حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حرم مطہر کریمہ اہلبیت (ع) کے بین الاقوامی شعبہ کے خادم اور خاتم الانبیاء مشن کے بانی و سربراہ حجة الاسلام والمسلمین سید ذاکر حسین جعفری نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام 13 رجب سن 30 عام الفیل میں اللہ کے گھر خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے۔ نبی کریم حضرت محمد مصطفی صلی االلہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کا نام اللہ تعالی کے نام پر علی رکھا۔
آپ کے مشہور القابات میں امیر المومنین، اسداللہ، کرار، یداللہ ، نفس اللہ، ساقی کوثر ، حیدر اور نفس رسول شامل ہیں۔ آپ کی مشہور کنیت ابوالحسن اور ابوتراب ہیں۔ حضرت علی (ع) بنی ہاشم کے پہلے چشم و چراغ ہیں جن کا سلسلہ نسب ماں اور باپ دونوں کی طرف سے حضرت ہاشم سے ملتا ہے۔ آپ کے والد گرامی حضرت ابو طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم اور آپ کی والدہ معظمہ فاطمہ بنت اسد بن ہاشم ہیں۔ہاشمی خاندان اخلاقی فضائل و کمالات نیز شجاعت، سخاوت، جواں مردی، دلیری اور بہادری کے لحاظ سے تمام عرب قبائل میں مشہور اور معروف خاندان تھا۔
حضرت علی (ع) جب تین سال کے ہوئے تو آپ کی تربیت اور پرورش کی ذمہ داری مکمل طور پر رحمة للعالمین حضرت محمد مصطفی (ص) نے سنبھال لی۔ آنحضور اپنے چچازاد بھائی کی تعلیم و تربیت میں انتہائی محبت اور توجہ کے ساتھ مصروف ہو گئے چنانچہ جب پیغمبر اسلام (ص) نے دعوت ذوالعشیرہ میں اپنی رسالت اور نبوت کا اعلان کیا تو حضرت علی (ع) نے دس سال کی عمر میں آپ کی نبوت و رسالت کی تصدیق کی اور آپ کی مکمل حمایت ، نصرت اور مدد کا اعلان کیا اور پیغمبر اسلام (ص) نے بھی فرمایا کہ جو راہ اسلام میں میری حمایت ، نصرت اور مدد کرے گا وہ میرا وصی، خلیفہ اور جانشین ہوگا۔
جب پیغمبر اسلام(ص) نے اپنی بعثت کا اعلان کیا تو مکہ کا ہر آدمی آپ کا دشمن ہو گیا جو لوگ کل تک آپ کو امین، صادق ، سچا و امانتدار سمجھتے تھے وہ سب کے سب آپ کے دشمن ہو گئے ، اب وہ آنحضور (ص) کے راستے میں کانٹے بچھاتے اور پتھر مارتے تھے۔ اس مشکل اور مصیبت کی گھڑی میں صرف اور صرف حضرت علی مشکلکشا ہی آپ کے ساتھ کھڑے تھے۔ حضرت علی (ع) نے آنحضور (ص) کی مدد و نصرت میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا یہاں تک کہ تمام خطرات کے باوجود شب ہجرت اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر پیغمبر اسلام کی جان کو بچا لیا اور اس موقع حضرت علی (ع) کے جذبہ قربانی ، ایثار اور فداکاری کو دیکھ کر اللہ تعالی نے اپنی مرضات کے بدلے میں علی (ع) کے نفس کو خرید لیا۔
حضرت علی (ع) نے صرف شب ہجرت میں ہی نہیں بلکہ جنگ بدر ، احد، خیبر و خندق میں بھی محمد رسول اللہ کو بچانے میں بنیادی، اساسی اور اہم کردار ادا کیا۔ جس طرح حضرت علی (ع) نے شب ہجرت اور تمام غزوات میں رسول خدا کی مدد اور نصرت کرکے ذوالعشیرہ میں کئے گئے اپنے وعدے کو عملی جامہ پہنایا اسی طرح پیغمبر اسلام(ص) نے بھی اللہ تعالی کے حکم سے غدیر خم میں حضرت علی (ع) کو اپنا خلیفہ اور جانشین بنا کر اپنے وعدے کو پورا کردیا۔ حضرت علی (ع) نے آنحضور (ص) کی وفات کے بعد بھی اپنی خلافت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے محمد رسول اللہ کو بچانے میں اہم اور نمایاں کردار ادا کیا۔
تاریخ اسلام کے مطابق رسول خدا (ص)کی جانگداز رحلت کے بعد آنحضور(ص) کے تمام ظاہری اور مخفی دشمن حضرت علی (ع) اور ان کی اولاد کے دشمن بن گئے۔حضرت علی (ع) اور ان کی اولاد کے ساتھ دشمنی میں ہندہ جگر خوارہ اور ابوسفیان کی اولاد پیش پیش تھی۔ حضرت علی (ع) نے جنگ جمل، جنگ صفین اور نہروان میں منافقین کے چہروں کو بے نقاب کیا۔ ہندہ جگر خوارہ کے بیٹے معاویہ نے حضرت علی کے خلاف دشمنی اور عداوت کی تمام حدوں کو پار کرکے اللہ کے گھر میں پیدا ہونے والے علی مرتضی (و)کو اللہ کے گھر میں شہید کروادیا۔ مسجد کوفہ میں سجدے کی حالت میں جب شقی ترین فرد عبدالرحمن بن ملجم نے حضرت علی (ع) کے سر مبارک پر زہر آلودہ تلوار سے وار کیا تو حضرت علی (ع)نے فزت و رب الکعبہ کہہ کر اپنی ابدی اور دائمی فتح اور کامیابی کا اعلان کیا اور اللہ کے گھر میں اپنی جان جان آفرین کے حوالے کردی۔ ادھر ہاتف نے آواز دی" قد قتل وصی مصطفی" حضرت محمد مصطفی (ص)کے وصی اور جانشین کو شہید کردیا گیا۔ زینب و ام کلثوم اور حسنین کریمین (ع) یتیم ہوگئے۔