حوزہ نیوز ایجنسی| بعثت کے دسویں برس یک بعد دیگرے دو ایسے عظیم حادثے رونما ہوے جس سے حضور سرور انبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ شدید رنجیدہ و غم زدہ ہوے۔ اور یہ ایسے غم تھے جس کا اظہار تا حیات فرمایا جیسا کہ تاریخ میں ذکر ہے۔
وَردَ عَلَی رَسولِ الله أمْران شدیدانِ عَظیمانِ وَجَزَعَ جَزَعاً شدیداً؛
دو ایسے عظیم اور سخت غم رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ پر نازل ہوے کہ آپ نے شدید گریہ و زاری اور نالہ و شیون فرمایا۔ جس میں سے ایک محسن اسلام حضرت ابوطالب علیہ السلام کی وفات اور دوسرے ام المومنین حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی رحلت ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے اپنے ہاتھوں سے جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا کو دفن فرمایا اور آپ ان دو مصیبت و غم میں اس قدر غمگین تھے کہ خانہ نشین ہو گئے اور اس سال کو غم کا سال یعنی "عام الحزن" قرار دیا۔ نیز امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نے مرثیہ پڑھا۔
"مری آنکھو! خدا تم پر برکتیں نازل کرے، خوب آنسو بہاؤ دنیا سے جانے والی ایسی دو ہستیوں پر کہ جن کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
بطحاء کے سید وسردار، رئیس بطحاء کے فرزند اور عورتوں کی سردار پر کہ جس نے سب سے پہلے نماز پڑھی۔
وہ پاک و پاکیزہ تھیں، خدا نے ان کے گھر کو بھی پاک و پاکیزہ بنایا، وہ بابرکت تھیں اور خدا نے انھیں ہر فضل سے نوازا۔
ان دونوں نے راہ خدا میں دین محمد (ص) کی نصرت کی ہر اس شخص کے مقابلہ میں جس نے دین میں بغاوت و سرکشی کا راستہ اختیار کیا۔ ان حضرات نے ہر عہد و پیمان کا پاس و لحاظ رکھا۔
(سیره ی ابن هشام، ج 2، ص 270.)
دوسری اقوام و ملل میں فقط مرد ہی سماج کے لئے نمونہ عمل ہوتے ہیں لیکن اللہ نے اس کے برخلاف جہاں حضرت ابراہیم، ہمارے حضور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ اور دیگر انبیاء علیھم السلام کو صاحبان ایمان کے لئے نمونہ عمل بتایا وہیں خواتین میں بدی و نافرمانی کے لحاظ سے جناب نوح اور جناب لوط علیھماالسلام کی بیویوں کو برا نمونہ عمل اور نیکی اور اطاعت کے عنوان سے جناب آسیہ (زوجہ فرعون) اور جناب مریم کو نیک نمونہ عمل بتایا ہے۔
ضَرَبَ اللهُ مَثَلاً لِلذین کَفَروا امْرَأة نوحٍ وامْرأةَ لوطٍ کانَتا تَحْتَ عَبْدَیْن مِنْ عِبادِنا صالِحین فَخانَتاهُما فَلَمْ یُغْنِیا عَنْهُما مِنَ الله شَیئاً وَقیلَ ادْخلا النّار مَعَ الدَاخِلینَ وَضَرَبَ اللهُ مَثَلاً لِلَّذین آمَنوا إمْرَأةَ فِرْعَوْنَ إذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لی عِنْدَکَ بَیْتاً فی الجَنَّةِ وَنَجِّنی مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِّنی مِنَ القَوْمِ الظَّالِمینَ وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرانَ الَّتی اَحْصَنَتْ فَرْجَها فَنَفَخْنا فیه مِنْ روحِنا وَصَدَّقَتْ بِکَلِماتِ ربِّها وکُتُبه وَکانَتْ مِنَ القانِتِین (سورہ تحریم ایت 11 و 12)
مذکورہ آیات میں اللہ تبارک و تعالی نے جناب آسیہ اور جناب مریم کو صرف عورتوں کے لئے نمونہ عمل نہیں بتایا بلکہ تمام صاحبان ایمان چاہے وہ مرد ہوں یا عورت سب کے لئے یہ دونوں مقدس خواتین نمونہ عمل ہیں۔ اسی طرح ام المومنین حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا اور آپ کی دختر نیک اختر صدیقہ کبری حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا تمام مسلمانوں کے لئے نمونہ عمل ہیں جیسا کہ ابن عباس بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے زمین پر چار لکیریں لگائيں اورفرمانے لگے : کیا تم جانتے ہو یہ کیا ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کوزيادہ علم ہے، نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جنتی عورتوں میں سب سے افضل خدیجہ بنت خویلد اورفاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور فرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم اورمریم بنت عمران رضي اللہ تعالٰی عنہن اجمعین ہیں۔ (مسنداحمد حديث نمبر 2663) اسی طرح انس بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ( کمال کے اعتبارسے ) دنیا کی تمام خواتین میں مریم بنت عمران اور خدیجہ بنت خویلد اورفاطمہ بنت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور فرعون کی بیوی آسیہ ( رضی اللہ تعالٰی عنہن ) ہیں۔ (سنن ترمذی حدیث نمبر 3878) اس کے علاوہ بہت سی روایتیں اسی مضمون کی کتب احادیث میں موجود ہیں بطور مثال مزید دو روایتیں پیش خدمت ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: خَیْرُ نِساءِ العالَمین مَرْیَمُ، آسِیةُ، خَدیجَةُ وَفاطِمَةُ علیها السلام یعنی دنیا کی تمام عورتوں میں مریم، آسیہ، خدیجہ اور فاطمہ سلام اللہ علیہا افضل ہیں۔ (خصال صدوق، باب خصال اربعه، ج1، ص 96.) إنَّ اللهَ اخْتارَ مِنَ النِّساءِ أرْبَعاً: مَرْیَمَ وآسِیَّةَ وخَدیجَةَ وفاطِمَةَ یعنی اللہ نے دنیا کی تمام عورتوں میں مریم، آسیہ، خدیجہ اور فاطمہ سلام اللہ علیہا کو منتخب کیا۔ (بحار الانوار، محمد باقر مجلسی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ج16، ص2، ح4)
اللہ تبارک و تعالی کے نزدیک حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کا مقام و مرتبہ
انسان کا کمال دنیوی مقام و مرتبہ یا دنیا والوں کی تعریف و تمجید نہیں بلکہ حقیقی کمال خالق کا اس سے راضی ہونا اور اسکی خاص عنایات ہیں۔ روایات کی روشنی میں ام المومنین حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کا مقام و مرتبہ اللہ تعالی کے نزدیک بہت بلند ہے۔ بطور مثال چند نمونے پیش ہیں۔
اللہ کا خاص سلام
بارہا خداوند عالم نے جناب جبرئیل کے ذریعہ سلام کہلایا ہے۔ ابوہریرہ سے روایت ہے أتی جَبْرَئیلُ النَّبیَّ صلی الله علیه وآله، فَقالَ: هذِهِ خَدیجَةُ قَدْ أتَتْکَ مَعَها إناءٌ مُغطّی فیه إدامٌ أوْ طَعامٌ أوْ شَرابٌ فَإذا هِیَ أتَتْکَ فَاقْرَأ عَلَیْها السَّلامَ مِنْ رَبِّها، وَمِنِّی السَّلام. یعنی جبرئیل رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی خدمت میں آے اور کہا : یہ خدیجہ جب آپ کے پاس سالن ، غدا یا کسی مشروب سے بھرے برتن کے ساتھ آئیں تو ان کو خدا کا اور میرا سلام کھ دیں۔ ( بحارالانوار، ج16، ص8، به نقل از مسند احمد بن حنبل.)
دوسرے روایت میں ہے إنَّ جَبْرَئیلَ أتی النَّبِیَّ صلی الله علیه و آله فَقالَ إقْرَءْ خَدیجَةَ مِنْ رَبِّها السَّلامَ فَقالَ رَسولُ الله صلی الله علیه و آله: یا خَدیجَةُ هذا جَبْرَئیلُ یُقْرِئُکَ مِنْ رَبِّکِ السلامَ، قالَتْ خَدیجَةُ: اللهُ السَّلامُ وَمِنْهُ السَّلامُ وَعَلی جَبْرئیلَ السَّلامُ یعنی جبرئیل رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی خدمت میں آے اور کہا خدیجہ کو انکے رب کا سلام پہنچا دیں تو حضور نے فرمایا اے خدیجہ یہ جبرئیل آپ کو اللہ کا سلام کھ رہے ہیں تو جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا نے فرمایا اللہ سلام ہے اور اسی سے سلام ہے اور جبرئیل پر سلام ہے۔ (بحارالانوار ، ص 11، روایت ابن هشام، و ر.ک: ص 8 )
مذکورہ دو روایتوں کے علاوہ ایک اور معتبر روایت جسے بزرگ شیعہ راویوں نے نقل کیا ہے۔ عَنْ زُرارة وَحَمْران بنِ أعْیَنْ وَمُحَمَّد بن مُسْلِمْ عَنْ أبی جَعْفَر علیه السلام، قالَ: حَدّثَ أبو سَعید الخِدِری أنَّ رَسولَ الله قال: إنَّ جَبْرَئیلَ أتانی لَیْلَةً اُسری بی فَحینَ رَجَعْتُ قُلْتُ: یا جَبْرَئیلُ هَلْ لَکَ مِنْ حاجَةِ؟ قالَ: حاجَتی أنْ تَقْرَءَ عَلی خَدیجَةَ مِنَ اللهِ وَمِنِّی السّلامَ وَحَدَّثَنا عِنْدَ ذلِکَ أنَّها قالَتْ حینَ لَقِیَها نَبیُّ الله فَقال الَّذی قالَ جَبْرَئیلُ فقالَتْ: إنَّ الله هُوَ السَّلامُ وَ مِنْهُ السَّلامُ وَإلَیْهِ السَّلامُ وَعَلَی جَبْرَئیلَ السَّلامُ۔ یعنی زرارہ، حمران بن اعین اور محمد بن مسلم نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت نقل کی کہ آپ نے فرمایا: ابو سعید خدری نے بیان کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: جس رات میں سفر معراج سے واپس آ رہا تھا تو جبرئیل میرے پاس آے تو میں نے پوچھا کیا کوی کام ہے؟ تو جبرئیل نے کہا کہ آپ خدیجہ کو اللہ کا اور میرا سلام کھ دیجئیے گا۔ اور جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ نے جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا سے اللہ اور جبرئیل کا سلام کہا تو جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا نے فرمایا اللہ سلام ہے، اسی سے اور اسی کی جانب سلام ہے اور جبرئیل پر سلام ہے۔ (بحار الانوار، ج18، ص385، ح90.)
اللہ کی خاص عنایت
جو ایمان و یقین اور خلوص کے ساتھ راہ خدا میں قدم رکھتا ہے تو اللہ اسے کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔ ام المومنین حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے جب اللہ کے محبوب نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ سے شادی کی تو قریش کی خواتین نے آپ سے رابطہ منقطع کر لیا یہاں تک کہ جب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت کا وقت آیا تو آپ نے ان سے مدد مانگی پھر بھی وہ نہیں آئیں تو آپ رنجیدہ خاطر ہوئیں تو اچانک کیا دیکھا کہ چار با عظمت خواتین آپ کے پاس ہیں انھوں نے آپ سے کہا کہ آپ گھبرائیں نہیں ہم سارہ، آسیہ، مریم اور کلثوم (خواہر موسی کلیم خدا) ہیں خدا نے ہم کو آپ کی مدد کے لئے بھیجا ہے تا کہ ہم آپ کی خدمت کریں۔ (بحارالانوار ، ج16، ص80، و ج43، ص2 ـ 4؛ امالی، الصدوق، ص 475.)
بہشتی کفن
آپ کی وفات کے بعد جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ آپ کو غسل دے رہے تھے تو جبرئیل نازل ہوے اور کہا کہ اللہ نے خدیجہ کے لئے جنت سے یہ کفن بھیجا ہے۔
جنت میں قصر
متعدد روایات کی مطابق اللہ تبارک و تعالی نے ام المومنین حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کو جنت میں بلند درجہ اور عظیم الشان قصر عطا فرمایا ہے، عبداللہ بن جعفر سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: أمِرْتَ أنْ أُبَشِّرَ خَدیجَةَ بِبَیْتٍ مِن قَصَبٍ لاصَخَبَ فیهِ ولا نَصَبَ یعنی مجھے حکم ہے کہ میں خدیجہ کو جنت میں سونے کے ایسے قصر کی بشارت دوں جس میں نہ کوی زحمت ہوگی اور نہ ہی کوی رنج و غم ہوگا۔ (بحار الانوار، ج16، ص7، ح 12.) اور جب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ سے آخر وقت دوران گفتگو سوال کیا أیْنَ والِدَتی خَدیجَةُ یعنی اس وقت میری ماں خدیجہ سلام اللہ علیہا کہاں ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: فی قَصْرٍ لَهُ أرْبَعَةُ أبْوابٍ إلی الجَنَّةِ۔ ایسے قصر میں ہیں جس کے چار دروازے جنت میں کھلتے ہیں۔ (بحار الانوار، ج 22، ص 510.)
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی نظر میں۔
اللہ کے نظر میں جو ذات اتنی بلند ہو کہ خود خالق اسے بارہا سلام کہلاے، اسکی خدمت کے لئے کائنات کی چار با عظمت خواتین کو بھیجے، بہشتی کفن بھیجے، جنت میں عظیم الشان قصر کی بشارت کا حکم دے تو یقینا اس کے حبیب و محبوب کے نظر میں بھی وہ بہت با عظمت ہوں گی اور یہی وجہ ہے کہ جب تک آپ زندہ رہیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ نے دوسری شادی نہیں کی۔ اور آپ کی وفات کے بعد بھی ہمیشہ آپ کو یاد کرتے رہے۔
یاد خدیجہ سلام اللہ علیہا
عَنْ عائِشَةَ: کانَ رَسولُ الله صلی الله علیه و آله لایَکادُ یَخْرُجُ مِنَ الْبَیْتِ حَتّی یَذکُرَ خَدیجَةَ فَیحْسُنَ الثَّناءَ عَلَیْها
وَالاسْتَغْفارَ لَها. فَذَکَرَها ذاتَ یَومٍ فَحَمَلَتْنی الْغَیرَةُ فَقُلْتُ عَوَّضَکَ اللهُ مِنْ کَبیرَةِ السِّنِّ قالَتْ فَرَأیْتُ رَسولَ اللهِ غَضِبَ غَضَباً شَدیداً..
عایشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ گھر سے باہر نہیں جاتے مگر یہ کہ خدیجہ کا تذکرہ، انکی تعریف اور ان کے لئے استغفار نہ کر لیں۔ ایک دن آپ خدیجہ کا تذکرہ فرما رہے تھے تو مجھے حسد ہوا تو میں نے کہا کہ اللہ نے اس بوڑھی عورت کے بدلے میں آپ کو دوسری بیویاں عطا کی ہیں یہ سننا تھا کہ آپ شدید غضب ناک ہو گئے اور فرمایا خَدیجَةُ وَأیْنَ مِثْلُ خَدیجَةَ، صَدَّقَتْنی حِینَ کَذَّبَنی النَّاسُ وَوَازَرَتْنی عَلی دینِ اللهِ وَأعانَتْنی بِمالِها۔ خدیجہ اور کہاں ہے کوی خدیجہ جیسی؟ انھوں نے میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اور اپنا مال و دولت دین خدا کی راہ میں خرچ کر کے میری مدد کی۔ (سفینة البحار، ج1، باب خاء، ص 380؛ قاموس الرجال، ج10، ص 432.)
یہ واقعہ کئی بار تکرار ہوا کہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ اپنی ازواج کے پاس تشریف فرما تھے اور جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا کو یاد کر کے گریہ فرما رہے تھے کہ عایشہ نے کہا کہ آپ بنی اسد کی ایک بوڑھی عورت پر گریہ کر رہے ہیں تو آپ نے فرمایا صَدَّقَتْنی اِذا کَذَّبْتُمْ وَ آمَنَتْ بی اِذْ کَفَرْتُمْ وَ وَلِدَتْ لی اِذْ عَقِمْتُمْ. قالَتْ عائِشَةُ: فَما زِلْتُ اَتَقَرَّبُ اِلی رَسُولِ اللهِ صلّی الله علیه و آله بِذِکْرِها؛ انھوں نے اس وقت میں تصدیق کی جب تم لوگ تکذیب کر رہی تھیں۔ وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب تم حالت کفر میں تھیں۔ انھوں نے مجھے صاحب اولاد بنایا جب کہ تم بانجھ تھیں۔ عایشہ کہتی ہیں کہ ہم جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا کے فضائل بیان کر کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کا تقرب حاصل کرتے تھے۔ (بحار الانوار، ج 16، ص 8 ؛ کشف الغمة، ج2، ص 131)
محبان خدیجہ سے محبت
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نہ فقط حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا سے شدید محبت فرماتے اور انکا ذکر کرتے بلکہ ان کے چاہنے والوں سے بھی اظہار محبت فرماتے تھے۔ جب بھی جانور ذبح ہوتا تو آپ فرماتے کہ اس میں سے محبان خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کے لئے بھی لیتے جاو کیوں کہ إنّی لَأُحِبُّ حَبیبَها میں محبان خدیجہ سے محبت کرتا ہوں۔ (ریاحین الشریعة.)
ایک دن ایک بوڑھی خاتون حضور صلی اللہ علیہ و آلہ کی خدمت میں آئیں تو آپ نے انکا خصوصی احترام فرمایا۔ جب وہ چلی گئیں تو عایشہ نے پوچھا وہ کون تھیں؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا وہ اکثر خدیجہ سے ملنے آتی تھیں۔ (سفینة البحار، ج1، ص 379 ـ 381.)
عایشہ کے بقول حضور صلی اللہ علیہ و آلہ جناب خدیجہ کی یاد اور انکے تذکرے سے کبھی تھکتے نہیں تھے۔ قالَتْ: کانَ رَسولُ اللهِ إذا ذَکَرَ خَدیجَةَ لَمْ یَسْأَمْ مِنْ ثَناءٍ عَلَیْها وَاسْتِغْفارٍ لها۔ عایشہ نے کہا: رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ جب بھی خدیجہ کو یاد کرتے تو انکی خوبیاں بیان کرنے اور ان کے لئے استغفار کرنے سے کبھی نہیں تھکتے۔ (بحار الانوار، همان، ج 16، ص 12.)
تحریر: سید علی ھاشم عابدی