۱۳ خرداد ۱۴۰۳ |۲۵ ذیقعدهٔ ۱۴۴۵ | Jun 2, 2024
ڈاکٹر شجاعت حسین

حوزہ/ 7 اکتوبر 2023ء کو طوفان الاقصٰی کا آغاز ہوا۔ اس مقاومت پر مختلف عالمی زبانوں میں لا تعداد مضامین، تبصرے، کتابچے اور کتابیں منظر عام پر آئیں۔ غزہ کی تباہی و بربادی دیکھی جا رہی ہے۔ غیر انسانی سوز ظلم، ستم و بربریت کا مشاہدین ہیں، لیکن خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔

تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین

حوزہ نیوز ایجنسی| 7 اکتوبر 2023ء کو طوفان الاقصٰی کا آغاز ہوا۔ اس مقاومت پر مختلف عالمی زبانوں میں لا تعداد مضامین، تبصرے، کتابچے اور کتابیں منظر عام پر آئیں۔ غزہ کی تباہی و بربادی دیکھی جا رہی ہے۔ غیر انسانی سوز ظلم، ستم و بربریت کا مشاہدین ہیں، لیکن خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ اسکول، کالجز، یونیورسٹیز، مساجد، چرچیز، اسپتالوں، بچے، بوڑھے، مریضوں، عام انسانوں اور صحافیوں پر بمباری، پانی، خوراک و دوائیوں پر محاصرے کے خلاف پوری دنیا خصوصی طور پر امریکی و یوروپین یونیورسٹیز میں طلباء، طالبات و پروفیسرز مظاہرہ کر رہے ہیں۔

حکومت کی جانب سے ہزاروں طلباء و طالبات اور سینکڑوں پروفیسروں کی گرفتاری بحث و مباحثہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ محبت، امن، ہمدردی، بھائی چارہ و ترقی سے وفا کرنے والے اب سمجھ چکے ہیں اور خط کھینچ دیئے گئے ہیں اور پہچان کیا جا چکا ہے کہ اسلحہ و موت کا سوداگر کون ہے؟ امن و انسان کا محافظ کون ہے؟ دہشت گرد، ان کی تربیت، فنڈنگ اور اپنے مفادات کی خاطر دہشت گردوں کو کون استعمال کرنے والا ہے؟

ہندوستان، برصغیر، یورپ، امریکہ، افریقہ، قدیمی، جدیدی اور اسلامی تواریخ میں خواتین کے کردار کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر میدان میں خواتین حضرات کا قابلِ تعریف تعاون رہا ہے جسے فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے، لیکن جہاں تک بندگی، ایثار، فداکاری، صبر و پائیداری کا سوال ہے تو خواتینٍ غزہ کا مقابلہ و موازنہ کرنا ناممکن ہے۔ شیر خدا حضرت علیؑ ابن ابی طالب علیہ السلام و ثانئ زہراؑ کی بیٹیاں، رسول اکرمؐ کی نواسیاں اور شریکتہ الحسینؑ کی ہمشیرہ زینبؑ و اُمّ کلثومؑ کی خصوصیات و کردار کے مطالعہ کر اور اسے اپنا کر عالمی مرکز کی محور قرار پائیں اور شہرہ آفاق پر نظر آئیں۔

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آغاز طوفان الاقصٰی کو 221 دن گزر گئے، اب خواتین غزہ پر گزرے بے شمار مصائب و آلام کے گوشوں کو بھی اجمالی طور پر تحریر کر دی جائے۔ ان کے کردار کو بلند اقدار کے آئینے میں دیکھیں۔ دنیا کی خواتین واقعی میں ان مثالی خواتین سے الہام حاصل کر کے رشد و کمال کے راستہ پر گامزن ہوں۔

معبود حقیقی اور خداوند عالم کی عبادت و بندگی بشر کی عظیم فطری ضرورت کو پورا کرتا ہے اور آدمی کا رشد و کمال بندگی کارہین منت ہے۔ اسی بندگی کے ذریعہ انسان کمال حاصل کرتا ہے اور فرشتوں پر سبقت حاصل کرتا ہے۔

بندگی یعنی پورے وجود کے ساتھ اپنے مولٰی و معبود کی بارگاہ میں حاضر ہونا۔ اللہ پاک پر توکل کرنا۔ اس کے حکم کو بجالانا، ہر کام اس کی رضا کے مطابق انجام دینا، اس کی رضا کے علاوہ کچھ نہ غور کرنا۔ یہی ہے اصل اخلاص و بندگی کا معنیٰ، انسان کی بندگی اس کی خدا کی معرفت و شناخت کے مطابق ہوتی ہے۔ یہ قابل فکر ہے کہ جو عظمت خالق کو سمجھ جاتے ہیں وہ خود کو زیادہ خدا کا نیاز مند سمجھتے ہیں اور معبود کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ زمانہ نے مشاہدہ کیا کہ تقریباً آٹھ مہینے گزرے جس میں رمضان المبارک بھی شامل ہے لیکن اس ماہ میں خواتینٍ غزہ کو کیا سحری، کیا افطار، کیا آب و طعام میسر ہوا؟ تمام دنیا کہ مرد و خواتین نے غزہ کی عورتوں کی ایمان، معرفت و بندگی مظہر کردار زینبؑ و اُمّ کلثوم دیکھا۔ غزہ کی خواتین نے آپ علیہم السلام کی کردار سے تربیت یافتہ دکھائی دیتی ہیں۔ چنانچہ تمام عالم بشریت نے مشاہدہ کیا کہ ان کی حیاتیات کے ہر گوشہ میں عظمت بندگی نمایاں ہے۔ آپ نے انھیں زندگی کے دشوار ترین مراحل میں بھی خدا سے لو لگائے، نماز پڑھتے، روزہ رکھتے، صبر و شکر کرتے دیکھا۔ زندگی کے نشیب و فراز میں بھی انھیں بندگی و عبادت خدا سے غافل نہ دیکھا، بلکہ دشواریوں میں ان کی بندگی کا جلوہ اور زیادہ آشکارہ ہوا۔ غزہ کی خواتین قرآن خوانی میں مشغول رہتیں اور بچے و بچیوں کو حفظ قرآن کریم کراتیں، تسبیحات و مناجات میں مصروف رہتیں اور بارگاہ میں استغاثہ کرتیں۔

غزہ کی خواتین کی شجاعت، قوت قلب اور سکون قلب کا سر چشمہ خدا سے ربط اور اس پر مکمل بھروسہ ہے۔ تمام مصائب و مشکلوں کے باوجود عبادی مراسم سے غافل نہ ہوئیں۔ اس مسموم، پُر آشوب، دردناک و ہولناک فضا میں عفت کی پاسداری ہر جگہ اپنے فرائض کی انجام دہی ان خواتین کے جلوے ہیں۔

خواتین غزہ کی اہم خصوصیات میں سے علم درایت، آگہی کی گہرائی، ان لوگوں کے حرکت و عمل، صبر و تحمل سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس خصوصیت پر بین الاقوامی سطح پر تعریفیں حاصل کی ہیں۔ اس کردار کی وجہ سے غیر مسلم عورتوں نے دامن اسلام میں داخل ہوئیں یعنی اسلام قبول کر رہی ہیں۔ عرب کی عورتوں کے لئے قابل عظمت، فخر و نمونہ عمل ہیں۔

7؍ اکتوبر 2023 سے نہ گفتہ بہ حالات میں غزہ کی خواتین کی ایک اور خصوصیت قابل ذکر ہے کہ جہاں سکوت کرنا چاہئے وہاں سکوت و خاموشی اختیار کی، جہاں فریاد کرنا چاہئے وہاں فریاد کر رہی ہیں اور جہاں جانفشانی کرنی چاہئے وہاں جانفشانی کا مظاہرہ پیش کر رہی ہیں۔ ظلم و ستم کا سامنا کرنے، جرآت، ہمت و تدبیر حیرت انگیز ہے۔ اگر چہ عورتیں نرم دل اور جذباتی ہوتی ہیں لیکن یہ احساسات و جذبات کسی وقت بھی ان لوگوں کی فکر پر غالب نہ ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ دل شگاف کر دینے والے موقعوں پر بھی عاقلانہ کام کر رہی ہیں جس سے غاصب صیہونی حکومت پشیماں ہے۔غزہ کی خواتین نے کربلا کی سیدانیوں کی عظمت، فضیلت و کمالات سے استفادہ حاصل کیا ہے، چونکہ آپؑ توحید کی پیرو ہیں، انہوں نے کربلا کی تحریک کو پڑھا، سنا اور اب حقیقی زندگی و حالات میں اپنایا یعنی عمل میں اتارا۔ خود کو، اپنے عزیزوں جیسے ماں، باپ، بیٹی، بیٹے، شوہر، بہن، بھائی گویا خاندان کے سبھی افراد کو کھویا۔ طوفان الاقصٰی یعنی عزت، آبرو، ظلم، ستم اور باطل قوتوں سے ٹکرا گئیں۔ راہ آزادی کے لئے سب کچھ قربان کر دیا۔ مثالی خواتین بن گئیں۔ تاریخ رقم کردی۔ شہرہ آفاق پر نظر آ رہی ہیں۔

اگر قارئین کرام غزہ کی خواتین کی زندگی و حالات کا مشاہدہ کریں تو دیکھیں گے کہ ان میں غضب کا استقامت و استقلال ہے۔ تمام مصائب کو تحمل کر رہی ہیں۔ انھیں کربلا کی تحریک میں سیدانیوں کی انمول قربانی کے مطالعہ سے معلوم ہوا، مشکلوں میں خود کو بھول گئیں۔ مشکلوں کو خندہ پیشانی سے قبول کر رہی ہیں اور ان کے مقابلہ میں ثابت قدمی و مقاومت سے کام لے رہی ہیں۔

حقیقی صبر و صابرہ کو تلاش کرنا ہے تو سر زمین غزہ کی خواتین میں زیر آسمان، شب کی تاریکی، دن میں دھوپ کی شدت، بھوک و پیاس، بم و بارود کے ڈھیر اور قتل و غارتگری، لاشوں کے انبار میں تلاش کریں۔ جہاں ایمان ہوتا ہے، اصلی صبر و صابرہ سچی مومنہ وہیں ہوتی ہے۔ ایمان و صبر کے درمیان اتنا محکم رشتہ ہے کہ روایات میں ان دونوں کو سر و بدن سے تشبیہ دی گئی ہے۔ مومنہ ہو یا کہ مومن، ایمان کی حیات اور اس کا رشد و کمال اس کے صبر کارہین منت ہے اور جس مومنہ میں صبر نہیں اس کا ایمان جنبش میں رہتا ہے۔

جب بات صبر پر ہو رہی ہے تو یہ بھی تحریر کر دیا جائے کہ مصائب کو برداشت کرنے پر خداوند عالم اپنے بندوں کو بلند درجات و منزلیں عطا کرتا ہے۔ راقم الحروف آج خواتین عالم، مسلم ممالک، مسلم معاشرے اور خصوصی طور پر عرب ممالک کی خواتین کو صدائیں دی جا رہی ہیں کہ وہ اپنے محلوں میں خاموش آرائش کی زندگی گزار رہی ہیں لیکن جان لیں کہ مصیبتوں کو برداشت کرنے پر خداوند عالم اپنے بندوں کو بلند درجات و منزلیں عطا فرماتا ہے۔ آپ لوگوں کی موجودہ خاموشی مستقبل کی ذلت اور گلے کا طوق بن جائے گا۔

مصائب خدا کا عطیہ و تحفہ ہیں۔ زندگی میں پیش آنے والی مصیبتوں اور مشکلوں کا اجر و ثواب عظیم ہے۔ مصیبتوں کے دو رخ ہوتے ہیں۔ ظاہری و باطنی۔ ظاہری بُرا و ناگوار ہوتا ہے دوسرا حقیقی۔ یہ بہت حسین ہوتا ہے۔ اسے خدا کا ہدیہ و تحفہ قرار دیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالٰی ہے کہ "اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔" قارئین کرام غزہ کی زمینی حالات دیکھیں غزہ کی خواتین مصیبت پڑنے پر کسی قسم کا گلہ کرتے نہیں دکھائی دے رہی ہیں بلکہ ایسا لگتا ہے کہ اس سے راضی ہیں! غزہ کی خواتین کی زندگی میں عہد طفولیت ہی سے مصیبتیں رہی ہیں کیونکہ صیہونی حکومت گذشتہ 75 سالوں سے غزہ کی زندگیوں کو تنگ کر رکھی ہے۔

خداوند عالم غزہ کی خواتین صبر و ایثار کرنے والوں پر جو کربلا کی سیدانیوں کو اپنی کتاب حیات و عمل کا عنوان قرار دیا ہے، ان پر رحم و کرم فرما۔ ان کے قدموں میں قوت و استقامت دے اور انہیں دنیاوی و اُخروی زندگی میں کامیابی و کامرانی عطاء فرما۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .