۳۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۲ ذیقعدهٔ ۱۴۴۵ | May 20, 2024
ڈاکٹر شجاعت حسین

حوزہ/ خطابت کی تاریخ قدیمی ہے، حضرت رسول اکرم (ص) کی ولادت باسعادت 570 عیسوی ہے، خطابت کا دور آپؐ سے قبل تھا، خطابت ادب کا ایک فن ہے اور یہ فنکارانہ نثر کی ایک قسم ہے۔

تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین

حوزہ نیوز ایجنسی | عوام، سامعین، حاضرین، مصلّی یا عزاداران کربلا سے ہم کلام ہونے کا نام خطابت ہے۔ اس فن کا نام جس کا مقصود و سطح عوام سے خطاب کرنا ہے، صرف خطاب ہی کرنا مقصد نہیں ہوتا بلکہ اُن کے دل و دماغ میں اپنی غایت و منشاء ڈالنا ہوتا ہے گویا قلب کو منور، زندگی کی راہوں کو ہموار، مستقبل کو روشن اور آخرت کی حصولیابی کے لئے معاون بنانا ہوتا ہے۔ خطابت میں ترغیب و ترتیب دونوں ہیں لیکن خطابت زبان، بیان اور علم و عمل کا اعجاز ہے۔ خطیب میں تخلیقی جوہر ہوتا ہے۔ جو کچھ وہ کہتے ہیں، جس انداز سے کہتے ہیں اور جس گہرائی و گیرائی سے بولتے ہیں، ایک جادو کی طرح دل و دماغ مبہوت و مسحور ہو جاتے ہیں۔ ان کے الفاظ و معانی وہی ہوتے ہیں جو زبان کا خزینہ اور لغت کا سفینہ ہوتے ہیں۔ خطیب کی ایک اہم خصوصیت و حسن یہی ہے کہ جب وہ بولتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ دماغوں سے اُٹھا کر اتار دیا ہے۔ سامعین و حاضرین کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا گمشدہ متاع مل رہی ہے اور وہ ان جواہر پاروں سے دامن بھر رہے ہیں جن کی تلاش ضرورت میں تھے گیا خوف و عشقٍ خدا اور مودت محمدؐ اور آل اطہار علیہم السلام دلوں کو سیراب و زرخیز کر رہے ہیں۔

زیر نظر مضمون کے لئے مجھ پر ایک عرصہ سے قارئین کرام کا دباؤ یا گزارش تھی کہ خطابت پر ایک ایسا مضمون رقم کریں جو طلباء و طالبات کے مطالعہ میں مفید ثابت ہو۔ چونکہ میں انگریزی زبان و ادب کا شاعر، صحافی، ناقد اور مصنف ہوں لہٰذا میرے قلم سے جو مضمون تحریر ہوگا وہ مشاہداتی، مطالعاتی، تحقیقاتی، تجرباتی اور معلوماتی ہوگا۔ اب چند سالوں سے اپنی مادری زبان، یعنی اردو زبان میں بھی بطور تحریک تحریر کر رہا ہوں اس کے مد نظر قارئین کرام خصوصاً طلباء و طالبات کی امید وابستہ ہے کہ اردو اور انگریزی کے حوالے جات سے خطابت پر جو تحریر ہوگی، وہ مضمون ان کے کیرئیر میں مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ آج کل لوگ منبر اورمائک کے ذریعہ مومنین اور حاضرین کے رو برو ہو کر شہرت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

خطابت کی تاریخ قدیمی ہے۔ حضرت رسول اکرم (ص) کی ولادت باسعادت 570 عیسوی ہے۔ خطابت کا دور آپؐ سے قبل تھا۔ خطابت ادب کا ایک فن ہے اور یہ فنکارانہ نثر کی ایک قسم ہے۔اولاً خطابت کی تعریف کی جائے۔ خطابت کی ایک انتہائی جامع اور مکمل تعریف یہ ہے کہ عوام کو متاثر کرنے کے لئے خطاب کرنے کا فن ہے جس میں بنیادی طور پر سننے والوں کے ساتھ جو کچھ کہا جاتا ہے اسے قائل کرنے اور ان کو منانے کے لئے زبانی طور پر بولنے پر مشتمل ہوتا ہے۔

خطابت ادب کا ایک فن ہے جو قدیم زمانے سے مشہور ہے اور اس سلسلے میں اس کی بہت سی تعریفیں ہیں لیکن ان میں سے ایک قدیم ترین اور سب سے پہلی مشہور زمانہ یونانی فلسفی، ارسطو کی تعریف تھی۔ جس نے خطابت کو ایسی طاقت سے تعبیر کیا جس میں ہر طرح کے معاملات میں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ راضی کرنا شامل ہے۔

خطابت ان فنکارانہ نثر کی ایک قسم ہے جو عربی ادب میں عام طور پر اور خاص طور سے اسلام سے پہلے 622 عیسوی کے ادب میں مشہور ہوئی کیونکہ خطابت اسلام سے پہلے عہد میں کئی معاملات کو نبھاتی تھی۔

جب اسلامی دور آیا تو یہ عہد تجدید عہد کا دور تھا جس نے زندگی کے تمام پہلوؤں اور تمام فنون کو متاثر کیا۔ اسلام کے ابتدائی زمانے میں خطابت کو تقویت ملی اور محمد مصطفٰی ﷺ نے خطابت کا ایک مکتب تشکیل دیا جس نے دنیا کو اسلام کا پیغام پہنچایا اور خطابت اپنے عروج پر پہنچی۔ طلباء و طالبات کو اس جملہ سے خطابت کے مقصد سے آشنائی ہو گئی اور مقصد سے آشنائی بھی لازمی ہے۔

خطابت کی حقیقت سے آشنائی۔ اسلامی خطابت کی ترقی میں کئی عوامل کا تعاون تھا۔ سب سے پہلے لوگوں کو خطابت کے ذریعہ اسلام کی دعوت دی گئی اور پھر لوگوں کو دین اسلام میں داخل ہونے کے بعد اس کے احکام کو واضح کرنا اور اس کے مکمل معنی اور تفصیلٍ قرآن اور حدیث کی روشنی میں بیان کرنا ضروری تھا۔ اسلام نے ایسے نئے تصورات پیدا کئے جن کا انسان کو پہلے سے کوئی تعارف نہیں تھا۔ لہٰذا اس زبان کی تجدید اسلامی نظام میں کیا جو مذہبی خطبات میں ظاہر ہوتا ہے۔

مذہبی خطبات سے ظاہر ہوتا کہ جہاں اسلام نے زبان کی تربیت کرکے ایسے انداز میں خطبہ سامنے لایا کہ لوگ بنسبت پہلے سے اس کی طرف زیادہ راغب ہوئے۔ اسلام نے خطابت کے مقاصد کو فروغ دیتے ہوئے متحد کیا اور مفید ثابت کیا۔ یہ ایک ایسے موضوع کے ارد گرد گھومتا ہے جس پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔

خطبہ دینے کا ایک دستور عمل قائم ہوا جس کے مطابق تمام علماء خطبہ دیتے وقت عمامہ باندھتے، ہاتھ میں عصا لیتے اور اونچی جگہ کھڑے ہو کر خطبہ دیتے۔

عربی ادب کے مورخین تقریباً متفقہ طور پر اس بات پر متفق ہیں کہ خطابت حضرت محمد مصطفٰی (ص) اور آپؐ کی اہلبیت علیہم السلام کے دوران اپنے عروج کمال کو پہنچا۔ خطاب خدا کی حمد و ثناء اور اس کے رسولؐ پر درود و سلام کے ساتھ آغاز ہوتے تھے اور قرآن مجید سے بہت ساری آیات نقل کی گئیں اور انہیں خطبے کے مناسب جگہوں پر رکھا گیا اور بہت سے واعظوں میں اشعار کا ایک حوالہ ملتا تھا یا اس کے فقرے اور معانی سے ایک اقتباس ہوتا تھا۔ 11 ہجری تک کا حبیب اللہ (ص) کا خطابت، اس کے بعد 40 ہجری تک کا سلونی سلونی قبل ان تفقدونی کے کہنے والے کا شاہکار خطبات کا تذکرہ اور شریکتہ الحسین، زینب الکبریٰؑ بنت حیدر کرارؑ کے خطبوں کی اہمیت و اثرات اور موجودہ دور کے خطبوں پر تجزیہ و نظریہ پر تبصرہ و جائزہ قارئین کرام کے پیش نظر ہوگا۔

علمی موضوع پر قلم سوچ سمجھ کر، رک رک کر، فکر، دانش و ادراک سے، ہوش و حواس، تدبیر و صلاحیت سے چلایا جاتا ہے۔ ضروری ہے کہ ضابطہ شناس اور نظام پسندی بھی برقرار رہے۔ ذاتی مطالعہ اور مشاہدات سے تحریر رواں و دواں ہے۔

اب اردو، مذہبی و سیاسی دنیا کے ادیبوں، انشاء پروازوں، خطیبوں، مقررین اور شاعروں کے خصائص زبان و بیان اور ان کی بلاغتوں کے لہجوں اور تیوروں کے بارے میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔

عام طور پر سامعین متفق نظر آتے ہیں کہ پہلے کے خطیبوں میں جوش کی جگہ سکون، خطیبانہ اثر انگیزی کی جگہ دل نشین متانت اور خروش و طنطنہ کی جگہ علمی وجاہت اور وقار پایا جاتا تھا۔

سامعین، مومنین، حاضرین اور مصلّی اور عزاداران کربلا یا عوام الناس کو خطیبوں اور مقررین کے سلسلے میں اپنی رائے قائم کرنے کے لئے ان کو مذکورہ خوبیوں، خصوصیات اور صلاحیتوں پر نظرثانی و جائزہ لینے کی ضرورت ہے جن میں بالخصوص قرآن و تفسیر، علم حدیث، اصول، فقہ، رجال، منطق و ادبیات عرب، آواز پر کمال، انداز بیان، دلکش انداز اظہار، تکنیک، جسمانی حالت، سامعین سے نظروں کا ملنا، جسمانی حرکت، اسلوب (طریقہ/طرز)، سلاست (فصاحت/روانی)، متانت (سنجیدگی/اچھی زبان/اچھے خیال)، ظرافت (خوش طبعی)، اشارات، استدلال (دلیل/ثبوت)، تجربہ، تجزیہ، تمثیلات (مثال/مشابہت)، موضوع خطاب پر مطالعہ و قابو، مناسب و دلنشیں لفظ، انفرادیت، سامعین کی ذہنیت، مطالبہ اور ان کا ادب و احترام، خود اعتمادی اور خطابت کا دلکش عنوان وغیرہ خطابت کے لئے لازمی امور و عناصر ہیں۔

خطبہ کا تذکرہ ہوگا تو باب مدینتہ العلم، امیرالمومنین حضرت علیؑ ابن ابی طالب علیہ السلام جو بیک وقت قرآن ناطق بھی ہیں اور بائے بسم اللہ کا نقطہ بھی۔ آپؑ کی اپنی خداداد صلاحیتوں کے نمونے نہج البلاغہ میں موجود ہیں۔ ایسے خطبات دنیا آج تک پیش کرنے سے قاصر ہے۔ آپ کے حکیمانہ کلام کا ایک ایک لفظ حقائق و معارف کا بحر ذخّار اور ایک ایک نقطہ علم و حکمت کا سمندر ہے۔ ایک اعداد و شمار کے مطابق آپؑ کے خطبات کی مجموعی تعداد 243 ہے۔ جملہ خطبے 21 مختلف اقسام پر مشتمل ہیں۔

جناب زینبؑ بنت شیر خدا حضرت علی علیہ السلام کا وہ یزید لعنت اللہ کے دربار میں بے مثل، دلیرانہ و حکیمانہ خطبہ جو ہمیشہ خطیبوں کے لئے راہنما قرار دیا گیا "تمام تعریفیں اس خدا کی ہیں جو عالمین کا پروردگار ہے اور صلوات ہو میرے جد پر جو پیمبروں کے سردار ہیں۔ خدا نے سچ فرمایا ہے "پھر جن لوگوں نے برائ کی تھی ان کا انجام برا ہی ہوا کیونکہ ان لوگوں نے خدا کی آیتوں کو جھٹلایا اور ان کے ساتھ مسخراپن کیا۔" قابل غور ہے کہ حضرت زینبؑ کو قرآن پر کتنا عبور تھا اس کا اندازہ آیات کے انتخاب سے ہو جاتا ہے۔ "اے یزید! تم سمجھتے ہو کہ تم نے دنیا کی وسعتوں کو ہم سے چھین لیا ہے۔۔۔۔" قارئین کرام توجہ دیں کہ حضرت زینبؑ نے یزید پلید کو رائج القاب سے خطاب نہیں کیا بلکہ صرف اس کے نام سے مخاطب کیا ہے۔ یہ یزید کے رخسار پر ایک طمانچہ تھا۔

حیدر کرارؑ کی بیٹی کی ہمت دیکھیں۔ یزید لعنت اللہ کے ہی دربار میں اسی کے تخت و تاج اور حکومت کو غاصبانہ قبضہ قرار دیتی ہیں اور اس کی حکومت کو اپنی حکومت کہتی ہیں۔ سورۃ آل عمران کی آیت سے یزید کو بتا رہی ہیں کہ تو اپنی ظاہری فتح سے یہ مت سمجھ کہ خدا تجھ سے راضی ہے۔ خدا کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ "اے آزاد کردہ غلام کی اولاد!۔۔۔بے شک ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔" حضرت زینبؑ نے یزید کو اسی کے دربار میں للکارا ہے کہ جو تیرے بس میں ہے کر دیکھایا لیکن تو میرے نانا کے دین کو یا ان پر نازل ہونے والے قرآن کو یا مسلمانوں کے دل سے آل محمدؐ کی محبت کو مٹا نہیں سکتا ہے۔

خطبات کسی اور وجہ یا ذاتی مفاد کے حصولیابی کا ذریعہ نہیں ہے، بلکہ اصلاح اور پیغام رسانی کا بہترین ذریعہ ہے لیکن اکثر و بیشتر دیکھا گیا ہے کہ خطباء کرام کی غیر زمہ داری کے باعث خطبات کی افادیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ موضوع اور ضرورت کے لحاظ سے "مادر چہ خیالم و فلک در چہ خیال" والا معاملہ ہوتا جا رہا ہے۔

محترم خطیبٍ مسجد کو اتنی فرصت نہیں کہ معلومات حاصل کریں کہ حالات کیا ہیں، ان کا تقاضہ کیا ہے اور نہ ہی اتنی استعداد ہوتی ہے کہ حالات اور ضرورت کے عین مطابق خطبہ کو مرتب کریں، حقیقتاً بعض اوقات سماعت کے دوران اوّل صف ہو یا آخر صف کے مصلّی وہ قیلولہ کی حالت میں نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب خطباء کرام داد و تحسین، واہ واہ، سبحان اللہ اور چھت شگاف نعرے کو زینتٍ خطبہ و ذریعہ کامیابی سمجھ بیٹھے ہیں، جبکہ توشۂ آخرت ذریعہ بخشش سے آنکھیں بند کر لی گئی ہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .