۱۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۵ شوال ۱۴۴۵ | May 4, 2024
ڈاکٹر شجاعت حسین

حوزہ/ امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام کو 1297 سال قبل حاکم وقت، منصور دوانقی نے 15، شوال 148 ہجری بعمر 65 سال میں زہر دے کر شہید کروایا۔ (ارشاد شیخ مفید، صفحہ 413' نورالابصار، صفحہ 132)۔ مقام دفن جنت البقیع، مدینہ منورہ ہے جسے ملعون آل سعود نے 100 سال قبل منہدم کیا، جس کی تعمیر کے لیے ہر سال 8/ شوال کو پوری دنیا میں احتجاج کیا جاتا ہے۔

تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین

حوزہ نیوز ایجنسی| امام جعفر صادق علیہ السلام کی ذات گرامی توصیف و تعریف کی حد سے بلند ہے اور مدح و مناقب آپؑ کا حق ادا کرنے سے قاصر ہے۔ دنیا جتنے صاحبان شرف ہیں وہ گویا زمین کے مانند ہیں۔ وہ سب پست ہیں اور آپؑ ان سب کے لئے آسمان ہیں یعنی بلند تر ہیں۔ اس شخص کی مدح، ثناء و مناقب کی حد کون معین کر سکتا ہے جو انبیاء کرام کی ذریت ہو! اور آپ (ص) نے فرمایا "اوّل محمدؐ، اوست محمدؐ، آخر محمدؐ و کل محمدؐ"زیر نظر مضمون چھٹے تاجدار امامت حضرت جعفر صادقؑ پر ایک کاوش ہے۔ اس میں قرآن، نہج البلاغہ، تفسیر مجمع البیان، تفسیر کبیر، نہج الصادقین، تفسیر نمونہ، فصل الخطاب، تاریخ طبری، تاریخ یعقوبی، مناقب ابن شہر آشوب، بحار الانوار، امالی شیخ صدوق، امالی شیخ طوسی، عیون اخبار الرضا، کافی، خصال شیخ صدوق اور عالم اسلام کی دیگر معروف کتابوں جیسے چودہ ستارے، خوشبوئے حیات میں بکھرے ہوئے جواہر کی چمک و شعاعیں پیش کرنے کی سعی ہے۔

قوت فکر و نظر، فہم و ادراک سر خم کرتے ہیں۔ کسی کے قلم میں میں اتنی توانائی کہاں ہے کہ ان خاصانٍ خدا کی مدح و ثناء کا حق ادا کر سکے اور ان ہادیان برحق کی سیرت طیبہ، فضیلت، عظمت و کمالات کے ایک ایک پہلو کا مکمل ذکر یا تحریر کر سکے! بہر کیف، یہ فضیلت قابل تحریر و تحسین ہے کہ جب مغربی دنیا کے 25 نامور ماہرین فن اور صاحبان علم و تحقیق یکجا بیٹھے اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی حیات طیبہ کے صرف ایک پہلو پر گفتگو کے لیے سر جوڑ کر بیٹھے تو ایک انتہائی ضخیم کتاب منصہء شہود میں آئی جس کا نام ان لوگوں نے تجویز کیا "مغزٍ متفکر جہانٍ شیعہ" جس کا اردو ترجمہ ہے "دنیائے تشیع کا دور اندیش دماغ" یہ ذکر کردہ کتاب فرانسیسی زبان میں نہایت فخر، قدر و اہتمام سے شائع کر منظر عام پر آئی۔ مغربی دنیا میں ماہرین فنون اور صاحبان علوم میں تدبر و تفکر سے اس کتاب کا مطالعہ کیا اور کسب فیض و کمال ہوئے۔

اس کتاب میں مذکورہ دانشمندوں نے امام جعفر صادقؑ کی علمی ترقیوں اور فکر و شعور کے ارتقاء کا جائزہ لیا ہے اور دلائل و شواہد سے ثابت کیا ہے کہ امام صادقؑ نے اپنے شاگردوں کو کثرت سے ایسے علوم سے روشناس کرایا، جن کی بیسویں صدی سے مغربی دنیا کے سائنسدانوں کے افکار و خیالات کی رسائی بھی نہیں تھی۔

عام و خواص شیعہ اثناء عشری کو معلوم نہیں ہے کہ شیعوں کو جعفری کیوں کہتے ہیں؟ لوگوں کو صرف اتنا معلوم ہے کہ آپ محمد باقرؑ کے فرزند ہیں، چھٹے امام ہیں، جائے پیدائش مدینہ منورہ ہے اور آپ کی شہادت زہر دے کر دوالنقی نے کروائی۔ لیکن لوگوں کو یہ قطعی واقفیت نہیں ہے کہ امام جعفر صادقؑ نے اپنی حیات طیبہ میں کون کون کارنامے انجام دیئے جن کی بنیاد پر مذہب شیعہ کے نام نامی سے منسوب ہوا۔

یہ قابل غور و فکر و مرکز گفتگو ہے کہ پہلے امام حضرت علی بن ابی طالبؑ ہیں۔ آپؑ خیبر و خندق، بدر و حنین، احد و صفین جیسی جنگوں کے فاتح قرار پائے۔ علیؑ نے فرمایا 'سلونی سلونی قبل ان تفقدونی'، رسول اکرمؐ کا ارشاد ہے کہ علی شہر علم کے دروازہ ہیں، مشکل کشاء ہیں۔ ان سب بنیاد پر شیعہ مذہب علوی کیوں نہیں کہلایا؟

یہ سوال بھی ذہن میں گردش کرتا ہے کہ امام حسینؑ نے دین کی بلندی، حفاظت، بقاء اور سالمیت کے لیے سب سے بڑی اور تاریخ میں سب سے عظیم الشان قربانی پیش کی، سید الشہداء کہلائے، نوجوان جنت کے سردار ہیں، کشتی دین ہیں تو اس مذہب کا نام حسینی کیوں نہیں رکھا گیا؟

اس طرح کے خیالات کی لہر آتی ہے لیکن آخر کار سوال کا تحقیقی و مناسب جواب و مل ہی گیا۔

خلاصہء تحقیق قارئین کرام کے لیے تحریر کی جا رہی ہے۔ جرمنی کے شہر 'اسٹراسبرگ' سے ایک رسالہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی خدمات، اس دور کے حالات کا مکمل جائزہ کرتے ہوئے یہ واضح کیا گیا کہ امام صادقؑ نے درس و تعلیم کی عظیم الشان بنیاد رکھی جس نے اسی مذہب کو حیات نو بخشیں اور جس ذات گرامی کی تعلیمات سے اسی مذہب کو حیات نو عطاء ہوئی ہو اسی کا یہ حق ہے کہ اس مذہب کو اسی کے اسم گرامی سے منسوب کیا جائے۔

اثناء عشری کو مذہب جعفریہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جب قارئین کرام و محب آل محمدؐ جرمنی کے اس رسالے کا مطالعہ کریں جس میں خاص طور سے اس موضوع پر بحث کی گئی ہے، بلکہ اسی رسالہ کا بنیادی مضمون یہی تھا اور جس میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی تعلیمات تدریسی خدمات کو بہت واضح طور سے روشناس کرایا گیا ہے اور دلائل کے ساتھ ثابت کیا گیا ہے کہ بنی امیہ کے سیاہ دور میں مذہب شیعہ کی تعلیمات کو مٹا دینے کی اتنی بھر پور کوشش و سازش کی گئی تھی کہ اگر امام جعفر صادقؑ کا دور نہ آتا جس میں اطراف و اکنافٍ عالم سے لوگ امام کی خدمت میں جمع ہوتے اور فقہ، حدیث، تفسیر، کلام، علم معرفت، حکمت، طب فلکیات، الٰہییات، سماجیات، ٹیکنالوجی، صنعت و حرفت، علم کیمیا، علم سیارگان اور دوسرے علوم کے بارے میں امام سے ہدایات حاصل کرکے اپنے اپنے علاقوں میں پہنچاتے تو اس مذہب کے خد و خال نہ پہچانے جاتے۔ لیکن امامؑ سے کسب فیض حاصل کرنے والوں نے جب اپنے اپنے علاقوں میں جاکر ہر قسم کے علوم کی نشر و اشاعت کی اور لوگوں کو بتایا کہ ہم نے یہ سب امام جعفر صادق علیہ السلام سے حاصل کیا ہے تو یہ رفتہ رفتہ اتنی مشہور ہوئی کہ مذہب حق کا نام مذہب جعفریہ بن گیا۔

امام صادق علیہ السلام جدید علمی دور کے موجد ہیں، عرفان کے بانی ہیں، شیعی ثقافت کی تشکیل کی، آپؑ کی نظر میں علم ادب ضروری ہے اور اس کا لازمی طور پر مطالعہ کیا جانا چاہیئے ۔

اہل تشیع میں یہ ادراک و فہم ہونی چاہیے کہ امام صادقؑ کو ادب سے زیادہ دلچسپی تھی یا علم سے؟ آپ کے ذہن میں شعر کی زیادہ اہمیت تھی یا علم طب کی؟ ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جنہیں علم اور ادب دونوں سے یکساں دلچسپی رہی ہو۔ کیونکہ کے تمام نوع بشر کی فکر استعداد کچھ اس انداز کی ہے کہ وہ ادب سے دلچسپی رکھتے ہیں یا علم سے۔ آج کے شعراء کرام کے معلومات میں اضافے کے لیے یہ بھی قابل ذکر ہے کہ عربوں میں ادب کا اطلاق شعر پر ہوتا تھا جبکہ یہ جاہلیت کا دور تھا اور زبان کا نثری ادب سے رشتہ استوار کرنے والی ہستی امام صادقؑ کی ذات گرامی ہے۔ آپ علم و ادب کو نہ صرف مذہبی ثقافت کے اعتبار سے ضروری سمجھتے تھے بلکہ ارتقاء بشر اور مستحسن صفات کی تقویت کے لیے بھی اسے ضروری سمجھتے تھے۔

عام طور پر لوگوں کو ثقافت کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے اور شروع کے پانچ اماموں کا بھی اس میدان میں کوئی قابل ذکر کام نہیں ہے۔ قارئین کرام غور کریں، امام صادقؑ نے مذہب شیعہ کی خدمت دو طریقوں سے کی۔ ایک تو یہ کہ آپؑ نے علوم کی تدریس کے ذریعے اہل تشیع کو دانشمند بنایا جس کے سبب ایک شیعی ثقافت وجود میں آئی۔ شیعی ثقافت کے وجود میں آنے سے اس مذہب کو بڑی اہمیت و تقویت حاصل ہوئی۔ اور شیعہ مذہب کے ہر فرد کو احساس ہے کہ ثقافت ان کی تقویت کا باعث ہے۔ (یونان کی طرح) بعض قدیم قومیں آج اس لیے وجود میں ہیں کہ ان کی اپنی ثقافت ہے ورنہ وہ رفتہ رفتہ صفحۂ ہستی سے ختم ہو جاتیں، دوسری ظالم حکومتیں انھیں مٹی میں ملا دیتی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ شیع کو ختم کرنے کی بہت کوشش کی گئی، ظالم و جابر بادشاہوں کی ایک طویل فہرست ہے کہ اکیلے مضبوط و مستحکم ثقافت نے ہی بحفاظت ابتک سلامت رکھا۔ اور اس کا تاج امام جعفر صادق علیہ السلام کے سر ہے۔

امام صادقؑ نے محسوس کیا کہ مذہب شیعہ کے لیے ایک معنوی اساس کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ ادوار میں کسی کے آنے اور کسی کے جانے سے اس مذہب پر کوئی منفی اثرات مرتب نہ ہوں۔ آپؑ تدریس کے آغاز سے ہی اپنا لائحۂ عمل کو جانتے تھے۔ آپؑ اچھی طرح جانتے تھے کہ شیعہ مذہب کو باقی رکھنے کے لیے بس یہی ایک طریقہ ہے کہ اس کے لیے ایک ثقافت تشکیل پائے۔

یہ بات واضح کرتی ہے کہ یہ شخصیت نہ صرف علمی لحاظ سے فہم و فراست کی حامل تھی بلکہ آپؑ کو سیاسی تدبر حاصل تھا۔ اور آپؑ کو علم تھا کہ مذہب شیعہ کی تقویت کے لیے کسی ثقافت کی تشکیل طاقتور فوج تیار کرنے سے بہتر ہے۔ کیونکہ ایک طاقتور فوج ممکن ہے اپنے سے زیادہ طاقتور فوج کے ہاتھوں مغلوب ہو جائے لیکن ایک مضبوط، مستحکم اور وسیع ثقافت ہرگز تباہی کا شکار نہیں ہو سکتی۔ آپؑ نے یہ بھی اندازہ لگایا کہ اس ثقافت کو جلد از جلد وجود میں آجانا چاہیے تاکہ وہ ان تمام فرقوں پر فوقیت رکھے جو اسلام میں ظہور پذیر ہو رہے تھے اور ابھی ثقافت سے ان کا دور کا رشتہ بھی نہ تھا۔

آخر میں یہ بھی لکھ دی جائے۔ امام صادق علیہ السلام سے کسی چاہنے والے شخص نے پوچھا کہ متعدد علوم میں کون سا علم دوسروں پر ترجیح رکھتا ہے تو آپ نے جواب دیا کہ کُلی حیثیت سے تو کوئی علم دیگر علوم پر ترجیح نہیں رکھتا لیکن استعفادہ کے مواقع ایک دوسرے میں امتیاز پیدا کرتے ہیں۔ یہ لمحۂ فکریہ صرف علماء کرام، ذاکرین، مقررین، مبلغین، واعظین، متکلم، خطبا ٕ اور شعراء کرام کے لیے نہیں ہے بلکہ تمام مومنین و مومنات کو تدبر و تفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی عظمت و جلالت کا اعتراف کرنے کہ باوجود، اُن کے اُسوۂ حسنہ کو اپنانے، اور اُن کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش نہیں کرتے، اُن کے لیے یہ بات خصوصی و لازمی طور پر لمحۂ فکریہ ہے کہ عظمت و جلالت کا زبانی اعتراف تو آپؑ کے دشمنوں بلکہ یوں لکھا جائے کہ آپؑ کے قاتلوں نے بھی کیا ہے۔ لیکن کیا کسی عظیم المرتبت امام کی بزرگی کا اعتراف ہی چاہنے والوں کی نجات کے لیے کافی ہوسکتا ہے۔ کیا خالق کائنات نے ہادیانٍ برحق کو ان کمالات سے صرف اسی لیے نوازا تھا کہ اُن کی محبت کا دعویٰ کرنے والے، انسان کمالات کا صرف اعتراف کرلیں؟حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ آپؑ کو امام برحق اور ہادی خلق ماننے کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ کی ہدایات پر مکمل عمل کیا جائے۔ آپؑ کے اُسوۂ حسنہ کو اپنی عملی زندگی میں اپنایا جائے اور واجبات و محرمات کے سلسلے میں آپؑ کی واضح تعلیمات کو پیش نظر رکھا جانا فریضہ اور باعث نجات ہیں۔ کیا یہ حدیث ذہن نشین نہیں ہے کہ آپؑ 'کشتیٔ نجات' اور 'چراغ ہدایت' ہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .