۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
قرآن کریم

حوزه/قرآن کریم کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ وہ تمام آسمانی کتابوں سے عظیم و برتر ہے جس کا کسی بھی دنیوی کتاب سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ یہ کلام خدا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی| قرآن مجید وہ افضل و اکمل کتاب ہے جس کے بعد نہ کوئی آسمانی کتاب آئی ہے اور نہ آئے گی جو بغیر تحریف و تبدیلی کے تمام انسانوں کی دسترس میں ہے ورنہ دیگر تمام آسمانی کتابیں تحریف و تبدیلی کے سبب اپنی اصلی حالت سے خارج ہو چکی ہیں۔قرآن کریم کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ وہ تمام آسمانی کتابوں سے عظیم و برتر ہے جس کا کسی بھی دنیوی کتاب سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ یہ کلام خدا ہے۔ ویسے تو خود قرآن حکیم میں قرآن کے امتیازات بیان ہوئے ہیں جو اربا ب علم و دانش اور اہل فکر و نظر سے پوشیدہ نہیں ہیں۔کتاب خدا کے علا وہ اہل بیت اطہار کے زریں اقوال و ارشادات موجود ہیں جو قرآن مبین جیسی عظیم المرتبت کتاب کی شان و شوکت اور امتیاز و برتری کا قصیدہ پڑھ رہے ہیںاور حقائق سے آگاہ کر رہے ہیں۔

قرآن حکیم وہ بے نظیر اوربے مثل کتاب ہے جس کا کسی بھی کتا ب سے تقابل نہیں ہوسکتا، ،توحید و وحدانیت کا وہ مدلل جواب ہے جو اہل کفر والحاد کو حیران و مسحور کئے ہوئے ہے، و ہ ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے جو تا قیامت ہدایت کا سامان فراہم کرتا رہے گا، علم و دانش کا وہ ٹھاٹھیںمارتا سمندر ہے جس سے تشنگان علم و معرفت رہتی دنیا تک سیراب ہوتے رہیں گے ،اخلاق و کردار کا عمدہ ترین مرقع ہے جس پر ارباب ایمان گامزن ہوکر دوسروں کے لئے نمونہ عمل بن سکتے ہیں، دنیا اور آخرت کی کامیابی و کامرانی کا وہ رازہے جو بیچین اور مضطرب انسانیت کو سکون و اطمینان سے مالا مال کرتا ہے ،اخلاق و کردار کا وہ زریں منشور ہے جو انسانوں کو عظمت و بلندی عطا کرتا ہے ، روحانی و جسمانی بیماری سے شفایابی کا وہ نایاب نسخہ ہے جو اولاد آدم کومحبوب بارگاہ خداوندی بنا تاہے،رسول اکرم  کا وہ ز ندہ معجزہ ہے جس کا جواب دنیا ہنوز پیش نہیں کر سکی ہے،عبادت و بندگی کا ایسا نادر لائحہ عمل ہے جس کے سبب انسان معبود حقیقی سے قریب سے قریب تر ہوکر اس کا مقرب بندہ بن سکتا ہے،انسانیت کی فلاح و بہود ی کا بہترین قوانین ہے جس پر عمل پیرا ہوکر پُر امن سماج اور صحت مند معاشرے کی تشکیل ہو سکتی ہے۔ 

قرآن کی جامعیت و ہمہ گیری:قرآن، اللہ کے کلام کا وہ مجموعہ ہے جو تمام عیوب و نقائص اور شکوک و شبہات سے پاک ومبرا ہے۔ انسا نوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جو قرآن کی تعلیمات سے خالی ہو،توحیدو وحدانیت ہو یا عقائد و کلام،عبادت و بندگی ہو یا احکام و مسائل،اخلاق و کردار ہو یا تہذیب نفس ،اقتصاد ہو یا تجارت،اجتماعی زندگی ہو یا انفرادی ،ہدایت و سعادت ہو یا علم و دانش،جمادات ونبا تات ہوں یا حیوانات ،اخرو ی زندگی کے مسائل ہوں یا دنیوی زندگی کے، چرند ہوں یا پرند وغیرہ سے متعلق تمام چیزیں کتاب خدا میں موجود ہیں۔ امیر المو منین حضرت علی، قرآنی آیات کے ذریعہ اس کی جامعیت و ہمہ گیری کا استدالال کر رہے ہیں  تاکہ ایک طرف کلام خدا کی عظمت ظاہر ہو جائے تو دوسری طرف قرآن کی جامعیت ثابت ہو جائے جس کا انکار ملحد توکر سکتا ہے لیکن توحید پرست نہیں:واللہ ُسبحانہ یقول:''ما فرطنا فی الکتاب من شیٍٔٔ(انعام٣٨)و فیہ تبیان لکل شیٍٔٔ(نحل٨٩)،(خطبہ ٥١٨)،ترجمہ:''جب کہ خدا کا اعلان ہے کہ ہم نے کتاب میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کی ہے اور اس میں ہر شیٔ کا بیان موجود ہے ''۔ظاہر سی بات ہے قرآن اللہ کی آخری کتاب ہے اگر وہ جامع و ہمہ گیر نہ ہوتی تو آخری کتاب کیسے قرار پاتی لہذامولائے کائنات  نے مذکورہ با لا دو آیتوں کے ذریعہ اس کی جامعیت و ہمہ گیری اور اس کے پُراسرار مطالب و مفاہیم کی محکم دلیل پیش کر دی ہے جو حق پر ستوں کے لئے قابل قبول ہوگی۔

قرآن اور ماضی، حال و آئندہ:اللہ کے تمام صفات لا محدود ہیں چاہے علم ہو یا قدرت لہذا وہ تمام زمانوں اور چیزوں کو پیش نظر رکھ کر کلام کرتا ہے جب کہ انسان ا ن خصوصیات کا حامل نہیں ہوتا۔چنانچہ قرآن کا تینوں زمانوں سے متعلق خبر دینا اور معلومات فراہم کرنا اس کی جامعیت کی ایک اور عمدہ دلیل ہے،اسی موضوع سے متعلق مولائے کائنات نہج البلاغہ میں ارشادفرما رہے ہیں:  و فی القرآن نبأ ما قبلکم و خبر ما بعدکم و حکم ما بینکم (حکمت٣١٣)،ترجمہ:''قرآن میں تمہارے پہلے کی خبر ،تمہارے بعد کی پیشگوئی اور تمہارے درمیانی حالات کے احکام سب پائے جاتے ہیں''۔ مولائے متقیان  اپنے اس بیان کے ذریعہ کتاب خدا کے لامحدود علوم کی طرف اشارہ کر رہے ہیں ۔کتاب خدا کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ گذشتہ، حال اور آیندہ سے متعلق معلومات فراہم کرتی ہے جو اس کی عظمت و بلندی کی واضح دلیل ہے۔قرآن کریم کا یہ امتیاز ہے کہ وہ کسی ایک محدود زمانے کے لئے نہیں آیا ہے بلکہ تا قیامت انسانوںکی ہدایت و سعادت کے لئے موجود رہے گا اور اپنے با برکت وجود سے ساری 
انسانیت کو ا پنی عظمت و بلندی کا احساس کراتا رہے گا ۔

قرآن اور ظلمتوں کا خاتمہ :قرآن کا اصل مقصد تمام انسانوں کو ہدایت و سعادت سے ہمکنار کرنے اور ظلمت و گمراہی کے سمندر میں غرق ہونے سے بچانے کا ہے۔ہر مومن یہ چاہتا ہے کہ وہ اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چل کررشد و ہدایت سے سرفر از ہو جائے لیکن یہ اس وقت ممکن ہوگا جب ہم قرآن کو اپنا نمونہ عمل بنائیں ۔قرآن ہدایات کا ایک ایسا دستور العمل ہے جس کے اندر ہدایت اورگمراہی دونوں کے راستے بیان ہوئے ہیں، اگر انسان اپنے اختیار و ارادے اور عقل و شعور کے ذریعہ ہدایت کے راستوں پر گامزن ہوگاتو کامیابی و کامرانی اس کے قدم چومے گی اور اگر ظلالت و گمراہی کے طریقوں کو اپنائے گا توناکامی کے دریا میں غرق ہوکر بے نام و نشاں ہو جائے گا۔حضرت علی خطبہ نمبر ١٨ میں قرآن کے امتیازات کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: و لا تُکشف الظلمات الّا بہ(خطبہ ٧١٨)،ترجمہ:''اور تاریکیوں کا خاتمہ اس کے علاوہ اور کسی کلام سے نہیں ہو سکتا ہے''۔یقیناً قران میں وہ کمالات پائے جاتے ہیں جو بشریت کو ظلمت و تاریکی سے باہر نکال کر ہمیشہ کے لئے زندہ جاوید بنا سکتے ہیں۔ 

قرآن دلوں کی بہار:بہار کا موسم انسانوں کو فرحت و شادابی ، کھیتوں اور درختوں میں ہریالی اور ترو تازگی فراہم کرتا ہے جو بہار کے موسم کو دیگر موسموں سے ممتاز بناتا ہے۔قرآن بھی ایسی ہی خصوصیات کا حامل ہے جونہ صرف دلوں کو فرحت و شادابی اور ایمان کی ترو تازگی عطاکرتا ہے بلکہ بنی نوع انسان کو ظلالت و گمراہی، ذلت و رسوائی اوریاس و ناامیدی کی خزاں سے باہر نکال کر باغ و بہار بنا دیتا ہے جیسا کہ مولائے متقیان  ارشاد فرما رہے ہیں:و تفقھوا فیہ فانہ ربیع القلوب (خطبہ ٦١١٠)،ترجمہ:''اور اس میں غور و فکر کرو کہ یہ دلوں کی بہار ہے''۔قرآن میں مختلف مقامات پر غور و فکر اور تدبر و تفکر کی دعوت دی گئی ہے جس کے ذریعہ انسان قرآن کی عظمت و منزلت اور حقیقت وبرتری تک بے حد آسانی کے ساتھ پہنچ سکتا ہے اور پروردگار کی حقیقی معرفت حاصل کر سکتا ہے ۔چنانچہ کلام خدا میں غور و فکر نہ صرف ا یمان و ایقان میں اضافہ کا سبب ہے بلکہ انسان کے دلوں کو نور انیت و روحانیت سے سر شار کر دیتا ہے۔آج کے بے چین اور مضطرب معاشرے کو سکون و اطمینان فراہم کرنے کا سب سے عمدہ لائحہ عمل قرآن ہے جو بشریت کو یا س و ناامیدی کے دلدل سے نکال کر خدا کی رحمتوں کا امیدوار بناتا ہے۔

تعلیم قرآن بیٹے کا باپ پر حق :تعلیم قرآن کی اہمیت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مولائے کائنات  ا سے بیٹے کا باپ پر حق قرار دے رہے ہیں جس کا ادا کرنا ہر باپ پر ضروری ہے۔نہج البلاغہ میں ارشادہو رہاہے:و حق الولد علی الوالد ان یحسن اسمہ و یحسن ادبہ و یعلمہ القرآن(حکمت٣٩٩)،ترجمہ:''اور فرزند کا حق باپ پر یہ ہے کہ اس کا اچھا سا نام تجویز کرے اور اسے بہترین ادب سکھائے اورقرآن مجید کی تعلیم دے'' ۔ایک فرض شناس باپ  تعلیم قرآن کی اہم ترین ذمہ داری سے کبھی غافل نہیں ہو سکتا ۔ لیکن کیا کہا جائے موجودہ دور کے ناسازگار حالات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ اکثر افرا د اپنے بچوں کی دنیوی تعلیم کے سلسلے سے تو بے حد سنجیدہ اور فکر مند نظر آتے ہیںلیکن تعلیم قرآن کے متعلق یکسر غفلت کا شکار ہیں ۔جبکہ تعلیم قرآن ہر اعتبار سے عصری تعلیم کے لئے مددگار و معاون ہے جو آخرت کی کامیابی کے ساتھ ساتھ دنیوی کامیابی کی بھی ضامن ہے لہذا ہر مومن کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے بچوںکی تعلیم قرآن کے متعلق سنجیدہ رہے ورنہ ایک چھوٹی سی چوک  اسے روز قیامت شرمندہ کر سکتی ہے۔

تعلیمات قرآن اور سبقت عمل : قرآن انسانوں کی ہدایت و سعادت کے لئے آیاہے، صرف تلاوت کا شرف حاصل ہو جانے سے نہ ہم ہدایت یافتہ ہو سکتے ہیں اور نہ ہی اس کے مقاصد تک پہنچ سکتے ہیں۔اسی طرح تعلیمات قرآن کو حاصل کرنے کا اسی وقت فائدہ ہوگا جب ہم سبقت عمل کے لئے کوشاں رہیں ۔کتنی عجیب بات ہے اغیار، قرآن میں تحقیق و جستجو کرکے ہم سے آگے نکلتے جا رہے ہیں اور پیرو کار قرآن پیچھے نظر آر ہے ہیں، جس بات کا درد مولا  کے کلام میں صاف جھلک رہا ہے ،فرماتے ہیں:واللہ واللہ فی القرآن !لا یسبقکم بالعمل بہ غیرکم (مکتوب٤٧)ترجمہ:'' دیکھو اللہ سے ڈرو قرآن کے بارے میںکہ اس پر عمل کرنے میں دوسرے لوگ تم سے آگے نہ نکل جائیں''۔یقینا دین ،عمل کانام ہے بغیر عمل کے نامہ اعمال کورے کاغذ کے مانندہوگا جس کا احساس اچھی طرح سے فرزندان توحید کو ہے لیکن دنیا کی تک و دو اور چمک دمک نے سب کو اپنا شکار بنا رکھا ہے جو بیدار ہااس نے بہت کچھ حاصل کر لیا لیکن جو سوتا رہا وہ اپنی قسمت پر روتانظرآ رہا ہے۔لہذا تعلیمات قرآن اسی وقت مفید ثابت ہوگی جب ہم مرحلہ عمل کے لئے اپنا قدم آگے بڑھائیں گے ورنہ بے عملی ہمیں نقصان کے سوا کچھ نہیں دے سکتی۔

قرآن اور روحانی و جسمانی بیماریاں:قرآن کریم ایک ایسا نسخۂ شفا ہے جو لوگوں کو روحانی بیماریوں کے ساتھ ساتھ جسمانی بیماریوں سے بھی شفا یا ب کرتاہے۔ بیماری دو طرح کی ہوتی ہے جسمانی اور روحانی،پہلی بیماری کا تعلق انسان کے جسم سے اور دوسری کا انسان کی روح سے ہے ،پہلی والی کو جسمانی بیماری اور  دوسری کو روحانی بیماری کہتے ہیں۔جسمانی مرض سے خطرناک روحانی مرض ہوتا ہے جس کے سبب انسان کی آخرت خراب ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔روحانی بیماریاں جیسے کفر و نفاق،شرک و الحاد،بغض و حسد،فتنہ و تفرقہ اور بے راہ روی وغیرہ۔جسمانی مرض سے صرف مریض کو نقصان پہنچتا ہے لیکن روحانی مرض میں مبتلا انسان سماج و معاشرے اور خاندان کو تباہ وبرباد کر دیتا ہے۔

مولائے کائنات نہج البلاغہ میںفضائل قرآن کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کوروحانی بیماریوں سے صحت یاب ہونے کا مؤثر نسخہ قرار دے رہے ہیں:فا ستشفو ہ من ادوائکم واستعینوا بہ علی لاوائکم فان فیہ شفاء من اکبر الدائ؛و ھو الکفروالنفاق و الغی والضلال(خطبہ ٩١٧٦) ،ترجمہ:''اپنی بیماریوں میں اس سے شفا حاصل کرواور اپنی مصیبتوںمیں اس سے مدد مانگو کہ اس میں بدترین بیماری کفر و نفاق اور گمراہی و بے راہ روی کا علاج بھی موجود ہے''۔ قرآن انسانوں کی ہدایت و سعادت اور مہلک بیماروںسے نجات پانے کا اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا روحانی نسخہ ہے تو اہل بیت اطہار اس کے بھیجے ہو بہترین اطباء ہیں ۔

قرآن اور اس کے حقیقی مفسرین:قرآن تمام حقائق و معارف الہی کا جامع مجموعہ ہے جس کے مفاہیم و معانی کو سمجھنے کے لئے شرح و تفسیر درکار ہے۔اس اعتبار سے ایسے مفسرین کی ضرورت ہے جو قرآن کے تمام رموز و اسرار،نزول و تنزیل اور نشیب و فراز سے بخوبی واقف ہوں۔قرآن کا حقیقی مفسر وہی ہوگا جس پر قرآن نازل ہو اہو اور وہ مبارک ذات، رسول اکرم  کی ہے۔تمام نزول آیات کے چشم دید گواہ مولائے کائنات حضرت علی ہیں جنہیں سرکار ختمی مرتبت  نے قرآن کے تمام رموز و اسرار سے آگاہ فرمایا ہے اسی لئے توآنحضرت ۖ نے اہل بیت اطہار  کو قرآن کا ہم وزن قرار دیا ہے تاکہ حقیقی مفسرین سے متعلق کسی کے ذہن میں کوئی شک و شبہہ باقی نہ رہ جائے۔نہج البلاغہ میں ارشاد ہوتا ہے:ھم موضع سرہ،و لجأ امرہ،و عیبہ علمہ ،و موئل حکمہ ،و کھوف کتبہ ،و جبال دینہ،بھم اقام انحناء ظھرہ،واذھب ارتعاد فرائصہ،(خطبہ ٢ ١٠)ترجمہ:''یہ لوگ(اہل بیت) راز الہی کی منزل اور امر دین کا ملجأو ماویٰ ہیں،یہی علم خدا کے مرکز اور حکم خدا کی پناہ گاہ ہیں،کتابوں نے یہیں سے پناہ لی ہے اور دین کے یہی کوہ گراں ہیں،انہیں کے ذریعہ پروردگار نے دین کی پشت کی کجی سیدھی کی ہے اور انہیں کے ذریعہ اس کے جوڑ بند کے رعشہ کا علاج کیا ہے''۔ 

ایک دوسرے مقام پر مولائے متقیان  ارشاد فرمارہے ہیں:ذالک القرآن فا ستنطقوہ و لن ینطق ولکن اخبرکم عنہ؛(خطبہ ٢١٥٨)ترجمہ:''اور وہ یہی قرآن ہے،اسے بلوا کر دیکھو اور یہ خود نہیں بولے گا،میں اس کی طرف سے ترجمانی کروں گا''۔مذکورہ بالا کلام پر گہراہی اور گیرائی کے ساتھ غور وفکر کرنے کے بعد اس نتیجے پر آسانی سے پہنچا جا سکتا ہے کہ صرف اہل بیت اطہار  ہی قرآن کریم کے سچے اور حقیقی مفسر ہیں جو رحمان کے خزانہ دار اور اس کے صفات کے مظہر ہیں،اسی لئے سرکار ختمی مرتبت ۖ نے اہل بیت  کو قرآن ناطق قرار دیا ہے تا کہ لوگ قرآن کے حوالے سے ادھر ادھر بھٹکنے کے بجائے اہل بیت سے تمسک اختیار کریں اور ہدایت و سعادت کی منزل پر فائز ہو جائیں۔

قرآن کے فضائل و خصوصیات: نہج البلاغہ میں متعدد مقامات پرامیر المومنین حضرت علی،  قرآن کے قضائل و کمالات کا ذکر کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں،مضمون کے ا ختصار کے پیش نظرصرف چند خصوصیات کا ذکر کیا جائے گا۔ قرآن ایک ایسا ہادی ہے جو انسانوں کو ضلالت و گمراہی کے دلدل سے نکال کر وہ بلندی عطا کرتا ہے جس پر ملائکہ رشک کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ،وہ ناصح ہے جس کے وعظ و نصیحت پراولاد آدم عمل پیرا ہوکر دوسروں کے لئے بہترین نمونۂ عمل قرار پاتے ہیں،وہ بیان کرنے والا ہے جس کی گفتگو میں صرف حقانیت پائی جاتی ہے ،جو اس کے قریب آتا ہے وہ ہدایت و سعادت کی نعمتوں سے مالامال ہو کر جاتا ہے۔ویسے تونہج البلاغہ میں مختلف مقامات پر قرآن کے حوالے سے اقوال و ارشادات موجود ہیں جو اس کے فضائل و کمالات کو بیان کر رہیں ،یہاں پر صرف خطبہ نمبر ١٧٦ میں موجود چند خصوصیات کا ذکر کیا جا رہا ہے، حضرت علی فرماتے ہیں: واعلموا انّ ھذا القرآن ھو الناصح الذی لا یغشّ،والھادی لا یضل ،والمحدث الذی لا یکذب ؛و ما جالس ھذاالقرآن احد الّا قام عنہ بزیادة او نقصان،زیادة فی ھدیً او نقصانمن عمیً (خطبہ ٧١٧٦)ترجمہ:''یاد رکھو کہ یہ قرآن وہ ناصح ہے جو دھوکہ نہیں دیتا ہے اور وہ ہادی ہے جو گمراہ نہیں کرتا ہے ،وہ بیان کرنے والا ہے جو غلط بیانی سے کام لینے والا نہیں ہے،کوئی شخص اس کے پاس نہیں بیٹھتا ہے مگر یہ کہ جب اٹھتا ہے تو ہدایت میں اضافہ کر لیتا ہے یا کم سے کم گمراہی میں کمی کر لیتا ہے''۔یہ ہم اہل ایمان کی خوش نصیبی ہے کہ جن کے پاس قرآن جیسی عظیم الشان و اکمل کتاب بغیر تحریف و تبدیلی کے موجودہے ورنہ دوسری آسمانی کتابیں تو تحریف و تبدیلی کے سبب بے اعتبار ہو چکی ہیں۔   
                     
تحریر: سید امین حیدر حسینی، استاد جامعہ ایمانیہ بنارس

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .