۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
News ID: 360620
14 مئی 2020 - 22:30
نہج البلاغہ

حوزہ/امیر المومنین حضرت علی ؑکا کلام وہ سمندر ہے جس کی گہرائی کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتاہے یہ وہ خزانہ ہے جسے شمار نہیں کیا جا سکتا۔

حوزہ نیوز ایجنسی| سید رضیؒ چوتھی صدی کی نمایاں شیعہ شخصیتوں میں سے ہیں۔ان کی ولادت ۳۵۹ھ میں بغداد میں ہوئی اور ۴۰۶ھ میں وفات پائی ان کی بہت سی تالیفات ہیں جیسے خصائص الائمہ،مجازات النبویہ،مجازات القرآن،الرسائل،نہج البلاغہ وغیرہ۔
 ان تمام کتابوں میں نہج البلاغہ سب سے مشہور اور باقی رہنے والی یادگار کتاب ہے جو انہوں نے ۴۰۰ھ میں اپنی وفات سے چھ سال پہلے تالیف کیا ہے۔
 نہج البلاغہ امیر المومنین حضرت علی ؑکے خطبات،مکتوبات اور کلمات قصار(چھوٹے چھوٹے کلمات)پر مشتمل ہے۔
سید رضیؒ نے اپنی کتاب کے مقدمے میں لکھا ہے :
 واما کلامہ فھو من البحر الذی لا یساجل والجم الذی لا یحافل وأردت ان یسوغ لی التمثل فی الافختار بہ بقول الفرزدق
اولئک آبائي فجئنی بمثلھم  اذا جمعتنا یا جریر المجامع
 ورأیت کلامہ یدور علی اقطاب ثلاثۃ: اولھا: الخطب والاوامر وثانیھا: الکتب والرسائل و ثالثھا: الحکم والمواعظ فاجمعت بتوفیق اللّٰہ تعالی علی الابتداء باختیار محاسن الخطب ثم محاسن الکتب، ثم محاسن الحکم والادب(1)
 امیر المومنین حضرت علی ؑکا کلام وہ سمندر ہے جس کی گہرائی کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتاہے یہ وہ خزانہ ہے جسے شمار نہیں کیا جا سکتا۔میں چاہتا ہوں کہ اس سلسلے میں فخر کرتے ہوئے مثال میں فرزدق کا شعر پیش کروں۔
 ’’سب سے مقابلہ کرنے والا اگر ہم سے مقابلہ کا شوق ہے تو میرے آباء و اجداد اور ان کے آباء و اجداد کو پیش کرو۔‘‘
 اگر تمہیں کسی اجتماع میں ہمارے ساتھ جمع ہونے کا موقع ملے تو دیکھ یہ میرے آباء و اجداد ہیں اور اگر مقابلہ چاہتے ہو تو ان کے جیسے آباء و اجداد لے کر آؤ۔
 ہم نے آپ کے کلام کو دیکھا کہ وہ تین محور کے گرد گردش کرتا ہے۔خطبات،مکتوبات اور حکمتیں و موعظہ ۔میں نے خداوند عالم کی توفیقات کے سایہ میں سب سے پہلے خطبات کا انتخاب کیا پھر مکتوبات کا اور اس کے بعد مواعظ اور حکمتوں کو ذکر کیا۔
کتاب نہج البلاغہ شیعہ اور سنی دونوں علماء کی نظر میں ہمیشہ سے ایک خاص مرتبہ کی حامل رہی ہے اور سب ہی اس کی عظمت اور اہمیت کے قائل ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی گیرائی ،گہرائی اور حسن بیان پر انگشت بدنداں ہیں۔
 ابن ابی الحدید نے نہج البلاغہ کی شرح کے مقدمے میں لکھا ہے کہ حضرت علی ؑسخنوروں کے امام اور سید و سردار اور تمام گفتگو کرنے والوں میں سب سے مقدم ہیں۔آپ کے کلام کو خالق کے کلام سے نیچے اور مخلوق کے کلام سے اوپر کہنے والے حق بجانب ہیں۔آپ کے کلام کی عظمت کے بارے میں صرف اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ صاحبان سخن نے گفتگو کا سلیقہ اور اہل  قلم نے لکھنے کا طریقہ آپ ہی سے سیکھا ہے(2)۔مصر کے سابق مفتی شیخ محمد عبدہ نے اپنی شرح نہج البلاغہ کے مقدمہ میں اس طرح لکھا ہے:
 وبعد فقد اوفی لی حکم القدر بالاطلاع علی کتاب نہج البلاغۃ مصادفۃ بلا تعمل اصبتہ علی تغیر حال وتبلبل بال وتزاحم اشغال وعطلۃ من اعمال، فحسبتہ تسلیۃً وحیلۃً للتخلیۃ فتصفحت بعض صفحاتہ وتاملت جملاً من عباراتہ، من مواضع مختلفات وموضوعات متفرقات فکان یخیل الیَّ فی کل مقام ان حروبًا شبت وغارات شنت وان للبلاغۃ دولۃ وللفصاحۃ صولۃ… بل کنت کلما انتقلت من موضع الیٰ موضع احس بتغیر المشاھد وتحول المعاھد فتارۃ کنت اجدني فی عالم یغمرہ من المعانی ارواح عالیۃ فی حلل من العبارات الزاھیۃ تطوف علی النفوس الزاکیۃ واحیانًا کنت اشھد ان عقلاً نورانیًا لا یشبہ خلقًا جسدانیًا فصل عن الموکب الالھی واتصل بالروح الانساني …وآنات کاني اسمع خطیب الحکمۃ، ینادی بأعلیاء الکلمۃ واولیاء امر الامۃ یعرفہ مواقع الصواب ویبصرھم مواضع الارتیاب ویحذرھم مزالق الاضطراب ویرشدھم الیٰ دقاق السیاسۃ ویھدیھم طرق الکیاسۃ … ولیس فی وسعي ان اصف ھذا الکتاب بازید مما دل علیہ اسمہ ولا ان آتی بشيء فی بیان مزیتہ فوق ما اتی بہ صاحب الاختیار(3)
عبارت کا مفہوم
 مقدر سے ایک دن اچانک نہج البلاغہ سے واقف ہوا اور کتاب کو دیکھ کر میری حالت بدل گئی دل باغ باغ ہو گیا۔میری ساری مصروفیتیں اس کے مطالعہ کی نذر ہو گئیں اور تمام کام چھوڑ کر اسی میں مصروف ہو گیا۔اب میرے پاس خالی وقت نہیں تھا یا اس کو پر کرنے کا بہترین بہانہ میرے ہاتھ لگا تھا۔میں نے اس کے بعض صفحات پڑھے ،اس کے جملوں میں غور کیا،مختلف مقامات اور متفرق موضوعات کا مطالعہ کیا مجھے ایسا لگا کہ ہر طرف جنگ چھڑی ہے اور پئے در پئے حملے ہو رہے ہیں لیکن اس کے با وجود بلاغت اور فصاحت کا اپنا ایک الگ اقتدارہے اس کی اپنی دنیا ہے جس پر صرف اسی کی حکمرانی ہے۔میں جتنا آگے بڑھتا گیا مجھے ایسا لگنے لگا جیسے ایک دوسری دنیا میں پہنچ گیا ہوں جہاں پاک و پاکیزہ نفوس بہترین عبارتوں کے ساتھ ناپیدا کنار سمندورں کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہیں۔بسا اوقات مجھے ایسا محسوس ہونے لگتا کہ جیسے کوئی عقل نورانی جس کی کسی بھی صورت مادی اور جسمانی مخلوق سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی الوہیت کے بلند ترین مقام سے الگ ہو کر روح انسان سے متصل ہو گئی ہے۔ایسا وقت بھی آیا جب مجھے لگا کہ میں حکمت کے خطیب کی آواز سن رہا ہوں جو بلندترین کلمات اور امت کے بہترین امور کے ساتھ ندا دے رہا ہے۔ ایسا شخص صحیح موقف کی معرفت رکھتا ہے۔امت کو شکوک و شبہات سے آگاہ کرنے والاہے۔اس کو لغزشوں سے بچانے والا ہے اسے سیاست کی باریکیوں کی طرف متوجہ کرتا ہے اور عقل و خرد کی باتوں کی طرف ہدایت کرتا ہے۔اس کتاب کی اس سے زیادہ تعریف میرے بس سے باہر ہے جتنے پر خود اس کا نام ہی دلالت کر رہا ہے اور میں اس کی خوبیوں کو بیان کرنے میںاس سے زیادہ کوئی بات نہیں کہہ سکتاجتناکوئی صاحب اختیار اپنے تمام اختیار کے ساتھ کہہ سکتا ہے۔
 یہاں پر سوال یہ ہے کہ نہج البلاغہ کو کس چیز نے دلچسپ بنایا ہے جویہ کتاب سب کی توجہات کا مرکز ہے بہت سے افراد کا خیال ہے کہ نہج البلاغہ کے طرز بیان اور اس کی بلاغت کی بنا پر لوگ اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں جیسا کہ ابن ابی الحدید اور شیخ محمد عبدہ کے بیانات میں نظر آتا ہے۔شہید مطہری نے نہج البلاغہ سے دلچسپی اور اس کی طرف رجحان کے دو اسباب ذکر کئے ہیں۔ ان کا بیان ہے کہ:
 امیر المومنین ؑکے کلمات ہمیشہ سے دو خصوصیتوں کے حامل رہے ہیں جن کے ذریعہ اسے پہچانا جا سکتا ہے۔
۱۔   فصاحت و بلاغت۔
۲۔   جامع اور کئی پہلوؤں کو شامل ہونا۔
 ان دونوں خصوصیتوں میں سے ہر خصوصیت اپنی جگہ پر اس بات کیلئے کافی ہے کہ امام علی ؑکے کلمات کو اہمیت دی جائے۔اب اگر یہ دونوں خصوصیتیں ایک ساتھ جمع ہو جائیں یعنی ایک طرف مختلف موضوعات اور مختلف مواقع کے مطابق ایک کلام ہولیکن اس کے با وجود اس میں اعلیٰ درجے کی فصاحت و بلاغت پائی جائے۔یہ دونوں خصوصیتیں امیر المومنین ؑکے کلام کو معجزہ کی حد تک پہنچا دیتی ہیںیا اس سے قریب کر دیتی ہیں۔اسی لئے اس کلام کو خالق اور مخلوق کے کلام کے درمیان میں قرار دیا جاتا ہے۔اسی لئے نہج البلاغہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ فوق کلام المخلوق و دون کلام الخالق۔یہ کلام مخلوق کے کلام سے اوپر اور خالق کے کلام کے نیچے ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بہت سے اسباب و علل ایک ساتھ مل کر اس با برکت کتاب ’’نہج البلاغہ‘‘ کو ایک ہمیشہ باقی رہ جانے والی پر کشش اور دلچسپ قرار دیتے ہیں۔
۱۔ اس سلسلے میں سب سے اہم ترین سبب مولائے کائنات امیر المومنین حضرت علی ؑکی عظیم اور قد آور شخصیت ہے۔آپ کے فضائل و کمالات اور امتیازات و خصوصیات کا عکس آپ کے کلام پر بھی ہے جو اس کی عظمت، اہمیت و دلچسپی اور اسے پر کشش بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
۲۔ مولائے کائنات کے کلمات کی فصاحت و بلاغت جس کے بارے میں صاحبان سخن کا اعتراف ہے کہ قرآن مجید کے بعد اس کی فصاحت و بلاغت کا کوئی جواب نہیں ہے۔
 عبد الحمید ابن یحییٰ عامری (۱۳۲ھ)کا بیان ہے کہ:
 میں نے امام علی ؑکے ستر خطبات کو یاد کیا،یہ خطبات چشمہ کی طرح برابر میرے ذہن میں ابلتے رہتے ہیں(4)
۳۔ مفاہیم کا متنوع اور کلما ت کا جامع ہونا یعنی ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ صرف ایک سیاسی،اخلاقی، عقیدتی یا تاریخی کتاب ہی ہمارے سامنے ہے بلکہ امیر المومنین ؑ کے کلمات میں یہ سارے پہلوسمائے ہوئے ہیں اور آپ نے ان میں سے ہر موضوع کی گہرائی میں اتر کر اس کے انتہائی بیش قیمت جواہر پارے پیش کئے ہیں۔
۴۔  نہج البلاغہ ایک ایسے الٰہی انسان کے مختصر دور حکومت کا تعارف ہے جس کی حکومت نہ جانے کتنے داخلی اور خارجی بحرانوں اور مختلف سماجی گروہوں جیسے قاسطین، مارقین اور ناکثین کی سازشوں کا شکار تھی لیکن اس کے بعد خود آپ ایسے حالات میں انتہائی کامیاب اور سرفراز حاکم کے فرائض کو اداکرتے ہیں۔
۵۔  نہج البلاغہ دور جاہلیت کے بعد اور خاص طور پر رحلت رسولؐ کے بعد کے سیاسی حالات کی ترجمان ہے۔
۶۔  اس کتاب میں لوگوں کے مختلف نفسیات کا تعارف ہے گویا یہ ایک طرح کے سماجی نفسیات کی ترجمانی ہے۔
۷۔  اس کتاب میں جس وادی میں بھی گفتگو کی گئی ہے وہ اس کی سب سے اعلیٰ منزل ہے جس سے بہتر کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔
۸۔ متقی اور پرہیزگار افراد کے صحیح تعارف ،خدائی انسانوں کی صحیح منظر کشی کے سلسلہ میں خطبۂ ہمام اور خطبۂ قاصعہ ملکی مسائل اور حکومت چلانے کے لئے عہد نامہ مالک اشتر ،زندگی میں نصیحتوں اور فردی اور اجتماعی طرز حیات کے لئے امام حسن ؑکے نام آپ کا مکتوب مبارک،خداوند عالم اور خلقت کے عجائب کے تعارف کے لئے پہلا خطبہ،پیغمبر اسلامؐ کے بعد پیش آنے والے ناخوش گوار حادثات اور واقعات کو بیان کرنے کے لئے خطبۂ شقشقیہ اور خدا کی کتاب قرآن مجید کے تعارف کے لئے نہج البلاغہ کا خطبہ ؍ ۱۷۶۔وہ مثالیں ہیں جو اس کتاب کی جامعیت،آفاقیت، دلچسپی اور مرجع خلائق ہونے کی نشان دہی کرتی ہیں۔
۔..........................................................    
1۔  نہج البلاغہ پر مقدمہ سید رضی
2۔ مقدمہ شرح ابن ابی الحدید،ج۱ ،ص ۸۔
3-مقدمہ شیخ محمد عبدہ بر نہج البلاغہ،ص ۳،۴۔
4- مرتضیٰ مطہری ،سیری در نہج البلاغہ،ص ۷۔

انتخاب وترجمہ: سیدحمیدالحسن زیدی،الاسوه فاؤنڈیشن سیتاپور 

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .