حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، حجت الاسلام عباسی نے یوم نہج البلاغہ کی مناسبت سے ایک مقالہ تحریر کیا ہے۔ جس کا خلاصہ حوزہ نیوز کے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:
سید رضی (رہ) نے کتاب نہج البلاغہ میں اپنی تالیف کے محرکات کو یوں بیان کیا:
"جوانی کے آغاز اور زندگی کی شادابی کے دوران، میں نے ایک کتاب کی تالیف کا ارادہ کیا جو ائمہ علیہم السلام کے خصائص اور نمایاں خطبات پر مشتمل ہو۔ میں نے اس کتاب کے آغاز میں ہی اپنے اس عمل کی وجہ بیان کی مگر جب میں امیرالمؤمنین علیہ السلام کے خصائص کو جمع کر چکا تو زمانے کی مشکلات اور مصائب کے باعث اسے مکمل نہ کر سکا۔
میں نے اس کتاب کو مختلف ابواب اور فصول میں تقسیم کیا تھا اور اس کے آخر میں ایک باب شامل کیا جس میں امام (ع) کے مختصر مگر پرمعنی اقوال، مواعظ، حکمتیں، امثال اور آداب درج کیے گئے۔ نہ یہ طویل خطبے تھے اور نہ ہی طویل خطوط۔ کچھ دوستوں نے اس کتاب کو مختلف پہلوؤں سے حیرت انگیز اور مفید پایا اور مجھ سے خواہش ظاہر کی کہ میں ایک ایسی کتاب مرتب کروں جس میں امیرالمؤمنین (ع) کے منتخب اقوال تمام فنون اور مختلف موضوعات پر مشتمل ہوں جیسے خطبات، خطوط، مواعظ اور آداب۔
یہ اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ یہ کتاب فصاحت کی نادر مثال، عربی زبان کے جواہر اور دینی و دنیوی حکمت کے درخشاں نکات پر مشتمل ہوگی۔ ایسی باتیں جو کسی اور کتاب میں یکجا نہیں ملتیں کیونکہ امیرالمؤمنین (ع) ہی فصاحت کے سرچشمہ، بلاغت کے منبع، اور اس کے موجد ہیں۔ انہی کے ذریعے بلاغت کے مخفی گوہر آشکار ہوئے اور اس کے اصول و قوانین مرتب ہوئے۔ تمام خطیبوں نے ان کی اقتدا کی اور تمام بلیغ واعظین نے ان کے کلام سے مدد لی مگر اس کے باوجود وہی سبقت رکھتے ہیں اور دوسرے ان کے پیروکار ہیں، وہی آگے ہیں اور سب ان کے پیچھے۔
کیونکہ ان کا کلام ایسا ہے جو علم الٰہی کے آثار اور رسول خدا (ص) کے فرمودات کی خوشبو اپنے ساتھ رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے میں نے دوستوں کی اس درخواست کو قبول کیا اور اس کام کا آغاز کیا چونکہ مجھے یقین تھا کہ اس کا روحانی فائدہ بے حد زیادہ ہوگا اور یہ کتاب جلد ہی ہر جگہ پھیل جائے گی اور اس کا اجر آخرت میں ذخیرہ ہو گا۔"
نہج البلاغہ کے چیلنجز میں سے ایک اس میں امام علی علیہ السلام کے اقوال کی سند کا ذکر نہ ہونا ہے۔ اسی وجہ سے بعض کا خیال ہے کہ یہ روایات مرسل ہیں اور فقہی مباحث میں قابل استناد نہیں۔ اگرچہ نہج البلاغہ کی روایات کا عمومی موضوع فقہی نہیں، تاہم بعض محققین نے حضرت علی (ع) سے اس کی نسبت کو ثابت کرنے کے لیے اس کتاب میں موجود روایات اور اقوال کی سند کو قدیم منابع سے جمع کرکے نہج البلاغہ کے اسناد و مدارک کی صورت میں مرتب کیا گیا ہے۔ ان میں سے چند یہ ہیں:
- نہج السعادة فی مستدرک نہج البلاغہ، تألیف محمد باقر محمودی
- مدارک نہج البلاغہ و دفع الشبهات عنه، تألیف ہادی کاشف الغطاء
- مصادر نہج البلاغہ فی مدارک نہج البلاغہ، تألیف سید ہبۃ الدین حسینی شهرستانی
- مصادر نہج البلاغہ، تألیف عبداللہ نعمہ
- اسناد و مدارک نہج البلاغہ، تألیف محمد دشتی
- روات و محدثین نہج البلاغہ، تألیف محمد دشتی
- بحثی کوتاه پیرامون مدارک نہج البلاغہ، تألیف رضا استادی
- مصادر نہج البلاغة و أسانیده، تألیف سید عبدالزہراء الحسینی الخطیب
مرحوم سید رضی (رہ) نے تقریباً ۱۷ سال (۳۸۲-۴۰۰ھ) میں نہج البلاغہ کی تالیف مکمل کی اور اسے تین حصوں میں ترتیب دیا: خطبات، خطوط اور حکمتیں۔ اسی طرح حکمت ۲۶۰ کے بعد ایک مختصر مگر اہم حصہ "غریب الحدیث" کے نام سے شامل کیا، جس کا عنوان یہ دیا ہے: "فصلٌ نَذکُرُ فیه شیئاً عَن اختیارِ غَریبِ کلامِهِ المحتاجِ إلی التَّفسیر"۔
نہج البلاغہ کی تاریخ اور اس کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ کتاب، قرآن کریم اور احادیث نبوی (ص) کے بعد اسلام اور دینی اقدار کی شناخت کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔ اپنے بلند پایہ مضامین اور اعلیٰ درجے کی فصاحت و بلاغت کے باعث اسے "اخ القرآن" (قرآن کا بھائی) کہا گیا ہے۔ اس کتاب کے مختلف زبانوں میں تراجم بھی اس کے منفرد مقام کے عکاس ہیں۔
نہج البلاغہ نہ صرف شیعوں کے لیے بلکہ غیر شیعہ اور غیر مسلم افراد کے لیے بھی بہت کشش رکھتی ہے۔ بعض غیر مسلم محققین نے اسے پڑھ کر اسلام قبول کیا جیسا کہ امریکی فلسفی محمد لگن ہاؤزن نے نہج البلاغہ کے مطالعے کے بعد دین اسلام اور مذہبِ تشیع اختیار کیا۔
جمہوریہ اسلامی ایران کے قیام کے بعد میڈیا اور ثقافتی سرگرمیوں کے ذریعہ یہ کتاب عمومی ثقافت میں نمایاں ہوئی۔
شہید مرتضی مطہری (رہ) کے بقول "نہج البلاغہ گزشتہ صدیوں میں اسلامی اور شیعی ثقافت میں نسبتاً غیر معروف تھی اور حتیٰ کہ حوزات علمیہ میں بھی اسے خاص مقام حاصل نہ تھا۔ تاہم، اسلامی جمہوریہ ایران کے قیام کے بعد، اس کے حوالے سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر متعدد سیمینارز اور مقابلے منعقد ہوئے، مختلف ادارے اور مراکز نہج البلاغہ کی ترویج کے لیے قائم ہوئے اور انسانی علوم کے بعض شعبوں میں اسے تدریسی نصاب میں بھی شامل کیا گیا"۔۔۔۔۔الخ
نوٹ: مقالہ کے مکمل مطالعہ میں دلچسپی رکھنے والے افراد اس لنک کو وزٹ کر سکتے ہیں: https://hawzahnews.com/xdyxX
آپ کا تبصرہ