حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مدیر حوزۃ المرتضیٰ حیدرآباد دکن حجۃ الاسلام و المسلمین ڈاکٹر مولانا سید نثار حسین (حیدر آقا)، صدر کل ہند شیعہ مجلس علماء و ذاکرین، ممبر تلنگانہ اسٹیٹ وقف بورڈ و ممبر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے عشرہ ولایت کی مناسبت سے مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا: رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ولادت سے لے کر چالیس سال تک اپنے کردار کا کلمہ پڑھواتے رہے یہاں تک کہ لوگوں نے صادق و امین کا لقب دیدیا تب حکمِ خدا سے چالیس برس کی عمر میں اللہ کے حکم سے اعلان رسالت کیا اور اعلان کرتے ہی صادق و امین کہنے والے جان کے دشمن ہوگئے اور تیرہ سال تک کفار مکہ کی تکلیفوں اور اذیتوں کو برداشت کرتے رہے یہاں تک کہ خدا کی جانب سے حکم آیا کہ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائیں اور چھ سال مدینہ میں سکونت کے بعد عمرہ کے لئے مکہ جانے کا ارادہ فرمایا مگر کفار مکہ نے شہر مکہ میں داخل ہونے سے منع کیا وہیں پر کفار مکہ اور رسول اللہ (ص) کے درمیان صلح نامہ لکھا گیا کہ دس سال تک آپس میں کوئی جنگ نہ ہوگی اور آیندہ سال عمرہ کی اجازت ہوگی یہ صلح، صلحِ حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے جو۶ ھ میں ہوئی لیکن کفار مکہ کی طرف سے شرائط پر عمل نہ ہوا جس کے نتیجہ میں ۸ھ میں پیغمبر اسلام ﷺ اور مسلمانوں نے مکہ فتح کیا اسکے بعد رسول اکرم ﷺ نے تریسیٹھ (63) سال کی عمر میں اپنی زندگی کے آخری حج کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ میری زندگی کا آخری حج ہوگا لہٰذا جو بھی اس حجہ الوداع میں میرے ساتھ شریک ہونا چاہتا ہے وہ آجائے اس خبر کے عام ہوتے ہی مدینہ اور اطراف مدینہ یہاں تک کہ اطراف مدینہ میں واقع کئی اسلامی ممالک سےلوگ جوق در جوق شریک ہوئے مورخین کے مطابق حجۃ الوداع میں حجاج کی تعداد ایک لاکھ سے اوپر بتائی جاتی ہے ۔زائرین خانہ خدا جب اعمال حج انجام دے کر رسول اسلام ﷺ کے ساتھ واپس لوٹتےہوئے جب غدیر خم نامی جگہ پر پہونچے تو اللہ کی طرف سے جبرئیل علیہ السلام اس آیت کو لے کر نازل ہوئے ۔ يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِننْ رَبِّكَ وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَ اللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النّاسِ إِنَّ اللّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكافِرِينَ ۔ مائده۵، آيه ۶۷۔
اے رسولﷺ ! جو کچھ تم پر نازل کیا جاچکا ہوں اسے پہونچاو و اگر اسے نہ پہونچایا تو ( سمجھ لو کہ )تم نے اس کا کوئی پیغام ہی نہیں پہنچایا اور ( تم ڈرو نہیں ) خدا تم کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا خدا ہرگز کافر وں کی قوم کو منزل مقصود تک نہیں پہونچاتا۔ ترجمہ مرحوم فرمان علی صاحب۔
مولانا حیدر آقا نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد پیغمبر اسلام ﷺ نے حکم دیا کہ جو لوگ آگے جاچکے ہیں اُنہیں واپس بلالیا جائے اور جو پیچھے رہ گئے ہیں اُن کا انتظار کیا جائے جب سارے لوگ جمع ہوگئے تو آپ نے ایک فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں آپ نے اس آیت النَّبِىُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ أَنفُسِهِمْ کی وضاحت فرماتے ہوئےیہ فرمایا کہ ان اللہ مولای، و انا مولی المومنین،و انا اولی بھم من انفسھم یعنی یقینا اللہ میرا مولا ہے اور میں مومنین کا مولا ہوں اور یقینا میں مومنین پر انکے نفس پر ان سے زیادہ حق رکھتا ہوں اور تمام صحابہ کرام سے یہ اقرار لیا کہ یا ایهاالناس الست اولی بکم من انفسکم ، اے لوگو ! کیا میں تمہارے نفسوں پر تم سے زیادہ حق نہیں رکھتا ؟ سب نے یک زبان ہوکر جواب دیا ۔ قالوا بلی یا رسول الله ، ہاں ہاں کیوں نہیں اے اللہ کے رسول ﷺ۔ ( آپ ہم پر زیادہ حق رکھتے ہیں )
مولانا نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تب آپ نے اپنے ہاتھوں پر حضرت علی علیہ السلام کو بلند فرماکر ان کو تمام کلمہ پڑھنے والوں کے لئے اپنی طرح آقا و مولا ہونے کااعلان کیا اور فرمایا۔ قال: (من کنت مولاه فهذا علی مولاه ) یعنی جس جس کا میں مولا اور آقا ہوں اسکے یہ علیؑ مولا و آقا ہیں، اس طرح خدا اور رسول ﷺ کی طرح علیؑ کی ولایت مطلقہ کا اعلان فرمایا ، اور حضرت علیؑ کو ماننے والوں کے لئے یہ دعا بھی فرمایا۔ اللهم وآل من والاه و عاد من عاداه و أحبّ من احبّه و أبغض من أبغضه و انصر من نصره ، یعنی خدایا ! تو اس سے دوست رکھ جو علیؑ کو دوست رکھے اور اس کو دشمن سمجھ جو علیؑ سے دشمنی رکھے اور محبت کر اس سے جو علیؑ سے محبت کرے اور نفرت کر اس سے جو علیؑ سے نفرت کرے اور جو علیؑ کا ساتھ دے اسکی نصرت فرما۔ اس کے بعد رسول خدا ﷺ کے حکم کے مطابق تمام صحابہ کرام اور بعض بزرگ اصحاب نے اس طرح حضرت علیؑ کی خدمت میں مبارکباد پیش کیا ، هنياء يا بن أبي طَالِبٍ أَصْبَحْتَ وَأَمْسَيْتَ مولي كل مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ ۔ مبارک ہو مبارک ہو آپ کو اے فرزندِ ابوطالب علیہما السلام ۔ آپ ہمارے اور تمام مومنین و مومنات کے مولا ہوگئے۔ (( مسند أحمد بن حنبل، ج 4، ص 281،) ‘‘ جسے تمام مورخین اور محدثین و مفسرین نے اپنی اپنی معتبر ترین کتابوں میں جگہ دی ہے ۔ اسی خطبہ کے درمیان ایک جملہ میں اس ولایت کی اہمیت کو سمجھاتے ہوئے فرمایا ۔ فَلْیُبَلِّغِ الْحاضِرُ الْغائِبَ وَالْوالِدُ الْوَلَدَ إِلى یَوْمِ الْقِیامَةِ ۔یعنی جو حاضر ہیں انکی واجب ذمہ داری ہے کہ غدیر کے پیغام کو اُن لوگوں تک پہنچائیں جو غائب ہیں ( یعنی جو جانتے ہیں وہ نہ جاننے والوں کو اس پیغام کی تعلیم دیں ) اور قیامت تک ہر باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو پیغام غدیر بتائے۔
انہوں نے مزید اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا کہ جب تک کہ ہم خود اہمیت غدیر کو قرآن و حدیث کی روشنی میں محکم دلیلوں سےنہییں پہچانیں گے تب تک رسولﷺ کی دی ہوئی ذمہ داری کو ادا نہیں کر پائیں گے ۔ پیغمبر اسلام ﷺ کی یہ حدیث ، غدیر کی اہمیت کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی بیان کر رہی ہے کہ غدیر صرف ایک ایسا تاریخی واقعہ نہیں ہے کہ جو زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ختم ہوجائے بلکہ یہ ایک ایسا عظیم واقعہ ہے کہ جس کا ابلاغ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایسے واجب تھا کہ اگر آپ ﷺاسکی تبلیغ نہ فرماتے تو گویا کہ آپ نے کسی بھی چیز کی تبلیغ نہیں کی لہٰذا یہ واقعہ زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اور واضح و روشن ہونا چاہئے کیونکہ جو رسول ﷺ کا ماننے والا ہے اُسے حکم ہے کہ جو بھی لوگ اس حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں اُنہیں اس سے آگاہ کریں پس جو بھی رسول اسلام ﷺ کا ماننے والا ہوگا اُسے آپ ﷺ کے اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے قیامت تک نسل در نسل اِسے بیان کرتے رہنا چاہئے۔