کاشکار ہوکر زیادہ تر کسان خودکشی پر مجبور ہورہے ہیں اور وہ موت کو ہی اپنے مسائل کا واحد حل سمجھ رہے ہیں ۔
اب نئے زرعی قانون کی طرف آتے ہیں ۔سرکار کا یہ کہنا کہ اس قانون کے نفاذ کے بعد کسان اپنی فصلوں کو براہ راست بڑے بازار میں فروخت کرسکیں گے ،ایک کھلا ہوا دھوکا ہے ۔در اصل یہ قدم کسانوں کو کارپوریٹ گھرانوں کا غلام بنانے کے لئے اٹھایا گیاہے ۔کسان نہ تو پہلے آزاد تھا اور نہ آگے آزاد رہے گا بلکہ اس کی زندگی مزید بدتر ہوجائے گی ۔اس کی زمینوں پر بڑی بڑی کمپنیوں کا قبضہ ہوگا اور فصلیں من مانے طریقےسے خرید کر مہنگے داموں پر سوپر مارکیٹ میں فروخت کی جائیں گی ۔ہندوستان کہ جہاں مہنگائی پہلے ہی عروج پر ہے ،اس نظام کے نفاذ کے بعد مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا ۔ہمارے سامنے ’جیوکمپنی ‘ کی مثال موجود ہے کہ جس نے پہلے عام آدمی کو کم قیمت پر موبائل اور سم کارڈ فروخت کیا اور آج وہ انہی سے بھاری رقم وصول رہی ہے ۔کوئی بھی کارپوریٹ کمپنی کسانوں کے فائدے کے لئے اپنے مفادات کی قربانی نہیں دے گی بلکہ جب تک انہیں اپنا اور صرف اپنا فائدہ نظر نہیں آئے گا وہ کبھی زراعت کے شعبے میں قدم نہیں رکھیں گی ۔
ہماری ہندوستانی سرکار سے اپیل ہے کہ وہ اڑیل رویہ نہ اپناتے ہوئے ایک بار کسانوں کے مسائل اور ان کے مطالبات پر ضرور غور کرے ۔یہ جمہوریت کے خلاف ہے کہ اپنے ملک کے کسانوں کے مطالبات پر توجہ نہ دی جائے بلکہ چند کارپوریٹ گھرانوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے حکومت اپنی ساری توانائی صرف کردے ۔اگر کسانوں کے احتجاج کے سامنے حکومت جھک جاتی ہے تو یہ جھکنا جمہوریت اور ملک کے لئے سودمند ثابت ہوگا ،اس سے وزیر اعظم نریندر مودی کا کردار داغدار نہیں ہوگا ۔وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو سمجھنا چاہئے کہ یہ احتجاج سی ۔اے۔اے اور این آرسی کے خلاف نہیں ہے جسے مذہبی و مسلکی رنگ دیکر متنازع بنادیا جائے ۔یہ احتجاج ہندوستان کے کسانوں کا ہے جنہیں ہندوستان کے اقتصاد کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتاہے ۔اگر ریڑھ کی ہڈی کمزورہوتی ہے یا ٹوٹ جاتی ہے تو انسان اپاہج ہوجاتاہے ۔اس لئے بہتر ہوگا کہ ملک کے اقتصاد کو اپاہج ہونے سے بچانے کے لئے کسانوں کے مطالبات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔