حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حجۃ الاسلام و المسلمین مولاناسید شمع محمد رضوی، قرآن وعترت فاونڈیشن،علمی مرکزقم،ایران نے شہادت امیرالمونین حضرت علی علیہ السلام کے مناسبت سے کہا کہ مختصر طور پر حضرت علی علیہ السلام کی زندگی، حضرت علی کی ولادت١٣ رجب المرجب ٣٠ عام الفیل کوکعبہ میں ہوئی ۔ آپ کی والدۂ گرامی کا نام فاطمہ بنت اسد اور والد بزرگوار کا نام حضرت ابو طالب تھا ۔ آپ کی شہادت٢١ رمضان المبارک چالیس ہجری مسجد کوفہ میں واقع ہوئی، آپ کی قبر مطہر نجف اشرف میں ہے ۔
حضرت علیؑ کی زندگی چند حصوں پر مشتمل ہے :
آپ پیغمبر اسلاۖم کی بعثت سے دس سال قبل دنیا میں آئے اور حضورۖ کے انتقال کے بعد ٣٠ سال تک زندہ رہے اس تناظر میں آپ کی ٦٣ سالہ عمر کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔(۱): ولادت سے پیغمبر اسلاۖم کی بعثت تک (۲): بعثت سے مدینہ ہجرت تک (۳)۔ ہجرت سے پیغمبر اسلاۖم کی وفات تک (۴)۔ وفات پیغمبر ۖ سے آغازحکومت تک (۵)۔ خلافت سے شہادت تک۔
پہلا حصہ: ولادت سے پیغمبر اسلاۖم کی بعثت تک؎ :اس سے قبل بیان کیا گیا کہ اگر حضرت علیؑ کی زندگی کو پانچ حصوں میں تقسیم کیاجائے تو آپکی زندگی کا پہلا حصہ پیغمبر اسلاۖم کی بعثت تک معین ہوتاہے ۔ اس وقت آپ کی عمر دس سال سے زیادہ نہیں ملتی ۔ اس لئے کہ حضرت علیؑ کی ولادت کے وقت آنحضرۖت کی عمر ٣٠ سال تھی ۔ اور پیغمبر اسلاۖم، چالیس سال کی عمر میں مبعوث بہ رسالت ہوئے ۔ اس بناپر حضرت علیؑ کی عمر بعثت کے وقت پر دس سال متعین ہوتی ہے ،حضرت علی آغوش رسالت میں :رسول خدا ۖنے مصائب و مشکلات اور تنگدستی کے زمانے میں حضرت علی کی تربیت کی چنانچہ اس سلسلے میں اسلامی مورخین رقم طراز ہیں : ''ایک سال مکہ میں سخت قحط پڑا پیغمبر اسلام ۖ کے چچا ابو طالب بہت زیادہ عیال مند تھے اخراجات کابوجھ سخت تھا پیغمبر اسلام ۖنے اپنے دوسرے چچا جناب عباس سے مشورہ کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو بھی خاندان بنی ہاشم میں زیادہ مالدار ہے ہر ایک فرزندان ابو طالب کو اپنے گھر لائے تاکہ حضرت ابو طالب کا بوجھ ہلکا ہو جائے جناب عباس اور پیغمبر اسلام ۖجناب ابو طالب کے پاس آئے او راس مسئلہ کو سامنے رکھا جناب ابو طالب نے اسے قبول کیا جس کے نتیجہ میں جناب عباس، جناب جعفرکو اور پیغمبر اسلاۖم حضرت علی کو اپنے گھر لے گئے ۔حضرت علی آنحضرتۖ کے مبعوث بہ رسالت ہونے تک ان کے گھر رہے ۔ اور اس عالم میں حضرت علی نے ان کی تصدیق کی (۔ابن اثیر ،الکامل فی التاریخ ،ج٢،ص ٥٨،) حضرت علیؑ غار حرا میں.آنحضرت ۖ بعثت سے پہلے عبادت کی غرض سے ہرسال ایک مہینہ کے لئے غارحرا میں جاتے تھے اور جب مہینہ تمام ہو جاتا تھا اور گھر پلٹنا چاہتے تھے تو سب سے پہلے مسجد الحرام میں تشریف لاتے تھے اور جتنا بھی چاہتے خانہ ٔخدا کا طواف کرتے تھے اورپھر گھر واپس جاتے تھے ۔ ( ابن ہشام السیرة النبویہ ،ج١،ص ٢٥٢ ،) قرائن بتاتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفےٰ ۖحضرت علی کو اس قدر چاہتے تھے کہ آپ حضرت علی کو ہمیشہ اپنے ہمراہ رکھتے تھے خطبۂ قاصعہ میں حضرت علی اس واقعہ کواس طرح بیان فرماتے ہیں کہ آنحضرت ۖکے ساتھ ہمارے علاوہ کوئی بھی غار حرا میں نہیں جایا کرتا تھا جب آنحضرت ۖ پر پہلی بار وحی نازل ہوئی تومیں بھی وہاں موجود تھا۔
دوسراحصہ: [بعثت سے پیغمبر اسلاۖم کی ہجرت تک] حضرت علیؑ رسول خدا ۖ کے جانشین اور مدد گار،پیغمبر اسلام ۖ نے ٣ سال تک سبھی کو اسلام لانے کی دعوت دی، ٣ سال بعد پیغمبر ۖ پر وحی ہوئی کہ اے پیغمبرص! سب سے پہلے اپنے قریبی رشتہ داروں کو اسلام کی دعوت دیںاورعذاب خدا سے ڈرائیں خدا کا حکم اس طرح سے تھا :''اپنے قریبی رشتہ داروں کو عذاب سے ڈرائیں اوران مومنوں کی بابت منکسرمزاج رہیں جنھوں نے آپکی پیروی کی اوراگر کچھ لوگ آپ کی بات نہ سن کرآپ کی مخالفت کریں تو کہدیجئے کہ میں ان لوگوں سے بیزار ہوں ''(سورۂ شعراء ٢١۴،٢١٦) ۔قریبی رشتہ داروں کو دعوت دینا اورعذاب سے ڈرانے کی وجہ یہ تھی کہ جب تک ایک رہبر کےنزدیک والے ایمان نہ لائیں اس وقت تک کامیابی نہیں مل سکتی ہے،کیونکہ نزدیک افراد ہر ایک کی اچھائی اور برائی سے واقفیت رکھتے ہیں اسی لئے آنحضرت ۖنے حضرت علیؑ کو حکم دیا کہ بنی ہاشم کی بزرگ ہستیوں میں سے ۴۵ لوگوں کو کھانے کی دعوت دیں اور کھانے کے لئے دودھ اور گوشت کا انتظام کریں۔ چنانچہ آنحضرت ۖکے حکم کی تعمیل کی گئی۔ تمام مہمان پیغمبر اسلاۖم کی خدمت میں معینہ قت پرآئے اور جیسے ہی کھانے سے فراغت حاصل ہوئی ابو لہب،پیغمبر ۖکے چچا نے سبھی کو اس طرح بھڑ کایا کہ نتیجہ کے بغیر سبھی اپنے اپنے گھر واپس چلے گئے ۔ دوسرے دن پیغمبر ۖنے ابو لہب کے علاوہ تمام لوگوں کو پھر دعوت دی سبھی آئے کھانا کھانے کے بعد پیغمبر ۖ نے پیغام الٰہی کو سنایا: ''اے لوگو! میں تمہارے لئے اب تک کا بہترین تحفہ لایا ہوں ۔ میں تمہارے لئے دنیا وآخرت کی سعادت لایا ہوں ۔خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ تم لوگوں کو وحدانیت خدا اور اپنی رسالت کی دعوت دوں ، کون ہے جو اس مسئلہ میں میری مدد کرے ؟جو میری مدد کرے گا وہ میرا بھائی،وصی اور جانشین ہو گا ''۔ یہ کہہ کر آنحضرۖت تھوڑی دیر خاموش رہے کسی نے لبیک نہیں کہا اس وقت حضرت علی (جن کی عمر ١٥ سال کی تھی)نے اٹھ کر لبیک کہا آنحضرت ۖ نے فرمایا: بیٹھ جائو ۔ پھر دوسری مرتبہ آنحضرت ۖنے اپنی بات دہرائی پھر بھی علی کے سوا کسی نے نصرت کی پیش کش نہیں کی ۔ پھر پیغمبر اسلام ۖنے کہا بیٹھ جائو ۔ تیسری بار پیغمبر ۖنے اپنی بات کی تکرار کی لیکن اس وقت بھی حضرت علی کے علاوہ کوئی نہ اٹھا ۔ اس وقت آنحضرت ۖ نے فرمایا : علی ہمارے وصی اور جانشین ہیں اور ہمارے بعد خلیفہ ہیں اس ترتیب سے سب پہلے پیغمبر اسلام ۖکے وصی کا اعلان رسالت کے شروع میں اس وقت ہو ا جب چند لوگوں کے علاوہ کسی اور نے اس دین کو قبول نہیں کیا تھا ۔ یا یوں عرض کیا جائے کہ رسول اسلام ۖنے ایک ہی دن میں اپنی نبوت اور علی کی امامت کا اعلان کر دیا اور لوگوں سے فرمایا: اے لوگو! میں پیغمبر خدا ہوں پھر اسی دن فرمایا: علی ہمارے جانشین ہیں ۔اس واقعہ سے اسلام میں امامت کی منزلت بخوبی روشن ہو جاتی ہے کہ امامت اور رسالت دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں اور امامت ، رسالت کاتکملہ ہے ۔جس نے بھی اسلام لانے میں سبقت کی قرآن مجید نے واضح طور پر اس کی عظمت و اہمیت کا اعلان کیا ہے ۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ جن لوگوں نے فتح مکہ سے پہلے خدا کی راہ میں انفاق کیا پھر جہاد کیا ۔ اور جن لوگوں نے فتح مکہ کے بعد راہ خدا میں انفاق اور جہاد کیا برابر نہیں ہیں ۔ بلکہ جنہوں نے سبقت کی وہ زیادہ مقام رکھتے ہیں( سورۂ واقعہ ١٠ ،١١۔'' و السابقون السابقون اولئک المقربون '' ۔) لہٰذا جب قرآن کی روشنی میں فتح مکہ سے پہلے اور بعد والے جہاد کرنے میں برابر نہیں ہیں تو جو لوگ ہجرت سے پہلے ایمان لائے اور جنھوں نے ہجرت کے بعد اسلام قبول کیا تھا وہ کیسے برابر ہو سکتے ہیں( سورۂ حدید ١٠)'' ''
تیسرا حصہ:ہجرت سے رحلت پیغمبرتک'' ''حضرت علی پیغمبر اسلام ۖ کے بھائی اس میں کوئی شک نہیں کہ پیغمبر خدا ۖ نے مکہ میں مسلمانوں کے درمیان رشتۂ اخوت و برادری بر قرار فرمایا لیکن ہجرت کر کے ان مسلمانوں کا مکہ سے مدینہ چلے آنا اور نئے اقتصادی و اجتماعی مسائل و حالات کا پیدا ہونا اس امر کا باعث بنا کہ مہاجرین و انصار مسلمانوں کے درمیان نیا رشتۂ اخوت و برادری برقرار ہو ۔ چنانچہ یہی وجہ تھی کہ آپ نے مسلمانوں کو جمع کیا اور ان سے فرمایا : ''راہ خدا میں تم دو دو مل کر ایک دوسرے کے بھائی بن جاو ''۔ رسول خدا ۖنے اپنے اس دانشمندانہ فیصلے سے ان مہاجرین کے مسائل زندگی کو حل کر دیا جو اپنی ہرچیزمکہ میں چھوڑ کر مدینہ چلے آئے تھے اوراس طرح آنحضرت ۖنے ان کے ارمان و آرزو اوردین و ایمان کو محفوظ کرلیا ۔ اگر چہ مہاجرین اور انصار دومختلف ماحول کے پروردہ تھے اور ان کے طرزفکرومعاشرت میں بھی نمایاں فرق تھا ۔ لیکن آپ نے انہیں اپنی دانشمندی سے نہ صرف یک جان و دو قالب کردیا بلکہ دونوں کے حقوق کو بھی مقرراور مرتب فرمایا ۔ رسول خدا ۖنے مہاجرین و انصار کے درمیان رشتۂ اخوت اور برادری برقرارکرنے کے بعد حضرت علیؑ کے ہاتھ کو اپنے دست مبارک میں لے کرفرمایا: تم دنیا و آخرت دونوں میں میرے بھائی ہو (ا لحاکم نیشاپوری ، المستدرک علی الصحیحین ،ج٣، ص١۴) اور اس وقت اپنے اورعلیؑ کے درمیان عقد اخوت پڑھا( ابن عبد البر،الاستیعاب فی معرفة الاصحاب ،ج٣،ص ٣٥ ) یہ واقعہ حضرت علی کی فضیلت اور عظمت کی بھر پور نشانی ہے اور واضح کرتا ہے کہ حضرت علیؑ پیغمبر اسلام ۖ سے کس قدر نزدیک تھے،حضرت علی ؑمیدان شجاعت میں۔ (الف) جنگ بدر:یہ پہلی جنگ ہے جو ہجرت کے دوسرے سال مسلمانوں اور مشرکوں کے درمیان رونماہوئی ۔آنحضرۖت کو یہ اطلاع ملی کہ قریش کا تجارتی قافلہ ابو سفیا ن کی سرپرستی میں شام سے مکہ کی طرف پلٹنے والاہے اورچونکہ قافلہ مدینہ کے قریب سے گزرے گا لہٰذا آنحضرتۖ مہاجرین وانصار میںسے ٣١٣سپاہیوں کو لے کر جنگ کے لئے نکل پڑے آنحضرۖت کا مقصد یہ تھا کہ قریش جان لیں کہ اگر اسلام کی تبلیغ میں اب کوئی مشکل کھڑی کی تو ہم انکے اقتصاد یات سے اسکا انتقام لے سکتے ہیں ،ابو سفیا ن کو جب یہ خبر ملی تو ایسا راستہ اپنایا جو ان لوگوں سے قریب نہیں ہوسکا اور مکہ پہونچ گیا اور تما م قریش کو اطلا ع دی اور مدد مانگی اس کے مدد مانگنے کی وجہ سے ٩٥٠ سے لیکر ایک ہزار قریشی سپاہی ١٧ رمضان المبارک کو مدینہ کی طرف چل پڑے ۔جنگ کی پہل قریش کی طرف سے ہوئی قریش کے تین دلا ور عتبہ (ابو سفیان کاسسر)شیبہ ،(عتبہ کا بھا ئی)اور ولید (عتبہ کا فرزند) نکلے ۔مسلمانو ں کی طرف سے انصار سے ٣دلاور نکلے قریش نے آواز دی اے محمدص !ہمارے ہم مرتبہ افراد کو مقابلہ کے لئے بھیجو اس وقت آنحضرتۖ نے عبیدہ بن حارث بن عبد المطلب ،حضرت حمزہ اور حضرت علیؑ کو بھیجا جناب حمزہ شیبہ کے اورعبیدہ عتبہ کے اورحضرت علیؑ ولید (معاویہ کے ماموں ) کے مقابلے میں آئے جناب حمزہ اور حضرت علیؑ نے اپنے مقابل کو قتل کردیا لیکن جناب عبیدہ کا عتبہ کے ساتھ مقابلہ جاری رہا حضرت علیؑ اورجناب حمزہ نےعبیدہ کی مدد کی۔اور نتیجہ یہ ہوا کہ عتبہ کو بھی ہلا ک کردیا گیا(ابن اثیر الکامل فی التاریخ بیروت دار صادر ١٣٩٩ہجری ج٢ ،ص ١٢٥ ) حضرت علیؑ نے اس کا تذکرہ معاویہ کو لکھے گئے خط میں کیا تھا اسمیں یہ بھی مذکور ہے کہ وہ شمشیر جس سے تمہارا جدعتبہ اورتمہارے ماموں ولید اور تمہارے بھا ئی حنظلہ کو قتل کیا تھا وہ اب بھی میرے پہلو میں موجود ہے(٢)۔اس جنگ میں کفار کو شکست ملی اور دشمن کے ٧٠ افراد اسیر ہوئے اور اس جنگ میں آدھے سے زیاد ہ افراد حضرت علیؑ کے ہاتھوں قتل ہوئے، مرحوم شیخ مفید نے لکھا ہے کہ شیعہ اورسنی راوی اس بات پر متفق ہیں کہ اس جنگ میں ٣٦ افراد حضرت علی کے ہاتھوں قتل ہوئے الارشاد:ص ٣٩، قم مکتبہ بصیرتی (بی تا)،،،(ب) جنگ احد میں حضرت علیؑ کی بےمثال شجاعت رسو ل قریش،جنگ بدر میں ناکام ہونے کی وجہ سے بہت غمگین تھے جسکا بدلہ لینے کےلئے ایک بڑی تعداد میں سپاہیوں کو جمع کر کے مدینہ پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا اسکی خبرمدینہ میں آنحضرۖت کو ملی تو سپاہیوں کو جمع کرنا شروع کردیا بعض نے آنحضرت ۖسے کہا کہ بہتر ہے ہم لوگ جنگ کرنے کے لئے مدینہ سے باہر نکلیں آنحضرتۖ سپاہیوں کو لیکر احد کے پہاڑ کی طرف نکل پڑے اسی اثنا میں منافقین کا سردار عبدا للہ ابن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کے ساتھ بہانہ بناکر جد اہوگیا جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے لشکر کی تعداد ٧٠٠ افرادہوگئی ۔سنیچر کے دن ٧ شوال کواحد کے دامن میں دونوں لشکر ایک دوسرے کے مقابل آگئے اگر چہ احد کا پہاڑ لشکر اسلام کے پیچھے تھا مگر اس کے باوجودل خدا ۖ نے عبد اللہ بن جبیر کے زیر فرمان ٥٠ کمانڈر وں کو درہ عینین کے دہانے پر اس مقصد کے تحت مقرر کردیا تھا کہ دشمن کو درّے کے راستے سے مسلمانوں پر حملہ آور نہ ہو نے دیں جنگ کی شروعات قریش کے علمبردار بنی عبد الدار قبیلے کے شجاعت مند افراد سے ہوئی لیکن جنگ شروع ہونے کے بعد ہر ایک حضرت علی کے ذریعہ قتل ہوتا رہا جس کے نتیجہ میں قریش کی فوج کمزور ہوتی رہی ۔امام صادق علیہ السلام نے فرماتے ہیں : ''احدمیں قریش کے پرچم دار نو افراد تھے جو سب کے سب حضرت علیؑ کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ (شیخ مفید الارشاد قم مکتبة بصیرتی ( بی تا ) ص ۴٧)ابن اثیر نے بھی لکھا ہے کہ جس نے قریش کے نو علمبرداروں کو قتل کیا وہ حضرت علیؑ تھے١۔چوتھا حصہ۔ خلفاء کے زمانے میں حضرت علی کے کارنامے (١)خداکی عبادت کرنا وہ بھی ایسی عبادت کہ امام سجا د جنہوں نے عبادت کی وجہ سے زین العابدین کالقب پایا وہ فرماتے تھے: میرے جد بزرگوار کی عبادت کا کوئی جواب نہیں تھا ۔(٢) قرآن کی تفسیر اوراسکی جمع آوری اور علم تفسیر میں شاگردوں کی تربیت کرنا جیسے عبد اللہ بن عباس جو اصحاب میں سب سے بڑے مفسر تھے ۔(٣) دنیاکے دانشور خاص طورسے یہودی اورعیسائی جو آنحضرۖت کی رحلت کے بعد مدینہ آتے تھے اور سوالات کرتے تھے جن کا جواب علیؑ کے علا وہ اورکوئی دے نہیں پاتا تھا حضرت کے جواب دینے سے شکست کھا کر وہ لوگ واپس چلے جاتے تھے ۔(۴)ایسے واقعات جو اس وقت تک اسلام میں رونما ہوچکے تھے انکے اور بالخصوص قرآن اور آنحضرۖت کی سنت کے بارے میں احکام بیان کرنا ظاہر ہے کہ ایسے مسائل کو سوائے مشکل کشا کے کون حل کر سکتاتھا ،اگر صحابہ کے درمیان حضرت علیؑ جیسی شخصیت موجود نہ ہوتی تو رسول اکرۖم کی رسالت کی تصدیق کرنے والا کوئی نہیں ہوتا اوراسلام کے بہت سے مسائل بغیر حل ہوئے رہ جاتے ،اسی طرح چونکہ اسلام ابھی نیا نیا تھا لہٰذا ضرورت اس بات کی تھی کہ بعد رسول اکرمۖ ایسا امام اورمعصوم آئے جواسلام کے تمام اصول وفروع پر مکمل تسلط رکھ سکے اور لوگوں کے درمیان وسیع علم کاحامل ہو اورامت کو گمان وقیاس سے دور رکھ سکے ظاہر ہے کہ تمام اصحاب رسولۖ میں ایسی آگاہی کے حامل صاورصرف حضرت علیؑ تھے ۔امام کی قضاوت اورقرآن کی آیتوں سے مطالب کو صحیح طورپر اخذ کرنا تاریخوں میں بہت زیادہ ملتاہے بلکہ بعض دانشوروں نے ان مسائل پر مشتمل مستقل کتابیں تحریر کی ہیں۔ (٢)(٥)اپنے پاک ضمیر اور روشن فکر شاگردوں کی تربیت اور پرورش کرنا جو سیر وسلوک کیلئے آمادہ رہیں ۔(٦) بعض لاچار ومجبور انسانوںکی زندگی کے مخارج پورا کرنے کی سعی وکوشش کرنا ، باغ لگا کر یا کنواں کھود کر خدا کے لئے خود کو وقف کرنا۔
امام کاخلفاء کی علمی اورسیاسی مشکلات کو حل کرنا تاریخیں بتاتی ہیں کہ حضرت ابوبکر اورحضرت عمر اپنی خلا فت کے دوران سیاسی، عقائدی، تفسیری اوراسلامی احکام کی مشکلا ت میں حضرت علی کی طرف رجوع کرتے تھے جس کے نمونے ذکر کئے جارہے ہیں ۔
رومیوں کے ساتھ جنگ کرنا اسلا م کے دشمنوں میں سے ایک روم کابادشاہ تھاکہ اسلام کی مرکزی حکومت کوشمال کی جانب سے دھمکی دے رہا تھا۔جس سے آنحضرۖت آخری عمر تک غافل نہیں تھے ۔ ہجرت کے آٹھویں سال ایک گروہ کو جعفر طیار کی کمانڈری میں شام کی جانب روانہ کیا، افسوس اسلام کے سپاہی تین کما نڈر وں کو گنواں کر بغیرکسی نتیجہ کے مدینہ واپس آگئے جس کی تلافی کے لئے خود آنحضرتۖ نوہجری کوسپاہیوں کے ساتھ تبوک کی طرف روانہ ہوئے لیکن دشمن کی سپاہ سے سامنا کئے بغیر مدینہ واپس آگئے۔ آنحضرۖت کو رومیوں کے حملے کا ہمیشہ خطرہ رہتا تھا اسی وجہ سے اپنی زندگی کے آخری لمحہ میں بھی بستر علالت پر رہنے کے باوجود مہاجرین وانصارمیں سے سپاہیوں کو ترتیب دے کر شام کی جانب روانہ کیا ۔ یہ لشکر کسی وجہ سے مدینہ کو چھوڑ نہیں سکا اور ابھی مدینہ سے چند کیلومیٹر کے فاصلے ہی پر خیمہ زن تھا کہ آنحضرت ۖدنیا سے چلے گئے آنحضرۖت کی رحلت کے بعد جب مدینہ کی سیاسی فضا خراب ہوکر سنبھلی او رحضرت ابو بکر نے خلا فت کی باگ ڈور سنبھالی تو آنحضرۖت کے فرمان (رومیوں سے جنگ) کو نافذ کرنے میں حضرت ابو بکر کے دودل ہورہے تھے اس سلسلہ میں انہو ں نے رسول اسلا م ۖکے بعض صحابیوں سے مشورہ لیا چنانچہ ہر شخص نے اس سے متعلق اپنی رائے کا اظہار کیا آخرکار انہوں نے حضرت علی سے بھی مشورہ کیااورحضرت کی رائے کو جاننا چاہا، آپ نے رسول خدا ۖ کے حکم کو نافذ کرنے کی ترغیب دلا ئی اور مزید فرمایا : ان فعلت ظفرت یعنی اگر آپ یہ قدم اٹھائیں گے تو کامیاب ہونگے خلیفہ نے بھی آپ کے کہنے پر عمل کیا ۔( ابن واضح یعقوبی ، تاریخ یعقوبی ج٣، ص ٣٩)۔
۴۰ھ کی انیس رمضان سحر کا وقت تھا حضرت علی کے سرپہ ضربت لگی ،حضرت علیؑ معمول کےمطابق مسجد کوفہ میں نمازجماعت کیلئے گھر سے مسجد کی طرف چلے،مسعودی لکھتا ہے کہ! اس رات گھرکا دروازہ کھولنا حضرت کے لئے مشکل ہو رہا تھا جو خرمے کی لکڑی کا تھا ، آپ نے دروازے کواکھاڑکر الگ رکھا اور یہ شعر پڑھا:موت کےلئے کمر بستہ ہو جائو کیونکہ موت تمہارا دیدار کرنے والی ہے، اگر موت تمہارے گھر میں آجائے تو اس سے اندوہناک نہ ہو اور بے تابی کا مظاہرہ نہ کرو،حضرت علیؑ مسجد کی طرف روانہ ہوئے ، معمول کے مطابق دو رکعت نماز پڑھی پھر گلدستہ پر اذان کے لئے تشریف لے گئے ، اس قدر بلند آواز سے اذان کہی کہ تمام ساکنان کوفہ نے سنی ،پھرنیچے اتر کرمحراب میں آئے اور نافلہ صبح میں مشغول ہوگئے، آپ رکعت اول کے پہلے سجدے سے سر اٹھانا چاہتے تھے کہ ابن ملجم نے آپ کے سر پرایسی کاری ضرب لگائی کہ اس ضرب سے آپ کا سر پیشانی تک شگافتہ ہو گیا، حضرت علیؑ نے اس وقت فرمایا : ''فزت و ربّ الکعبة ''پھر آپ نے محراب کی تھوڑی مٹی اٹھائی اورسرکے زخم پرچھڑکتے ہوئے یہ آیت پڑھی اس زمین سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اور اسی میں پلٹا کر لے جائیںگے اور پھردوبارہ اس سے نکالیںگے ''۔جبرئیل نے زمین و آسمان کے درمیان صدائے فریاد بلند کی : خدا کی قسم ہدایت کے ارکان منہدم ہو گئے ، نشان تقویٰ بجھ گیا ، اعتماد بھری رسّی ٹوٹ گئی ، رسول کے چچیرے بھائی قتل کر دئے گئے،علی مرتضیٰ قتل کر دئے گئے،پوری دنیاغم میں ڈوبی،،دنیائے بشریت کےلب کابیان''''اللھم العن قتلۃ امیرالمومنینؑ '' آج اسی سبب مومنین شہادت امیرکائنات مولاامیرالمومنینؑ حضرت امیرالمومنینؑ کی شہادت کی تاریخ میں غم واندوہ مدہوش ہیں،کیونکہ یہ ایام وہ قیامت کے ایام ہیں جس دن رسول اسلام ص کے نواسے یتیم ہوئے،ثانی زہراحضرت زینب(س)بن باپ کی ہوئیں،چاہنے والے بے سرپرست ہوئے ایسا لگتاہے دنیامیں ابھی تک آوازگونج رہی ہے عزاداری کرودل کھول کر کرومنادی کی نداہے،ارکان ہدایت منہدم ہوئے۔