بدھ 16 اپریل 2025 - 09:00
ایک پدرانہ قائد کی روزمرہ زندگی/حجۃ الاسلام والمسلمین مہدی مہدوی پور کی سیرت و خدمات

حوزہ/گزشتہ پندرہ برسوں پر محیط حجت الاسلام والمسلمین مہدی مہدوی پور کی خدمات کا سفر صرف تقرریوں، ملاقاتوں یا نمائندگی تک محدود نہیں رہا، بلکہ انہوں نے ہندوستان جیسے عظیم، متنوع اور فکری طور پر زرخیز ملک میں اسلامی اقدار، اخوت و وحدت، نوجوانوں کی تربیت اور علم و معنویت کا چراغ روشن رکھا۔

تحریر: جواد حبیب (مسئول دفترِ نمائندگی ولی فقیہ در ہند)

حوزہ نیوز ایجنسی|

تمہید:

"وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ"

اور ہم نے ان کو امام بنایا کہ وہ ہمارے حکم سے ہدایت کریں، کیونکہ انہوں نے صبر کیا اور ہماری آیات پر یقین رکھتے تھے۔"

تاریخ انسانی میں کچھ شخصیات ایسی نمودار ہوتی ہیں جو اپنی خاموشی میں خطابت، سادگی میں عظمت، اور خدمت میں قیادت کا ایسا نقش چھوڑ جاتی ہیں جو صرف کتب خانوں تک محدود نہیں رہتا، بلکہ دلوں کی گہرائیوں میں جاگزیں ہو جاتا ہے۔حضرت حجت الاسلام والمسلمین حاج آقائے مہدی مہدوی پور دامت برکاتہ (نمایندہ محترم ولی فقیہ در ھند) ایسی ہی ایک شخصیت ہیں، جن کا وجود نہ صرف ایک ادارے کا سربراہ ہے بلکہ ایک مربی، ایک معلم، ایک مصلح، اور ایک روحانی والد کی حیثیت رکھتا ہے۔

گزشتہ پندرہ برسوں پر محیط ان کی خدمات کا سفر صرف تقرریوں، ملاقاتوں یا نمائندگی تک محدود نہیں رہا، بلکہ انہوں نے ہندوستان جیسے عظیم، متنوع اور فکری طور پر زرخیز ملک میں اسلامی اقدار، اخوت و وحدت، نوجوانوں کی تربیت، اور علم و معنویت کا چراغ روشن رکھا۔

ایک پدرانہ قائد کی روزمرہ زندگی/حجۃ الاسلام والمسلمین مہدی مہدوی پور کی سیرت و خدمات

دفتر نہیں، یہ تو تربیت گاہ ہے!

آقائے مہدی مہدوی پور کا دفتر دراصل ایک تربیت گاہ ہے، جہاں آنے والا ہر فرد، خواہ وہ ملازم ہو یا مہمان، طالب علم ہو یا عالم، کچھ سیکھے بغیر واپس نہیں جاتا۔ یہ تربیت گاہ نرمی، نظم، توجہ، ادب اور روحانیت سے لبریز ایک ایسا ماحول رکھتی ہے جہاں ہر چیز میں توازن اور برکت نظر آتی ہے۔ان کے نزدیک کوئی بھی کام "معمولی" نہیں۔ ہر لمحہ ایک فرصت ہے اور ہر عمل ایک عبادت۔ دفتر کے اندر کا نظم، فائلوں کی ترتیب، ملاقاتوں کی فہرست، سب کچھ ایک روحانی اور تعلیمی ذوق کے ساتھ چلتا ہے۔ جو کام ہمیں باہر دفتری فضا میں "رسمی" محسوس ہوتے ہیں، وہ یہاں "ذمہ داری" اور "اخلاقی فریضہ" بن جاتے ہیں۔

پدرانہ سایہ:

ان کے سلوک میں وہ شفقت ہے جو ایک مہربان والد اپنے بچوں سے کرتا ہے۔ ملازمین کی بیماری پر دعا گو ہونا، ان کے خاندانوں کی مشکلات میں ذاتی دلچسپی لینا، غمگین دلوں کو تسلی دینا اور محتاجوں کی خاموشی سے مدد کرنا — یہ سب اس شخصیت کا روزمرہ معمول ہے۔میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کئی مرتبہ کسی جوان ملازم کی تعلیمی پریشانی یا کسی خاتون اسٹاف کے گھریلو مسئلہ پر آقا نے ایسی رہنمائی کی جیسے کوئی گھر کا بزرگ کرتا ہے۔ ان کے لیے ہر انسان "کام کرنے والا ہاتھ" نہیں بلکہ "قلب رکھنے والا انسان" ہے، اور یہی ان کی قیادت کو روح عطا کرتا ہے۔

ایک پدرانہ قائد کی روزمرہ زندگی/حجۃ الاسلام والمسلمین مہدی مہدوی پور کی سیرت و خدمات

سادگی اور خودداری :

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے":کونوا دعاةً لِلنّاسِ بِغَیْرِ أَلْسِنَتِکُم" یعنی "لوگوں کو اپنے عمل سے دین کی طرف بلاؤ، صرف زبان سے نہیں۔"

ظاہری سادگی اور باطنی عظمت کا حسین امتزاج اگر کسی میں دیکھا ہو تو وہ آقائے مہدوی پور کی ذات ہے۔ وہ نہ پروٹوکول کے قائل ہیں، نہ نمود و نمائش کے شوقین، اور نہ ہی آرام طلب۔ ہمیشہ سادہ لباس میں، خوش مزاجی سے لبریز، اور دعوتِ فکر و عمل دیتے نظر آتے ہیں۔ مہمان کا استقبال خود کرنا، چائے اور پانی کا اہتمام خود کرنا، سب ان کی عادت کا حصہ ہے۔ یہ عمل محض تواضع نہیں، بلکہ ایک درسی عمل ہے — ایک عملی درس جو ہمیں سکھاتا ہے کہ قیادت کا مفہوم "خدمت" سے جُدا نہیں۔

نوجوانوں کی تربیت:

ان پندرہ برسوں کا اگر کوئی سب سے درخشاں پہلو ہو تو وہ نوجوانوں کی تربیت ہے۔ انہوں نے بارہا فرمایا کہ "نوجوان قوم کا سرمایہ ہیں، اگر ان کی تربیت درست ہو جائ قرآن فرماتا ہے:"إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنَاهُمْ هُدًى"

"وہ کچھ جوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے ان کی ہدایت میں اضافہ فرمایا۔"ے تو قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے۔"

وہ ہمیشہ جوانوں کے لیے وقت نکالتے، ان کے سوالات سنتے، فکری نشستیں منعقد کرتے اور انہیں علم و عمل، تہذیب و تربیت اور دیانت و بصیرت کے ساتھ آگے بڑھنے کی تلقین کرتے۔انہوں نے ہندوستان کے مختلف شہروں میں نوجوانوں کے لیے اسلامی و اخلاقی تربیتی کیمپس، وحدت کانفرنسز اور مطالعاتی ورکشاپس کا اہتمام کیا۔ ان کی شخصیت نوجوانوں کے لیے نہ صرف ایک استاد کی، بلکہ ایک رفیقِ سفر، ایک آئیڈیل، اور ایک مربی کی تھی۔

ایک پدرانہ قائد کی روزمرہ زندگی/حجۃ الاسلام والمسلمین مہدی مہدوی پور کی سیرت و خدمات

مشورہ، مروت، اور علمی قیادت:

وہ کبھی کسی فیصلے کو مسلط نہیں کرتے۔ چھوٹے بڑے ہر مسئلہ میں مشورہ لینا، رفقاء کی رائے کو اہمیت دینا اور اختلافِ رائے کو خندہ پیشانی سے قبول کرنا ان کی قیادت کا خاص وصف ہے۔

ایک طرف ان کا علمی ذوق، مطالعہ کی گہرائی، اور فقہی بصیرت ہے، تو دوسری طرف مزاج میں انکساری، گفتگو میں نرمی، اور دل میں وسعت ہے۔ یہی وہ توازن ہے جو ان کی شخصیت کو عوام و خواص، سب کے لیے قابلِ قبول اور قابلِ تقلید بناتا ہے۔

مدبر اور بصیر منتظم:

آپ ایک باخبر، دقیق اور اپنے ماتحت افراد کے امور پر مکمل نظر رکھنے والے مدبر منتظم تھے۔ مختلف سرزمینوں اور ادیان میں تبلیغی، ثقافتی، تحقیقی اور مذہبی سرگرمیوں کے حساس تقاضوں کو بخوبی جانتے تھے اور ہمیشہ راہِ اعتدال اور سادگی کو دکھاتے تھے۔ ان کا انداز نہ جبر پر مبنی ہوتا تھا، نہ تحکم پر، بلکہ حکمت، بصیرت اور مہربانی کے ساتھ رہنمائی کرتے تھے۔

ماہر مربی اور کادرساز:

افراد کی تربیت اور شخصیت سازی میں انہیں خاص مہارت حاصل تھی۔ چھوٹی موٹی لغزشوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے وہ افراد کو نشوونما اور خودسازی کا موقع دیتے، تاکہ وہ خود اپنی اصلاح کے لیے بیدار ہوں۔ آج کئی نمایاں اور کامیاب چہرے انہی کی تربیتی روش اور دلسوزی کا نتیجہ ہیں، جو اس سرزمین میں ان کا قیمتی ورثہ سمجھے جاتے ہیں۔

ایک پدرانہ قائد کی روزمرہ زندگی/حجۃ الاسلام والمسلمین مہدی مہدوی پور کی سیرت و خدمات

سخاوت کا پیکر:

آپ کا کریمانہ برتاؤ اور فیاضی مشہور تھی۔ کوئی بھی شخص آپ کے گھر یا دفتر سے خالی ہاتھ واپس نہ جاتا۔ ان کی کرامت اور سخاوت نے بے شمار دلوں کو اپنی جانب مائل کر رکھا تھا۔

صبر و حلم کا نمونہ:

سالہا سال کی خدمات کے دوران ان کے چہرے پر کبھی غصے یا تندی کا سایہ تک نہ دیکھا گیا۔ ہمیشہ مسکراہٹ اور اطمینان کے ساتھ دوسروں سے گفتگو کرتے۔ ان کا متبسم اور نورانی چہرہ دلوں کو سکون بخشتا، اور وہ سخت سے سخت مسئلے کو بھی نرمی اور خوش اخلاقی سے حل کر لیتے تھے۔

استقامت:

عمر رسیدہ ہونے کے باوجود ان کے اندر کبھی تھکن یا سستی کے آثار نہ دکھائی دیے۔ لمبے سفر، متعدد پروگرام، اور ہندوستان و دیگر ممالک کے سخت موسمی حالات میں بھی وہ پوری استقامت اور نشاط کے ساتھ حاضر ہوتے، اور ان کی عملی ثابت قدمی دوسروں کے لیے بھی حوصلے اور قوت کا سبب بنتی۔

پندرہ سالہ خدمات:

آقائے مہدوی پور کی پندرہ سالہ نمائندگی ہندوستان میں صرف ایک سفارتی تقرری نہیں تھی بلکہ وہ ایک فکری، علمی اور روحانی مشن کے نقیب تھے۔ انہوں نے نہ صرف شیعہ و سنی علماء کے درمیان وحدت و محبت کی فضا قائم کی بلکہ مختلف مسالک و مکاتب فکر کے درمیان بھی مکالمے، محبت اور ہم آہنگی کا راستہ ہموار کیا۔

ان کا علماء و دانشوروں سے تعلق، محض رسمی ملاقاتوں پر مبنی نہیں بلکہ ایک فکری و روحانی رشتہ ہے۔ وہ ہمیشہ علمی مجالس میں شرکت کرتے، اہلِ علم کی بات غور سے سنتے، اور علمی مسائل پر تبادلہ خیال کرتے۔ ہندوستان کے کئی جامعات، مدارس اور علمی حلقے ان کی فکری رہنمائی سے استفادہ کر چکے ہیں۔

ولایت فقیہ اور انقلاب اسلامی:

اسلامی تاریخ میں قیادت ہمیشہ ایک اہم موضوع رہی ہے۔ اسلام نے قیادت کو صرف طاقت یا حکومت کا نام نہیں دیا بلکہ اسے فکری، اخلاقی اور دینی رہنمائی کا ذریعہ سمجھا ہے۔ انقلاب اسلامی ایران نے اس قیادت کو "ولایت فقیہ" کے نام سے دنیا کے سامنے پیش کیا، جس میں ایک عادل، باشعور اور دور اندیش عالم دین، یعنی فقیہ، قوم کی رہنمائی کرتا ہے۔

آقائے مہدی مہدوی پور نے اس نظام کو ہندوستان جیسے متنوع، جمہوری اور سیکولر ملک میں بڑی حکمت اور فہم کے ساتھ متعارف کرایا۔ ان کا انداز نہ تو جذباتی تھا اور نہ ہی سیاسی نعرے بازی پر مبنی، بلکہ علمی اور اخلاقی تھا۔

ان کے نزدیک انقلاب اسلامی ایران محض حکومت کی تبدیلی کا نام نہیں، بلکہ ایک ہمہ گیر فکری، تمدنی اور روحانی بیداری تھی۔ انہوں نے اس انقلاب کے پیغام کو ہندوستانی سماج میں تین اہم پہلوؤں کے ذریعے متعارف کرایا: اول، وحدت اسلامی کو فروغ دے کر شیعہ، سنی اور دیگر مکاتبِ فکر کے درمیان مکالمہ، تعاون اور اخوت کی فضا قائم کی؛ دوم، نوجوانوں کی تربیت کو مرکزی حیثیت دیتے ہوئے تربیتی ورکشاپس، تعلیمی و اخلاقی کیمپس اور فکری نشستوں کے ذریعے انہیں دین، وقت اور سماج کی بہتر سمجھ دی؛ اور سوم، اسلامی تمدن کا ایسا تعارف پیش کیا جو مغربی مادی نظام کے برعکس علم، عدل، اخلاق اور معنویت جیسے قرآنی اصولوں پر استوار ہے، تاکہ ایک متبادل فکری و اخلاقی ماڈل دنیا کے سامنے رکھا جا سکے۔

بین المذاہب ہم آہنگی اور باہمی تعاون:

کثیرالمذاہب اور متنوع ثقافتوں پر مشتمل ہندوستانی سماج میں بین المذاہب مکالمہ اور ہم آہنگی کی ضرورت نہ صرف دینی بلکہ قومی و سماجی تقاضا بھی ہے۔ حضرت حجۃ الاسلام والمسلمین آقائے مہدی مہدوی پور دام عزہ نے اس تناظر میں ایک دینی سفیر، اخلاقی راہنما اور تمدنی پل کا کردار ادا کیا۔ آپ نے اسلامی انقلاب کی انسان دوست تعلیمات کو صرف مسلمانوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ انہیں بین المذاہب ملاقاتوں، ہم آہنگی پر مبنی مکالمات، اور عملی اشتراک کے ذریعے پورے ہندوستانی سماج تک پہنچایا۔ آقائے مہدوی پور کی بین المذاہب سرگرمیوں کی بنیاد دو اہم ستونوں پر قائم ہے: پہلا، قرآن مجید کی وہ آفاقی دعوت جو مکالمے، اخلاص اور مشترکہ انسانی اقدار کی بنیاد پر بین المذاہب تعلقات کو فروغ دیتی ہے، جیسا کہ سورہ آل عمران کی آیت 64 میں آیا ہے: "تعالوا الیٰ کلمۃٍ سواءٍ بیننا و بینکم"؛ دوسرا، امام خمینیؒ اور رہبر معظم انقلاب اسلامی کی وہ سیرت، جس میں دنیا کے مظلوموں سے ہمدردی اور عالمی انسانی اتحاد پر زور دیا گیا۔ آقائے مہدوی پور نے دہلی، لکھنؤ، پٹنہ، بنگلور، کولکاتا جیسے شہروں میں ہندو، سکھ، عیسائی، جین و بدھ مت کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں مذہبی رواداری، سماجی تعاون، اور اخلاقی قدروں کو مرکزِ گفتگو بنایا گیا۔ انہوں نے "امن، عدل، خاندانی نظام، اور ماحولیاتی تحفظ" جیسے موضوعات پر مشترکہ کانفرنسوں کا انعقاد کیا، جن میں مختلف مذاہب کے دانشوروں نے فعال شرکت کی۔ سب سے نمایاں بات یہ رہی کہ آقائے مہدوی پور نے امام حسینؑ کی عظیم قربانی کو صرف شیعی عقیدے کا مظہر نہیں بلکہ ایک عالمی انسانی پیغام کے طور پر متعارف کرایا، جسے ہر مذہب کے پیروکار نے قدر و احترام سے سراہا۔ اس طرح، انہوں نے امام حسینؑ کی سیرت کو "مشترکہ الہامی سرمایہ" کے طور پر پیش کر کے بین المذاہب ہم آہنگی کی نئی راہیں کھولیں۔ آقائے مہدوی پور کا یہ کارنامہ، ہندوستانی سماج میں محبت، امن، اور باہمی تعاون کے لیے ایک روشن مثال ہے۔

تقویت روابط جمہوری اسلامی ایران و ملک ہند:

رابطۂ بین ایران اور ہندوستان ہمیشہ ثقافتی، تمدنی اور دینی تعلقات کی گہری بنیادوں پر استوار رہا ہے۔ یہ دونوں عظیم ایشیائی تہذیبیں جو کئی ہزار سال پرانی تاریخ رکھتی ہیں، صدیوں سے فارسی زبان، اسلامی تصوف اور علمی و فکری تبادلوں کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ بھرپور اور مؤثر تعلقات رکھتی آئی ہیں۔ اس میں وہ شخصیات اہمیت رکھتی ہیں جنہوں نے تمدنی، پدرانہ اور فکرمندانہ نگاہ سے دونوں اقوام کے تعلقات کو مزید مستحکم کیا۔

اس سلسلے میں ایک نمایاں شخصیت حجت‌الاسلام والمسلمین حاج آقا مهدی مهدوی‌پور کی ہے جو کئی سالوں تک ہندوستان میں مقام معظم رهبری کے نمائندے کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ آپ نہ صرف ایک دینی شخصیت ہیں بلکہ ایک ثقافتی، سماجی اور عوامی شخصیت بھی ہیں جنہوں نے مختلف پہلوؤں میں ایران اور ہندوستان کے تعلقات کو مستحکم اور گہرا بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ آپ کو ایران اور ہندوستان کے معاصر تعلقات کی تاریخ میں ایک انتہائی مؤثر دینی اور ثقافتی شخصیت کے طور پر شمار کیا جا سکتا ہے۔

حجت‌الاسلام والمسلمین مهدوی‌پور نے ایک جامع، تمدنی اور انسان دوست نقطہ نظر سے روحانیت کی ذمہ داری کو ثقافتی اور سماجی مشن کے ساتھ جوڑ کر ایران اور ہندوستان کے عظیم عوام کے درمیان ایک مضبوط، گہرا اور دیرپا تعلق قائم کیا۔

لداخ کا سفر اور اس کے اثرات:

ہندوستان کا شمالی خطہ لداخ اپنے قدرتی حسن، ثقافتی تنوع اور مذہبی ہم آہنگی کی قدیم روایت کی وجہ سے ایک ممتاز مقام رکھتا ہے۔ اس خطے میں بدھ، شیعہ، سنی، ہندو، سکھ اور عیسائی برادریاں باہم بھائی چارے کے ساتھ رہتی ہیں۔ ایسے میں جب حضرت حجۃ الاسلام والمسلمین آقائے مہدی مہدوی پور دام عزہ، ولی فقیہ کے نمائندہ کی حیثیت سے لداخ تشریف لے گئے، تو یہ دورہ صرف ایک مذہبی نمائندے کا سفر نہیں بلکہ ایک تہذیبی اور فکری پیغام کا حامل تھا، جس نے تمام مذاہب کے ماننے والوں کے دلوں کو چھو لیا۔

اس سفر کی اہمیت اس وقت دوچند ہو گئی جب یو ٹی لداخ کی حکومت، مقامی انتظامیہ، اور عوامی نمائندوں نے آقائے مہدی مہدوی پور کو باضابطہ طور پر "مہمانِ خصوصی" کے طور پر مدعو کیا۔ یہ دعوت اس بات کا ثبوت تھی کہ آپ کی خدمات کو نہ صرف مذہبی حلقوں میں بلکہ حکومتی و سماجی سطح پر بھی قدر و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ مختلف سرکاری اور عوامی اجتماعات میں آپ کا شایانِ شان استقبال کیا گیا، اور مقامی قائدین نے آپ کی علمی، اخلاقی اور بین المذاہب خدمات کو سراہا۔

آقائے مہدوی پور نے اپنے اس تاریخی دورے میں لداخ کی مختلف دینی، سماجی اور ثقافتی شخصیات سے ملاقات کی، جن میں شیعہ و سنی علما، بدھ دھرم کے راہب، ہندو پنڈت، عیسائی پادری اور سماجی رہنما شامل تھے۔ ان ملاقاتوں میں مذہبی رواداری، انسانی ہمدردی، اور فکری ہم آہنگی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ انہوں نے قرآنی آیات اور امام خمینیؒ و رہبر انقلاب کے اقوال کی روشنی میں واضح کیا کہ اسلام ہمیں تمام مذاہب کے ساتھ پرامن اور باعزت تعلقات قائم کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔

لداخ کی مختلف مساجد، امام بارگاہوں، تعلیمی اداروں اور نوجوانوں کی محافل سے خطاب کرتے ہوئے آقائے مہدی مہدوی پور نے اسلام کی تعلیمات کو ایک زندہ، رحمانی اور تمدنی پیغام کے طور پر پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کو صرف مذہبی جذبات نہیں بلکہ علم، بصیرت اور خدمت کے میدان میں بھی قیادت کرنی چاہیے، اور یہی انقلاب اسلامی کا حقیقی پیغام ہے۔

یہ دورۂ لداخ ایک فکری، روحانی اور بین المذاہب ہم آہنگی کا نمونہ تھا۔ ان کی دعوت کو حکومتِ لداخ اور عوامی نمائندوں نے بطور مہمانِ خصوصی تسلیم کیا، جو ان کی ہندوستان میں گہرے اثر و رسوخ اور عزت کی علامت ہے۔ ان کا طرزِ گفتگو، سادہ زیستی، علم دوستی اور سب کے لیے خیر خواہی کا جذبہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک حقیقی دینی رہنما زمانے کی ضرورت کو پہچانتے ہوئے معاشروں کو قریب لا سکتا ہے۔ ان کا لداخ کا سفر آج کے ہندوستان میں مذہبی اخوت، سماجی انصاف اور ثقافتی ہم آہنگی کے لیے ایک مثال اور رہنما راستہ ہے۔

نتیجہ:

حجۃ الاسلام والمسلمین آقائے مہدی مہدوی پور دامت برکاتہ کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے علم، اخلاق اور اخلاص کو ایک ساتھ جمع کر کے ایک زندہ و موثر قیادت کا نمونہ پیش کیا۔ وہ ایک فرد نہیں، ایک مکتب ہیں؛ ایک خاموش انقلابی جنہوں نے دلوں کو جوڑا، نسلوں کو سنوارا، اور ایک ایسا ماحول پیدا کیا جس میں علم، ادب، محبت، ایمان، اور خدمت سب اکٹھے سانس لیتے ہیں۔

میں، ایک ادنیٰ خادم کی حیثیت سے، ان کی صحبت میں گزارے گئے ہر لمحے کو اپنی زندگی کا سرمایہ سمجھتا ہوں۔ ان سے جو کچھ سیکھا، وہ صرف علم نہیں بلکہ "اندازِ زیست" ہے — وہ زندگی گزارنے کا ہنر جو دوسروں کو سنوار دے، اور اپنے نفس کو بھی صیقل کر دے۔

اللّهُمَّ أَطِلْ فِي عُمُرِهِ، وَ بَارِكْ فِي عَمَلِهِ، وَ اجْعَلْنَا مِنَ السَّائِرِينَ عَلَى نَهْجِهِ، وَ الْمُسْتَفِيدِينَ مِنْ نُورِهِ.

"اے خدا! ان کی عمر میں برکت عطا فرما، ان کے عمل کو قبول فرما، اور ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔"

دعا گو ہوں کہ خداوندِ متعال آقائے مہدی مہدوی پور کی عمر دراز فرمائے، ان کی خدمات کو قبولیت بخشے، اور ہمیں اُن کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha

تبصرے

  • Nehmatullha IN 09:52 - 2025/04/16
    Shai