۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
مولانا رضی زیدی پھندیڑوی دہلی
مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی دہلی 

حوزہ/ مولانا سید علی گوہر زیدی نوراللہ مرقدہ  کی وفات کی خبر جب مدرسہ جامعۃ التبلیغ لکھنؤ کے مدیران ، اساتذہ  اور طلاب کرام کو ہوئی تو انہیں ایسا ہی لگا کہ جس گل کو  پروان چڑھ نے  میں کافی سال لگے اب وہ گل ہوگیا ۔  

از قلم: مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی دہلی 

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
حوزہ نیوز ایجنسی | موت ایک اٹل حقیقت ہے، لیکن ہم اس سے بہت غافل رہتے ہیں۔ جب اپنا کوئی دنیا سے جاتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ اس چند روزہ زندگی کی حقیقت کیا ہے! یہی احساس 11 دسمبر 2020ء کو بھی ہوا، جبب بدھ  کی صبح واٹسپ گروپ پر ایک خبرنظروں کے سامنے آئی جس میں تحریر تھا کہ ہر دل عزیز مولانا  سیدعلی گوہرزیدی صاحب مظفر نگری اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔

اس طرح کی شخصیات  کے دنیا سے جانے کی خبر دوست و احباب کو تو پریشان کرتی ہی ہے مگر کچھ ایسے احباب اور رشتہ دار ہوتے ہیں جن کا سب کچھ اور سالوں کی محنت چلی جاتی ہے جس طرح سے ماں، باپ، اولاداور بیوی ہیں مگر ان سب کے علاوہ اور بھی رشتہ دار ہوتے ہیں  اور وہ روحانی رشتہ دار ہیں جیسے اساتذہ، مدیر مدرسہ، اسکول اور یونیورسٹی ۔

مولانا سید علی گوہر زیدی نوراللہ مرقدہ کی وفات کی خبر جب مدرسہ جامعۃ التبلیغ لکھنؤ کے مدیران، اساتذہ  اور طلاب کرام کو ہوئی تو انہیں ایسا ہی لگا کہ جس گل کو  پروان چڑھ نے  میں کافی سال لگے اب وہ مرجھا گیا۔  
جس وقت مجھے  یہ خبر موصول ہوئی تواس پر یقین کرنا میرے لیے مشکل تھا کیونکہ ابھی دار بقا کی طرف کوچ کرنے کی عمرہی کہاں تھی، مگر جب  مزید دوسروں سے خبر موصول ہوئی تو سوررہ آل عمران کی 185 نمبر آیت یاد آئی" کُلّ نَفْس ذَائِقَة الْمَوْت" ہرجان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔  موت کسی کو نہیں چھوڑتی انسان ہویا حیوان یا پھر چرند اور پرند ہوں۔ موت ایک ایسی حقیقت ہے جسے قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں ہےاور نہ ہی موت کا کوئی انکار کرسکتا ہے۔ یہ نظام اسی کا ہی بنایا ہوا ہے جس نے دنیا کو پیدا کیا ہے۔ اس سے کسی کو بھی مفر نہیں ہے انبیاء ہوں یا اولیا سب ہی کو اس کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے ۔  نور اللہ مرقدہ بھی اپنے مقررہ وقت پر، پروردگار کے حکم کا اتباع کرتے ہوئے اس جہاں سے کوچ کرگئے۔ 

مولانا نے ابتدایی تعلیم مدرسہ امامیہ جولی سادات ضلع مظفرنگر میں حاصل کی  پھر اس کے بعد ماہ  محرم ا لحرام 1410ھ  مطابق اگست1989ء عازم لکھنؤ ہوئے اور مدرسہ جامعۃ التبلیغ مصاحب گنج میں داخلہ لے کر اساتذہ کرام کی خدمت میں زونوئے ادب تہ کیے جن  میں:  مولانا سید طیب رضا اغوان پوری مولانا سید شباب حیدر، مولانا سید تقی رضا زیدی، مولانا سید بیدار حسین، سراج العلماء مولانا سید غلام مرتضی، مولانا قمر عباس خاں، مولانا محمد ابراہیم، مولانا  شیخ زیارت حسین  طاب ثراہ،  مولانا موسی رضا اور مولانا حکیم سیدمحمد کاظم  قدس سرہ وغیرہ کے اسماء گرامی قابل ذکر ہیں ۔  

مولانا علی گوہر صاحب طاب ثراہ  ملن سار اور با اخلاق اور حسن سیرت کے مالک تھے۔ میں اور مرحوم مدرسہ جامعۃ التبلیغ کے ہوسٹل میں ایک  کمرہ میں ساتھ رہتےتھے وہ ہمیشہ اخلاق اور محبت سے پیش آتے  اور تمام اساتذہ کا احترام کرتے تھے۔ 

مدرسہ سے فراغت کے بعد سن ۱۹۹۹ء میں عازم شہر سیدہ زینب ہوئے اور وہاں رہکر مدرسہ امام خمینی میں مختلف اساتذہ کرام سےکسب فیض کیا۔ سیدہ زینب دمشق سے سن ۲۰۱۱ء کے اواخر میں اپنے وطن واپس تشریف لائےاور واپسی کےبعد ہندوستان کےمختلف شہروں اور دیہاتوں میں تبلیغ دین مبین اسلام ا ور ترویج دین کےفرائض انجام دینے میں مشغول ہوگئےجن میں گجرات ،  احمدباد،مظفر نگر وغیرہ کےاسماء قابل ذکرہیں۔ موصوف اپنی عمر کے آخری ایام میں امام جمعہ کی حیثیت سے اپنے تبلیغی سفر کو بہت اچھی طرح انجام دیتے ہوئے داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ مولانا علی گوہر کے جسد خاکی کو 11/ دسمبر دوپہر 1 بجے انکے وطن منصور پور، ضلع  مظفرنگر ہندوستان میں سپرد خاک کیا گیا۔

میں ان کے تمام پسماندگان اور مدرسہ جامعۃ التبلیغ کے مدیران: حجۃ الاسلام مرزارضا عباس اور حجۃ الاسلام مرزاجعفر عباس صاحبان اور اساتذہ کرام حجۃ الاسلام طیب رضا اغوانپوری، حجۃ الاسلام محمد ابراہیم، حجۃ الاسلام قمر عباس خاں، حجۃ الاسلام   مسیب، مولانا شباب حیدر سرسوی، مولانا تقی رضا  صاحبان وغیرہ اور تمام طلاب کرام کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہوں اور آخر میں  رب کریم کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ پالنے والے برادر عزیز کی مغفرت  فرما اور تمام پسماندگان کو صبر جمیل و اجر جزیل عنایت فرما اور مرحوم کے درجات بلند فرما۔آمین۔ والحمد للہ رب العالمین۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • Aslam IN 13:37 - 2020/12/12
    0 0
    Allah marhom ke ghar walun uor mutalleqen ko sabr Dey aameen