۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
میلاد امام حسن (ع)

حوزہ/ حضرت  امام حسن مجتبی علیہ الصلوۃ والسلام اس قدرحلیم و بردبار شخصیت کے مالک تھے ، کہ مروان ملعون جیسا کٹر دشمن اہل بیت بھی جس کی تعریف و تحسین پر مجبور دکھائی دیتا ہے۔

تحریر: مولانا ظہور مہدی ، مقیم حال : مہاجنگا، مڈگاسکر۔

حوزہ نیوز ایجنسی | بلاشبہ "حلم " ایک عربی لفظ ھے ، جس کی تعریف سبط اکبر حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ الصلوۃ والسلام نے کسی سائل کے سوال کے جواب میں یوں بیان فرمائی ہے:

قیل لہ علیہ السلام : فما الحلم ؟ قال : کظم الغیظ و ملک النفس۔( حرانی ابن شعبہ ، تحف العقول ، ص ۲۲۷)۔

راوی کہتا ہے کہ جب حضرت سے یہ کہا گیا کہ حلم کیا ہے؟

تو آپ نے فرمایا : حلم غیظ و غضب کو پی جانے اور نفس پر کنٹرول کرنے کا نام ہے۔

علامہ راغب اصفہانی نے بھی المفردات میں حلم کی تعریف تقریباً اسی طرح کی ھے :

" الحلم : ضبط النفس عن هیجان الغضب" (۱)

یعنی حلم ، شدت غیظ و غضب کے ھنگام نفس کو قابو میں رکھنے کو کہتے ہیں۔

حق یہ ھے کہ " حلم " کی عظمت و فضیلت ، عقل و خرد کے نزدیک ثابت و مسلم ھے اور اس عظیم صفت سے آراستہ ھونے کے ذی قیمت آثار و فوائد کسی صاحب عقل و شعور کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں ہیں ۔

البتہ دینی اعتبار سے اس کی عظمت کے لئے یہی کافی کہ قرآن مجید میں خداوند عظیم وحکیم نے اس عظیم صفت سے گیارہ مقامات پر اپنی ذات اقدس کا تعارف کرایا ھے، جن میں سے یہاں صرف تین مقامات کی طرف اشارہ کیا جارہا ھے:

مقام اول : سورہ اسراء میں ارشاد ھوا ھے"إنه كان حليماً غفوراً "۔

مقام دوم : سورہ احزاب میں وارد ھوا ھے: " وكان اللهُ عليماً حليماً "۔

مقام سوم : سورہ بقرہ میں موجود ھے : "واللہ غنی حلیم"۔اس کے علاوہ قرآن حکیم ھی میں متعدد نبیوں کا تعارف ، دیگر صفات کے ھمراہ اس باعظمت صفت سے بھی کرایا گیا ھے مثلاً حضرت ابراھیم علیہ السلام کے سلسلہ میں وارد ھوا ھے " ان ابراھیم لحلیم اواہ منیب " (۲) نیز حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ولادت باسعادت کی بشارت حضرت ابراھیم علیہ السلام کو دیتے ھوئے ارشاد ھوا ھے " فبشرناہ بغلام حلیم"(۳)

روایات میں حلم کی عظمت و فضیلت :

اس میں کوئی شک نہیں ھے کہ حلم ، علم کے بعد انسانی کمالات میں سب سے" افضل و اشرف " مقام رکھتا ھے اورحلم کی اسی منزلت کی خاطر کثیر روایات میں اسے مورد مدح و ستائش قرار دیا گیا ھے اور لوگوں کو اس سے آراستہ ھونے کی تاکید بھی کی گئی ھے ، جس کے چند نمونے یہاں ذکر کئے جارھے ہیں :

۱۔ سرکار رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ھے:

"ابتغوا الرفعۃ عنداللہ " اللہ کے نزدیک بلند مقام و مرتبہ حاصل کرنے کے درپے رھو!! پوچھا گیا وہ کس طرح ؟ تو آپ نے فرمایا:

" تحلم عمن جھل علیک و تعطی من حرمک "۔(۴)

جو تم سےجہالت و نادانی سے پیش آئے ، اس کے ساتھ حلم و بردباری سے کام لو اور جو تمھیں محروم کرے ، اسے عطا کرو۔

۲۔ سرکار مولائے کائنات امام علئ مرتضیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کا ارشاد مبارک ھے :

" لَيْسَ الْخَيْرَ أَنْ يَكْثُرَ مَالُكَ وَ وَلَدُكَ وَ لَكِنَّ الْخَيْرَ أَنْ يَكْثُرَ عِلْمُكَ وَ يَعْظُمَ حِلْمُك‏" (۵)۔

خیر یہ نہیں ھے کہ تمھارے مال و اولاد زیادہ ھوں ، بلکہ خیر یہ ھے کہ تمھارا علم ، کثیر اور حلم ، عظیم ھو۔

۳۔آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام ھی کا یہ فرمان بھی ھے:

۴۔ " الحلم عشیرۃ " (۶)حلم و بردباری مکمل قبیلہ ھے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام کا گرانقدر فرمان ھے : " کفیٰ بالحلم ناصراً " (۷) حلم و بردباری ، نصرت و مدد کرنے کے لئے کافی ھے۔

۵۔ حضرت امام رضا علیہ السلام کا ارشاد گرامی ھے:

" لَا يَكُونُ الرَّجُلُ عَابِداً حَتَّى يَكُونَ حَلِيما" (۸) انسان ، اس وقت تک حقیقی عابد نہیں بنتا ، جب تک حلیم و بردبار نہ بنے۔

علم و حلم کا باھمی رابطہ :

احادیث و روایات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ھے کہ علم وحلم کے درمیان ایسا عمیق و وزین رابطہ پایا جاتا ھے کہ اگر علم کے ساتھ حلم نہ ھو تو وہ بے سود ھے اور اس سے وہ فیض حاصل نہیں ھوسکتا جو ھونا چاھیئے۔

شاید اسی لئے حضرت امیر البیان و الرشاد مولا علی علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ھے :

" لا علم لمن لا حلم لہ " (۹) علم و دانش نہیں رکھتا وہ ، جو حلم و بردبادی سے آراستہ نہ ھو۔

آپ ھی نے ان دونوں کے درمیان پائے جانے والے رابطےکی مزید وضاحت " نعم قرین الحلم العلم " (۱۰) اور " نعم وزیرالعلم الحلم "(۱۱) کہکر فرمائی ھے ، یعنی آپ کی نگاہ مبارک میں علم ، حلم و بردباری کے لئے بہترین قرین و ھمنشین کی حیثیت رکھتا ھے اورحلم ، علم کے لئے بہترین وزیر کا درجہ رکھتا ھے۔

حقیقت یہی ھے کہ علم کا کام "طرح" پیش کرنا ھے اور حلم کا کام اسے جامہ عمل پہنانا ھے۔

حلم الہی اور حلم عبادی :

یہ تو واضح ھوچکا ھے کہ حلم و بردباری وہ گرانقدر کمال وصفت ھےکہ جسے خداوند متعال کی ذات اقدس نے اپنے

لئے بھی پسند فرمایا ھے اور اپنے تمام نبیوں ، رسولوں ، اماموں اور ولیوں کو بھی اس سے نوازا ھے لیکن سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ کیا اللہ عز و جل اور اس کے بندوں میں پایا جانے والا یہ وصف و کمال یکساں معنی و مفہوم کا حامل ھے یا اس میں کچھ فرق و امتیاز پایا جاتا ھے!؟

اس کا جواب ھمارے علماء نے اس طرح دیا ھےکہ :

اللہ عز و جل کے حلیم ھونے کا مطلب یہ ھے کہ وہ بندوں

کے گناھوں سے مکمل طور پر آگاہ و باخبر ھونے اور ان کو

سزا دینے پر پوری قدرت رکھنے کے باوجود سزا دینے میں

جلدی نہیں فرماتا اور انھیں مہلت دیتا رہتا ھے۔

لیکن عام بندوں کے حلیم ھونے کا مفہوم یہ ھے کہ جب ان کے اندر یہ صفت آجاتی ھے تو وہ اپنے اعصاب و احساسات سے مغلوب نہیں ھوتے اور ناروا اخلاق و اعمال کے مقابلہ میں غیظ و غضب میں مبتلا ھونے کے بجائےضبط نفس سے کام لیتے ہیں۔

حضرت امام مجتبیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کی شان حلم و بردباری :

خداوند متعال کے عبد و ولئ مقرب ، فرزند رسول ، دلبند علی و بتول حضرت امام حسن مجتبی علیہ الصلوۃ و السلام جہاں بہت سے اعلی فضائل و مکارم اور عظیم اخلاق و کمالات کا پیکر تھے ، وہیں آپ خلیفہ و ولئ الہی اور وارث نبی و علی ہونے کے ناطے الہی ، نبوی و علوی حلم و بردباری کا بھی مرقع تھے۔

ظاہر ہے کہ آپ کے تمام تو کیا بعض فضائل و مکارم کا مختصر بیان بھی اس مقالہ کی بساط سے باہر ہے ، اس لئے یہاں آپ کے یوم ولادت کی مبارک مناسبت کو مغتنم سمجھتے ھوئے فقط آپ کی ایک باعظمت اخلاقی وصف و فضیلت "حلم و بردباری" کے چند نمونے ذکر کئے جارہے ہیں ، تاکہ ھم سب مولا کے ادنیٰ غلام ان سے درس رشد و ہدایت حاصل کرسکیں :

۱۔ حضرت امام حسن مجتبی علیہ الصلوۃ والسلام اس قدرحلیم و بردبار شخصیت کے مالک تھے ، کہ مروان ملعون جیسا کٹر دشمن اہل بیت بھی جس کی تعریف و تحسین پر مجبور دکھائی دیتا ہے ، جیساکہ سنی معتزلی عالم ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے کہ :

جب امام حسن کا جنازہ بقیع کی سمت لے جایا جارہا تھا تو امام حسین علیہ السلام نے اشک بار آنکھوں کے ساتھ مروان سے کہا :

" تحمل الیوم جنازتہ و کنتَ بالامس تجرّعه الغیظ"

تو آج اس کا جنازہ اٹھائے ہوئے ہے ، کل تک جس کو رنج و غم کے گھونٹ پلا رہا تھا۔

یہ سن کر مروان بولا : نعم کنت افعل بمن یوازن حلمه الجبال (۱۲)

ہاں میں اس شخص کے ساتھ ایسا کرتا تھا ، جو حلم و بردبادی میں پہاڑ کے ھموزن تھا۔اللہ۔اکبر و العظمۃ للہ۔

۲۔ ایک دن حضرت امام حسن مجتبی علیہ الصلوۃ والسلام گھوڑے پر سوار تھےکہ راستہ میں آپ کو دیکھتے ہی ایک شامی نے گالیاں دینی شروع کردیں اور بہت دیر تک جلی کٹی باتیں کہتا رہا لیکن آپ خاموشی سے سنتے رہے ، جب وہ چپ ہوگیا تو آپ نے اس کی طرف رخ کر کے اسے سلام کیا اور ہنستے ہوئے اس سے فرمایا:

اے مرد میرا خیال ہے کہ تو پردیسی ہے اور تجھے دھوکا ہوا ہے ، اگر تو ہم سے کچھ چاہے گا تو ہم عطا کریں ، اگر رشد و ہدایت کا طالب ھوگا تو تجھے ارشاد کریں گے ،

اگر تو بھوکا ہے تو شکم سیر کریں گے ، اگر برہنہ ہے تو لباس دیں گے ، اگر تنگدست ہے تو غنی کردیں گے ، اگر غریب ہے تو تجھے پناہ دیں گے ، اگر کوئی بھی حاجت ہے تو اسے پوری کریں گے۔

اب اگر اپنا ساز و سامان اٹھا کر تو ھمارے گھر لے آئے اور جب تک چاہے ھمارا مہمان بن کر رہے تو تیرے لئے بہتر ہوگا ، چونکہ ھمارا گھر وسیع و عریض ہے اور وہاں جو تو چاہے گاوہ فراہم ہوگا۔

جب اس نے حلم و بردباری سے لبریز حضرت کی یہ باتیں سنیں تو بولا :

میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اس زمین پر اللہ کے خلیفہ و جانشین ہیں اور خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت و خلافت کو کہاں قرار دے۔

تھوڑی دیر پہلے میں آپ اور آپ کے بابا سے سب سے زیادہ عداوت و دشمنی رکھتا تھا ، لیکن اب آپ مجھے مخلوقات میں سب سے زیادہ عزیز و محبوب ہیں۔

یہ کہکر وہ اپنا ساز و سامان لے کر مولا کے گھر آگیا اور جب تک اسے مدینہ میں رہنا تھا ، فرزند رسول کے گھر قیام پذیر رہا اور اہل بیت کا محب و معتقد ہوگیا۔(۱۳)

۳۔ سرکار امام حسن مجتبی علیہ الصلوۃ والسلام کے حلم و بردباری کا یہ عالم تھا کہ جب آپ زہر کی شدت سے تڑپ رہے تھے تو حضرت امام حسین علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ سے پوچھا کہ آپ کو کس نے زہر دیا ہے ؟

تو فرمایا : تم پتہ لگا کر کیا کروگے ، کیا اسے قتل کر ڈالو گے ؟

اگر وہ وھی ہو جسے میں جانتا ہوں تو اللہ کا غضب و عذاب اس پر تم سے زیادہ ہے اور اگر وہ نہ ہو تو میں نہیں چاہتا کہ کوئی بے گناہ میری وجہ سے گرفتار ہو۔(۱۴)

ظاہر ہے کہ علم امامت سے تو تمام ائمہ معصومین علیھم السلام اس قسم کے حقائق کو جانتے ہیں ، لیکن یہاں امام علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک عام اور رائج لہجہ میں گفتگو فرمائی ہے۔

آخر کلام میں رب حلیم و کریم سے دعا ہے کہ اپنے عظیم حلم و کرم سے بحق امام حسن مجتبی علیہ السلام ھم سب کو دولت علم و حلم سے نواز کر اپنی رضا و خوشنودی کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق کرامت فرمائے آمین۔

حوالے :

۱۔ راغب اصفهانی، المفردات، ج 1، ص 564.

۲۔ قرآن حکیم ، سورہ ھود ، آیہ 75۔

۳۔ " " ، سورہ صافات ، آیہ 101۔

۴۔ پائندہ ، ابو القاسم ، نہج الفصاحہ ، ج 1 ، ص 156۔

۵۔ نوری ، میرزا حسین ، مستدرك الوسائل، ج12، ص121۔۶.نہج البلاغہ ، کلمات قصار ، حکمت 418۔

۷۔ عاملی ، حر ، وسايل الشيعه، ج15،ص 65۔ ۸۔ کلینی ، یعقوب ، اصول كافي، ج2، ص111۔

۹.‌ آمدی ،عبدالواحد، غرر الحکم و درر الکلم ، جلد۱، ص783۔

۱۰۔ حوالہ سابق ، ح 10547۔

۱۱۔حوالہ سابق ، ح 1046۔

۱۲۔ معتزلی ، ابن ابی الحدید ، شرح نہج البلاغہ ، جلد ۱۶ ، ص ۱۲۔

۱۳۔ مجلسی ، محمد باقر ، بحار الانوار ، جلد۴۳ ، ص ۳۴۴۔

۱۴۔ شیخ مفید ، ارشاد ، جلد ۲ ، ص ۱۳۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .