تحریر: علی عباس حمیدی
خلاصہ (Abstract):
یہ مضمون حضرت یوسف علیہ السلام کی اولاد، خاص طور پر افرا یم اور منسّی کے قبیلوں پر روشنی ڈالتا ہے۔ مضمون میں قرآنی اشارات، اسلامی تفاسیر، اور بائبل و تاریخ کی مدد سے یوسف علیہ السلام کی نسل کے اثرات اور ان کا تاریخی و مذہبی مقام بیان کیا گیا ہے۔ اس تحقیق کا مقصد اسلامی نقطۂ نظر سے بنی اسرائیل کی قبائلی تشکیل میں یوسف علیہ السلام کی نسل کا کردار واضح کرنا ہے۔
مقدمہ
حضرت یوسف علیہ السلام کو قرآن مجید میں "احسن القصص" (بہترین کہانی) کا مرکز قرار دیا گیا ہے (یوسف: 3)۔ ان کی زندگی کے کئی گوشے قرآن، احادیث اور اہلِ کتاب کی کتابوں میں مذکور ہیں۔ تاہم، ان کی اولاد کے بارے میں معلومات محدود اور منتشر ہیں۔ اس مقالے میں ان کے بیٹوں منسّی اور افرا یم کی تاریخ اور اسلامی نقطۂ نظر سے ان کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کا نکاح اور اولاد
حضرت یوسف علیہ السلام کا نکاح مصر کے مذہبی پیشوا "فوطی فارع" کی بیٹی آسِنات (Asenath) سے ہوا۔ یہ نکاح اس وقت ہوا جب وہ مصر کے بادشاہ کی طرف سے وزیر مقرر کیے گئے۔ قرآن مجید اس نکاح کا ذکر براہِ راست نہیں کرتا، مگر تورات کی کتاب "پیدائش" میں واضح ذکر موجود ہے:
"اور یوسف کے دو بیٹے اُس وقت پیدا ہوئے جب وہ مصر کے بادشاہ کا وزیر تھا۔ ان کی ماں آسِنات تھی، جو اون کے پادری فوطی فارع کی بیٹی تھی۔"
(پیدائش 41:50–52)
بیٹے:
منسّی (Manasseh): عبرانی میں "بھلانا"، یعنی حضرت یوسف نے کہا: "اللہ نے مجھے میری مشقت اور میرے باپ کے گھر کی یاد سے نجات دی۔"
افرا یم (Ephraim): عبرانی میں "ثمر بخشی"، یعنی: "اللہ نے مجھے میرے دکھ کے ملک میں پھل دیا۔"
حضرت یعقوب علیہ السلام کی دعا اور روحانی گود لینا
حضرت یعقوب علیہ السلام نے ان دونوں پوتوں کو اپنی زندگی میں برکت دی اور ان کو اپنے بیٹوں کی حیثیت دی، جیسا کہ بائبل میں آیا ہے: "اب سے افرا یم اور منسّی میرے بیٹے ہوں گے، جیسے روبن اور شمعون ہیں۔"
(پیدائش 48:5)
اسلامی تفاسیر جیسے تفسیر ابن کثیر اور جامع البیان میں اس واقعہ کی تصدیق موجود ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام کے بیٹوں کو وارث بنایا اور ان پر خصوصی دعائیں کیں۔ (ابن کثیر، تفسیر سورہ یوسف: 100)
قبیلہ افرا یم و منسّی: تاریخی پس منظر
قبائلی حیثیت:
حضرت یوسف علیہ السلام کا نام بنی اسرائیل کے بارہ قبائل کی فہرست میں براہ راست شامل نہیں، بلکہ ان کے دونوں بیٹوں افرا یم اور منسّی کے نام سے قبیلے تسلیم کیے گئے۔ یہ قبیلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں واضح طور پر موجود تھے اور فلسطین میں آباد کیے گئے۔
جغرافیائی تقسیم:
قبیلہ منسّی: مشرقی اور مغربی اردن دونوں جانب زمین حاصل ہوئی (یوشع 17:1)۔
قبیلہ افرا یم: فلسطین کے مرکزی علاقے، خاص طور پر سیچیم اور اس کے گرد و نواح میں آباد ہوا۔
اہم شخصیات اور دینی مقام
حضرت یشوع بن نون، جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جانشین تھے اور بنی اسرائیل کو ارضِ موعود میں داخل کرنے والے تھے، قبیلہ افرا یم سے تعلق رکھتے تھے (یوشع 1:1)۔
قبیلہ منسّی سے تعلق رکھنے والے "جدعون" جیسے قاضی اور مجاہد بھی تاریخ میں ملتے ہیں۔
سیاسی مقام اور زوال
شمالی سلطنت اسرائیل:
حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل کی سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی:
یہوداہ (جنوب) – داؤدی نسل کی قیادت میں۔
اسرائیل (شمال) – جس کی قیادت افرا یم کے قبیلے نے کی۔
افرا یم اتنا طاقتور قبیلہ بن گیا کہ بعض اوقات پوری شمالی سلطنت کو "افرا یم" کہا جاتا تھا۔ (یسعیاہ 7:2)
زوال:
722 ق م میں آشوریوں نے شمالی اسرائیل پر حملہ کیا اور افرا یم، منسّی، اور دیگر قبائل کو جلا وطن کر دیا۔ ان قبائل کو بعد میں "گم شدہ قبائل" (Lost Tribes of Israel) کہا گیا۔
اسلامی مؤرخین کی آرا
اسلامی مورخین جیسے علامہ بلاذری، یعقوبی، اور بعض معاصرین نے ان گمشدہ قبائل کے مشرق کی طرف ہجرت کے نظریات پیش کیے ہیں، جن کے مطابق:
بعض قبائل خراسان، طبرستان، بلخ، اور کشمیر تک جا پہنچے۔
ان میں سے بعض قبائل بعد میں اسلام قبول کر کے مجاہدین بن گئے۔
یہ مفروضے تاریخی تحقیق کا حصہ ہیں مگر قطعی نہیں۔
نتائج و سفارشات
یہ تحقیق اس امر کو واضح کرتی ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی اولاد بنی اسرائیل میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہے۔ ان کی نسل نے سیاسی، مذہبی، اور تاریخی میدانوں میں نمایاں کردار ادا کیا، اگرچہ بعد ازاں تاریخ کے دھندلکوں میں چھپ گئی۔ اس موضوع پر مزید تحقیقی کام کی گنجائش موجود ہے، خاص طور پر ان گمشدہ قبائل کی اسلامی تاریخ میں ممکنہ موجودگی پر۔
حوالہ جات (References):
القرآن المجید، سورہ یوسف، آیات 3، 100
تفسیر ابن کثیر، دار السلام، جلد 4، تفسیر سورہ یوسف
الطبری، جامع البیان، تحقیق احمد شاکر
بائبل، کتاب پیدائش، ابواب 41، 48
بائبل، کتاب یشوع، ابواب 1، 17
یسعیاہ نبی، باب 7، آیت 2
ابن خلدون، مقدمہ، تحقیق علی عبدالواحد وافی
بلاذری، فتوح البلدان
ول ڈیورانٹ، "تاریخ تہذیب"، جلد دوم، باب بنی اسرائیل
ڈاکٹر حمیداللہ، "خطباتِ بہاولپور"









آپ کا تبصرہ