۳۰ فروردین ۱۴۰۳ |۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 18, 2024
مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ/ ام المومنین جناب زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا شمار ان باعظمت خواتین میں ہوتا ہے جنکا دور جاہلیت میں بھی فقراء و مساکین پر رحم و کرم اور احسان زباں زد خاص و عام تھا کہ آپ کو ’’ام المساکین ‘‘  (مسکینوں کی ماں)کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ 

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی | شریعت نے جس طرح انسان پر حقوق خدا کی ادائگی فرض کی ہے اسی طرح بندگان خدا کے حقوق بھی فرض کئے ہیں۔ یعنی جس طرح انسان پر نماز، روزہ حج وغیرہ واجب ہیں اسی طرح خمس و زکات بھی واجب ہے۔ یعنی اللہ نے اپنے حقوق کی ادائگی کی تکمیل اپنے بندوں کے حقوق کی ادائگی میں قرار دیا کہ انسان اس وقت تک کمال تک نہیں پہنچ سکتا جب تک خدا کے حقوق کے ساتھ ساتھ اس کے بندوں کے حقوق ادا نہ کرے۔ اور  جب اللہ کے خالص بندے امیرالمومنین علی علیہ السلام نے حالت رکوع میں زکات دی تو اس معبود نے آپ کو تاج ولایت عطا فرمایا۔ جیسا کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: "دو خصلتوں سے عظیم کوئی خصلت نہیں ایک اللہ پر ایمان دوسرے برادر مومن کو نفع پہنچانا۔" اسی طرح اگر ہم قرآن کریم اور دوسری روایات میں غور کریں تو یہ بات ہم پر مزید واضح ہو جائے گی کہ بندگان خدا سے چشم پوشی کسی بھی صورت بارگاہ معبود میں قابل قبول نہیں ہے۔"الَّذِینَ یُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلَانِیَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُونَ‘‘یعنی وہ لوگ جو رات اور دن میں چھپ کر اور علانیہ اپنے اموال کو راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں انکے پروردگار کی جانب سے انکے لئے اجر ہے، انکے لئے نہ خوف ہے اور نہ ہی حزن ہے۔  (البقرہ:۲۷۴) 

"الذین الذین یقِیمُونَ الصَّلَاةَ وَیؤْتُونَ الزَّکاةَ وَهُم بِالْآخِرَةِ هُمْ یوقِنُونَ أُوْلَئِک عَلَی هُدًی مِّن رَّبِّهِمْ وَ أُوْلَئِک هُمُ الْمُفْلِحُونَ‘‘یعنی جو لوگ نمازیں قائم کرتے ہیں، زکات دیتے ہیں اور آخرت پر انکا یقین ہے۔ وہ اپنے پروردگار کی ہدایت کے راستے پر ہیں اور وہی کامیاب ہیں۔

 مذکورہ آیات میں واضح طور پر بیان ہے کہ جو لوگ حقوق خدا کی ادائگی کے ساتھ اس کے بندوں کے حقوق ادا کرتے ہیں انکے لئے اجر ہے ، انکو کوی خوف و حزن نہیں، وہی راہ ہدایت پر ہیں اور کامیاب ہیں۔

قرآن کریم کے علاوہ معصومینؑ کی روایات میں بھی اس بات کی کثرت سے تاکید کی گئی ہے۔ ذیل میں چند احادیث پیش ہیں۔ 

حضرت امیرالمومنینؑ نے فرمایا : ’’نعم زاد المعاد الاحسان الی العباد‘‘ بندگان خدا سے نیکی اور احسان بہترین زاد آخرت ہے۔ (عیون الحکم و المواعظ، دارالحدیث، قم)

امیرالمومنینؑ نے فرمایا: ’’راس الایمان الاحسان الی الناس‘‘ لوگوں کے ساتھ احسان ونیکی ایمان میں سر فہرست ہے‘‘  (غرر الحکم و دررالکلم)

  حضرت امام موسیٰ کاظم ؑ نے فرمایا: جو ہمارے ساتھ نیکی نہیں کر سکتا اسے چاہئیے ہمارے شیعوں میں جو فقیر ہیں انکے ساتھ نیکی کرے۔  (کافی، جلد ۴، صفحہ ۶۰)

حضرت امیرالمومنینؑ نے حضرت امام حسن مجتبیٰؑ سے وصیت فرمائی’’اوصیکم بمحبتنا و الاحسان الیٰ شیعتنا  فمن لم یفعل فلیس منا‘‘ تمھیں وصیت کرتا ہوں اپنی محبت اور اپنے شیعوں کے ساتھ نیکی و احسان کی اور جو ایسا نہیں کرے گا وہ مجھ سے نہیں ہے۔ (دعائم الاسلام ، ج۲، ص ۳۵۰)

لوگوں کے ساتھ نیکی اور احسان ایسا پسندیدہ عمل ہے کہ بلا تفریق مذہب وملت اور رنگ و نسل ہر انسان اسکی مدح کرتا ہے حتیٰ دور جاہلیت میں بھی عرب اس نیک عمل پر افتخار کرتے تھے۔ 

ام المومنین جناب زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا شمار ان باعظمت خواتین میں ہوتا ہے جنکا دور جاہلیت میں بھی فقراء و مساکین پر رحم و کرم اور احسان زباں زد خاص و عام تھا کہ آپ کو ’’ام المساکین ‘‘  (مسکینوں کی ماں)کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ 

رسول خدا ﷺ کے جلیل القدر صحابی جناب عبیدہ بن حارث سے آپ کی مکہ مکرمہ میں شادی ہوئی اور آپ نے اپنے شوہر کے ہمراہ مکہ سے مدینہ ہجرت فرمائی۔ مدینہ میں اسلام کی پہلی جنگ ،جنگ بدر میں آپ کے شوہر جناب عبیدہ شدید زخمی ہوکر راہ خدا میں شہید ہو گئے۔  (ابن ہشام ۔ ج ۲، ص ۲۷۷) تو آپ مدینہ میں یک و تنہا ہو گئیں۔ 

جناب عبیدہ کی شہادت کے ایک برس بعد رسول خدا ﷺ نے آپ کی کفالت و سرپرستی کی غرض سے شادی کا پیغام بھیجا جسے آپ نے قبول فرمایا ۔ رسول خدا ﷺ نے مہر ادا کرکے عقد فرمایا اور آپ کے لئے دیگر ازواج کی طرح ایک حجرہ بنوایا۔ لیکن زندگی نے وفا نہیں کی اور کچھ ہی عرصہ گذرا تھا کہ ربیع الثانی ۴  ہجری کو آپ اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ (بلاذری ج ۱،ص ۵۱۶)

جب جناب زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی وفات ہوئی تو اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے آپ کی نما ز جنازہ پڑھی اور جنت البقیع میں دفن فرمایا۔ 

رسول خدا ﷺ کی دو بیویوں نے آپ کی زندگی میں رحلت فرمائی مکہ مکرمہ میں حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا اور مدینہ منورہ میں جناب زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالی عنہا ہیں۔ باقی تمام ازواج حضورؐ کی رحلت کے بعد اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔ (تاریخ طبری۔ ج ۳، ص ۱۶۸) 

مورخین کا بیان ہے کہ جناب زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالی عنہا رسول اللہ ؐ کی پہلی بیوی ہیں جنکی مدینہ منورہ میں وفات ہوئی۔ وفات کے ہنگام آپ کی عمر تقریبا تیس برس تھی۔ اگرچہ آپ کے کوئی اولاد نہ تھی لیکن رسول اللہ ﷺ سے شادی کے سبب اللہ  نے آپ کو رہتی دنیا تک عالم اسلام کی ماں بنا دیا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .