۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
News ID: 360524
7 مئی 2020 - 19:11
غلام سرور سومرو

حوزہ/اگرچہ آپ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل اور فلسطین کا مسئلہ ان کا داخلی مسئلہ ہے، یہاں یہ مسئلہ الفتح اور اسرائیل کا مسئلہ ہے جو کہ باتوں کہ ذریعے حل ہوجانا چاہیئے تو آُپ کا ضمیر گہری نند میں سوگیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی|  اگرچہ آپ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل اور فلسطین کا مسئلہ ان کا داخلی مسئلہ ہے، یہاں یہ مسئلہ الفتح اور اسرائیل کا مسئلہ ہے جو کہ باتوں کہ ذریعے حل ہوجانا چاہیئے تو آُپ کا ضمیر گہری نند میں سوگیا ہے۔ کیون کہ یہ عالمی دہشتگرد امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو تحفظ دینے کے لیئے ایک منظم اور مضبوط سازش کے تحت یہ پروپیگنڈا کی جاتی ہے۔ جہاں عالمی دہشت گرد امریکہ نے اسرائیل کی ناجائز ریاست کو تحفظ دینے کے لئے ہر ممکنی اقدامات کئے ہیں وہاں مسئلہ فلسطین کی اہمیت کو محدود کرنے کے لئے بھی بھرپور گھناؤنی سازشیں کی ہیں ،مثلاً ایک مخصوص فکر و سوچ کو ترویج دیا گیا ہے جسکے تحت یہ کہا گیا ہے کہ مسئلہ فلسطین نہ تو انسانیت کا مسئلہ ہے اور نہ ہے مسلم امہ کا مسئلہ ہے بلکہ یہ مسئلہ صرف اور صرف فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کا مسئلہ ہے اور پھر بتدریج اس مسئلہ کی نوعیت کو محدود کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ یہ مسئلہ فلسطین کی ایک تنظیم الفتح اور اسرائیل کے درمیان ہے جن کو آپس میں گفت و شنید کے ذریعے حل کر نا چاہئیے۔۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا واقعی یہ مسئلہ صرف الفتح اور اسرائیل کے مابین ہے؟ یا یہ ایک عالمگیر اور انسانیت کا مسئلہ ہے؟

سازش کچھ اس انداز میں بھی ہوئی ہے جو عام طور پر ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اکثر پڑھے لکھے اور بشعور لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اسرائیل کو 1967ء سے پہلے کی سرحدوں پر واپس چلے جانا چاہئیے تاکہ یہ مسئلہ ختم ہو جائے۔ لیکن ۔۔۔یہاں بات سنہ 1967ء کی سرحدوں کی نہیں ہے،یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سنہ 1948ء سے قبل یا اس سے بھی زیادی ماضی کی تاریخ میں چلے جائیں تو فلسطین نامی خطے میں کوئی اسرائیل نامی ریاست موجود تھی؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر اسرائیل نامی کسی ریاست کا وجود ہونا ہی نہیں چاہئیے اور یہ ہے اس مسئلہ کا سیدھا اور آسان سا حل۔

اسرائیل صیہونیزم در اصل یہودیوں میں ایک انتہا پسند تنظیم کا نام ہے جس کا ہدف صرف اور صرف پوری دنیا پر تسلط قائم کرنا ہے اور ایک عالمی حکومت کا قیام ہے جس کی باگ ڈور صیہونیوں کے ہاتھوں میں ہو۔صیہونی نہ صرف عالم اسلام کو ہڑپ کرنے کے در پے ہیں بلکہ انہوں نے یہ منصوبہ سازی کی ہے کہ پہلے عیسائیوں کے ساتھ مل کر مسلمانو ں کے ممالک پر تسلط قائم کرو اور پھر بعد میں عیسائیوں کو بھی ختم کر دو۔

صیہونی اپنے مفادات کی خاطر کسی بھی حد کو پار کر سکتے ہیں مثال کے طور پر سنہ 1948ء میں دیکھیں کہ کس طرح 15مئی 1948ء کو صیہونیوں کی ایک دہشت گرد تنظیم ’’ہگانہ ‘‘ نے ہزاروں فلسطینیوں کو انتہائی سفاکانہ انداز میں صرف اس لئے قتل کر دیا کہ وہ فلسطین کے باشندے ہیں۔لہذٰا فلسطینیوں نے اس دن کو ’’یوم نکبہ ‘‘ یعنی بہت بڑی تباہی و بربادی کا دن قرار دیا ہے ۔اسی طرح صیہونیوں کے مظالم اور دہشت گردانہ کاروائیوں کی اور بھی مثالیں موجود ہیں جن میں صبرا و شتیلا کے فلسطینی مہاجر کیمپوں میں بد ترین اسرائیلی گولہ باری ہے کہ جس میں سیکڑوں فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔اسی طرح سنہ 1982ء میں لبنان پر صیہونی فوجوں کو قبضہ ،جس کو بعد میں حزب اللہ لبنان کے مجاہدین نے مقاومت کی مدد سے سنہ 2000ء میں لبنان کو صیہونیوں کے چنگل سے آزاد کروا دیا ۔اسی طرح سنہ 2006ء میں لبنان پر صیہونی فوجوں کا دوبارہ حملہ اور پھر سنہ2008ء میں غزہ پر حملہ اورغزہ کا پانچ سالہ محاصرہ اور پھر کاروان آزادی ’’فریڈم فلوٹیلا‘‘ پر دہشت گردانہ حملوں سمیت متعدد ایسی وارداتیں موجود ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ صیہونیت صرف کسی ایک خطے یا کسی ایک ملک کی نہیں بلکہ عالم اسلام اور پوری انسانیت کی دشمن ہے۔

اس لیئے آج عالمی ضمیر کی بیداری اور ان کے شعور اس بات پہ ایمان رکھتا ہے کہ مسئلہ فلسطین  حاضر میں زندہ رکھنا ایک ایسا فریضہ ہے جس سے کوتاہی در اصل اسلام سے خیانت کے مترادف ہے ،مسئلہ فلسطین کی اہمیت و نوعیت کو عالمی استعمار امریکہ و اسرائیل اور دیگر عالمی قوتوں نے ایک سازش کے تحت محدود کرنے اور دنیا کی توجہ فلسطین و القدس سے منحرف کرنے کی جو گھناؤنی سازشیں کی ہیں ان میں سے ایک بڑی اور اہم ترین سازش مسئلہ فلسطین و القدس کی اہمیت کو کم سے کم کر کے بیان کیا جانا ہے مثال کے طور پر جب دنیا بھر سے یہودیوں کو لا کر سر زمین القدس پر جمع کیا گیا اور عربوں کی سرزمین یا جسے انبیاء  و اسرایٰ کی سرزمین کہتے ہیں (فلسطین ) میں لا کر بسایا گیا اور بالآخر سنہ 1948ء میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا وجود عمل میں آ گیا ۔اور اس کے بعد عالمی دہشت گرد امریکہ اور غاصب اسرائیل کی سر پرست یورپی قوتوں نے دنیا بھر کو اس مسئلہ کو فقط فلسطینیوں اور یہودیوں کے مابین ایک مسئلہ قرار دیتے ہوئے کوشش کی کہ اس مسئلہ کی طرف سے دنیا کی توجہ منحرف کی جائے ۔در اصل سر زمین فلسطین پر قائم ہونے والی غیر قانونی اور دہشت گرد ریاست اسرائیل کو تحفظ دینے کے لئے عالمی دہشت گرد امریکہ نے ہر ممکن کوشش کی اور جس خطے میں اسرائیل نامی ناجائز ریاست کا وجود عمل میں آیا وہاں کا جغرافیائی مطالعہ کیا جائے تو نہر سوئز جیسے اہم راستے اس کی جغرافیائی حدود کی اہمیت کو مزید بڑھاتے ہیں تاہم اسی اہمیت کے حامل خطے میں صیہونی ریاست کا وجود بھی اسی سازش کے تحت وجود میں آیا ہے تا کہ خطے کے تمام تر معاملات کو کنٹرول کیا جا سکے اور غاصب اسرائیل کے ناجائز وجود کے بعد سے ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کی بات منظر عام پر آنا صیہونی دہشت گردوں کے ناپاک عزائم کی نشاندہی کرتا ہے ۔صیہونی دہشت گردوں کی جانب سے ’’گرہتڑ اسرائیل‘‘ یعنی نیل سے فرات تک اسرائیل کی سرحدیں ،اس بات کو دیکھتے ہوئے کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ مسئلہ صرف عرب فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان ہے؟ یقیناًہر گز نہیں!!

دوسری جانب مسلم امہ کا قبلہ اول بیت المقدس (مسجد اقصیٰ ) پر اسرائیلیوں کا غاصبانہ قبضہ اور مسجد اقصیٰ کی توہین اور بالخصوص 21اگست 1969ء میں یہودی انتہا پسندو ں کی جانب سے مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کیا جانے سمیت متعدد مرتبہ قبلہ اول کے تقدس کو پامال کیا جاتا رہا ہے ۔القدس (یروشلم ) میں مسلمانوں کی 3000مقدس مقامات موجود ہیں جس کو غاصب اسرائیل نابود کرنا چاہتا ہے ۔

رمضان المبارک کا مہینہ چل رہاہے اور اس ماہ مبارک میں ہر مسلمان روزہ رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے عہد کرتا ہے اور ہر مظلوم ودکھی انسان کی خدمت کروں گا یقیناًاس ماہ مبارک کی برکتوں سے ہمیں فائدہ اٹھا نا چاہئیے اور اس ماہ مبارک رمضان میں فلسطین کے مظلوم اور نہتے عوام کو نہیں بھولنا چاہئیے اور ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کو بھی اپنی دعاؤں اور زندگی میں یاد رکھنا چاہئیے اور القدس کو ہر صورت زندہ رکھنا چاہئیے۔ فلسطین کا مسئلہ اسلامی مسائل میں سر فہرست مسئلہ ہے جس کو اہمیت دینی چاہیئے۔ ایک زمانہ تھا جب اسرائیل کا منحوس وجود فلسطین کی سرزمین پر آیا ہے اور فلسطین اس مشکل کا شکار ہوا ہے۔ پاکستان میں موجود اسلامی تحریکیں جو کہ کسی بھی مسلک اور مکتب سے ہے، انہیں تمام مفادات سے بلاتر ہوکر اس بات پہ آمادہ ہوجانا چاہیئے کہ جمتہ الوداع کو یوم القدس کو اسلامی بیداری سے منانا چاہیئے اور اس روز ریلیوں، جلسوں اور سیمینارس، کالم نگاری، سوشل میڈیا پہ فلسطین کے حق میں نعرہ بلند کرکے استکبار غاصب ریاست اسرائیل اور امریکہ کے خلاف فلگ شگاف نعرے بلند کرکے اعلان بیزاری کی جائے۔

تحریر: غلام سرور سومرو (اصغریہ اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن پاکستان)

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .