۱۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 30, 2024
حضرت خدیجه

حوزہ/ محسنہ اسلام، ملیکۃ العرب، شریکہ حیات و حسنات و اہداف پیغمبر ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)، صدف کوثر، ام المومنین حضرت خدیجہ کبریٰ سلام اللہ علیہا کی عظیم الشان شخصیت، کردار و عظمت کے سلسلہ میں کچھ لکھنا یا بیان کرنا نہ صرف یہ کہ سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے بلکہ حقیقت حال یہ ہے "چہ نسبت خاک دارد بہ عالم آفتاب" 

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی | محسنہ اسلام، ملیکۃ العرب، شریکہ حیات و حسنات و اہداف پیغمبر ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)، صدف کوثر، ام المومنین حضرت خدیجہ کبریٰ سلام اللہ علیہا کی عظیم الشان شخصیت، کردار و عظمت کے سلسلہ میں کچھ لکھنا یا بیان کرنا نہ صرف یہ کہ سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے بلکہ حقیقت حال یہ ہے "چہ نسبت خاک دارد بہ عالم آفتاب"

نہ ذہن میں اتنی بلندی ہے اور نہ ہی دل میں اتنی وسعت کہ اس اقیانوس فضائل و کمالات و کرامات کا ادارک کیا جا سکے۔ لہذا معصومین علیہم السلام کی احادیث شریفہ ہی ہمارے لئے بہترین مدد گار ہیں۔ چونکہ "قدر گوہر شاہ داند یا بداند جوہری" ہمیں یقین ہے کہ انشاء اللہ اس عظیم بی بی کے شوہر نامدار کی شفاعت اور اولاد اطہار کی نظر کرامت ناچیز کے شامل حال ہوگی جو دنیا و آخرت میں ہماری سعادت کی ضامن ہو گی۔

1۔ اتی جِبْرِیلُ النبی صلی الله علیه وسلم فقال یا رَسُولَ اللَّهِ هذه خَدِیجَةُ قد اَتَتْ مَعَهَا اِنَاءٌ فیه اِدَامٌ او طَعَامٌ او شَرَابٌ فاذا هِی اَتَتْکَ فَاقْرَاْ علیها السَّلَامَ من رَبِّهَا وَمِنِّی وَبَشِّرْهَا بِبَیتٍ فی الْجَنَّةِ من قَصَبٍ لَا صَخَبَ فیه ولا نَصَبَ

جناب جبرئیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا ۔ یا رسول اللہ ! یہ خدیجہ ابھی آپ کے پاس آئیں گی ، جن کے ہاتھ میں برتن ہو گا جس میں سالن یا کھانا یا کوئی پینے کی چیز ہو گی ۔ جب وہ آپ کی خدمت میں پہنچے تو انہیں خدا کی جانب سے اور میری جانب سے سلام کہئے گا اور جنت میں گھر کی بشارت دیجئیے گا جس میں کوئی شور اور پریشانی نہ ہو گی۔ (بخاری جعفی، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، جلد5 صفحہ39) صحیح مسلم میں بھی ایسی ہی روایت موجود ہے۔

2۔ عن زرارة و حمران و محمد بن مسلم عن ابی جعفر ع قال حدث ابو سعید الخدری ان رسول الله صقال: ان جبرئیل ع قال لی لیلة اسری بی حین رجعت و قلت یا جبرئیل هل لک من حاجة قال حاجتی ان تقرا علی خدیجة من الله و منی السلام و حدثنا عند ذلک انها قالت حین لقاها نبی الله (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) فقال لها الذی قال جبرئیل فقالت ان‌ الله‌ هو السلام‌ و منه السلام و الیه السلام و علی جبرئیل السلام‌

جناب زرارہ، جناب حمران اور جناب محمد بن مسلم (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم) نے امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی اور انھوں نے جناب ابو سعید خدری سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےمجھ سے فرمایا: شب معراج جب مجھے سیر کرائی گئی تو واپسی میں میں نے جبرئیل سے پوچھا: آپ کو کوئی ضرورت ہے؟ تو انھوں نے کہا آپ سے میری حاجت یہ ہے کہ آپ اللہ کی جانب سے اور میری جانب سے (جناب) خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کو سلام کہہ دیجئیے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب زمین پر پہنچے تو آپؐ نے خدا اور جناب جبرئیل کا سلام جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا کو پہنچایا تو انھوں نے کہا : بے شک اللہ ہی سلام ہے، اسی سے سلام ہے اور اسی کی جانب سلام کی بازگشت ہے اور جبرئیل پر بھی سلام ہو۔

(عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، ج2، ص279 ۔ مجلسی، محمد‌باقر، بحار الانوار، جلد 16، ص7)

3۔ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی خصوصیات میں سے اللہ تبارک و تعالیٰ کا ان پر فخر و مباہات کرنا ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا حکم ملا کہ چالیس دن تک اپنی زوجہ یعنی حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا سے دور رہیں تو جناب عمار یاسر رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کے ذریعہ ان تک پیغام پہنچوایا۔

یا خدیجة لا تظنی ان انقطاعی عنک [هجرة] و لا قلی‌ و لکن ربی (عزّوجلّ) امرنی بذلک لتنفذ [لینفذ] امره فلا تظنی یا خدیجة الا خیرا فان الله (عزّوجلّ) لیباهی‌ بک‌ کرام‌ ملائکته‌ کل یوم مرارا

ائے خدیجہ! تم سے ہماری دوری کا سبب تم سے ناراضگی یا غضب نہیں ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس دوری کا حکم دیا ہے اور میں اس کے حکم کی تعمیل کر رہا ہوں اور تمہارے سلسلہ میں سوائے خیر کے اور کوئی خیال نہیں رکھتا کیوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعہ روزانہ کئی بار فرشتوں پر فخر و مباہات کرتا ہے۔

(بحارالانوار، جلد 16، صفحہ 78)

4۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی عظمت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہیں یاد کیا اور ان پر فخر کیا۔

خَدِیجَةُ وَ اَینَ‌ مِثْلُ‌ خَدِیجَةَ صَدَّقَتْنِی حِینَ کَذَّبَنِی النَّاسُ وَ آزَرَتْنِی عَلَی دِینِ اللَّهِ وَ اَعَانَتْنِی عَلَیهِ بِمَالِهَا اِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ اَمَرَنِی اَنْ اُبَشِّرَ خَدِیجَةَ بِبَیتٍ فِی الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبِ الزُّمُرُّدِ لَا صَخَبَ فِیهِ وَ لَا نَصَب‌

خدیجہ اور خدیجہ جیسا کوئی کہاں ہے؟ انھوں نے میری اس وقت تصدیق کیجب لوگ تکذیب کر رہے تھے۔ دین خدا کے سلسلہ میں میرا ساتھ دیا اور اپنے مال سے میری مدد کی۔ بے شک اللہ عزو جل نے مجھے حکم دیا میں خدیجہؐ کو جنت میں زمرد سے بنے گھر کی بشارت دوں کہ جس میں نہ کوئی مشقت ہوگی اور نہ ہی کوئی پریشانی ہوگی۔

(مناقب ، صفحہ 350)

5. ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لوگوں کے سامنے سبطین کریمین امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کا تعارف کراتے ہوئے فرما:

یا اَیهَا النَّاسُ اَ لَا اُخْبِرُکُمُ الْیوْمَ بِخَیرِ النَّاسِ‌ جَدّاً وَ جَدَّةً؟ قَالُوا بَلَی یا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ عَلَیکُمْ بِالْحَسَنِ وَ الْحُسَینِ فَاِنَّ جَدَّهُمَا رَسُولُ اللَّهِ وَ جَدَّتَهُمَا خَدِیجَةُ الْکُبْرَی بِنْتُ خُوَیلِدٍ سَیدَةُ نِسَاءِ الْجَنَّة

ائے لوگو! کیا میں تمہیں بتاؤں کہ آج جد اور جدہ کے لحاظ سے سب سے برتر کون ہے؟ لوگوں نے عرض کیا جی فرمائیں۔ تو آپ نے فرمایا: وہ حسن و حسین (علیہماالسلام) ہیں ان کے جد رسول اللہ ہیں اور انکی جدہ جنت کی عورتوں کی سردار خدیجۃ الکبریٰ بنت خویلد ہیں۔

(بشارۃ المصطفیٰ لشیعۃ المرتضیٰ ، صفحہ 186)

6. رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بستر شہادت پر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے فرمایا:

اِنَّ عَلِیاً اَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ (عَزَّ وَ جَلَّ) وَ رَسُولِهِ مِنْ هَذِهِ الْاُمَّةِ، هُوَ وَ خَدِیجَةُ اُمِّک‌

بے شک اس امت میں علی (علیہ السلام) اور تمہاری ماں خدیجہ (سلام اللہ علیہا) سب سے پہلے اللہ پر ایمان لائے۔

(امالی شیخ طوسیؒ، صفحہ 607)

7. رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک دن امام حسین علیہ السلام کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا:

اَیهَا النَّاسُ هَذَا الْحُسَینُ بْنُ عَلِی خَیرُ النَّاسِ جَدّاً وَ جَدَّةً جَدُّهُ رَسُولُ اللَّهِ سَیدُ وُلْدِ آدَمَ وَ جَدَّتُهُ خَدِیجَةُ سَابِقَةُ نِسَاءِ الْعَالَمِینَ اِلَی الْاِیمَانِ بِاللَّهِ وَ بِرَسُولِهِ

ائے لوگو! یہ حسین بن علی (علیہما السلام) ہیں جو جد اور جدہ کے لحاظ سے بہترین انسان ، ان کے جد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں جو اولاد آدم (علیہ السلام) کے سردار ہیں اور انکی جدہ خدیجۃ الکبریٰ (سلام اللہ علیہا) ہیں جو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پردنیا کی تمام خواتین سے پہلے ایمان لائیں۔

(الطرائف فی معرفة مذاهب الطوائف، جلد1، صفحہ119)

8. امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنے والد حضرت ابوطالب علیہ السلام اور جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا کے غم میں نوحہ پڑھا۔ نیز حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے سلسلہ میں فرمایا:

صَلَّيتُ مَعَ رَسولِ اللّهِ(ص) كَذا وكَذا لا يُصَلّي مَعَهُ غَيري إلّا خَديجَةُ.

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ فلاں فلاں نماز پڑھی کہ میرے اور خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کے علاوہ کوئی اور نہ تھا۔

(الاستیعاب، جلد3، صفحہ 201)

9. امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے سورہ انفطار کی آیت 18 کے ذیل میں فرمایا:

صَوَّرَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ عَلِی بْنَ اَبِی طَالِبٍ فِی ظَهْرِ اَبِی طَالِبٍ عَلَی صُورَةِ مُحَمَّدٍ فَکَانَ عَلِی بْنُ اَبِی طَالِبٍ اَشْبَهَ النَّاسِ بِرَسُولِ اللَّهِ صوَ کَانَ الْحُسَینُ بْنُ عَلِی اَشْبَهَ النَّاسِ بِفَاطِمَةَوَ کُنْتُ اَنَا اَشْبَهَ‌ النَّاسِ‌ بِخَدِیجَةَ الْکُبْرَی

اللہ تبارک و تعالیٰ نے صلب ابوطالب ؑ سے علی بن ابی طالب علیہ السلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مشابہ پیدا کیا اور علی بن طالب علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شبیہ تھے، حسین بن علی (علیہ السلام )حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شبیہ ہیں اور میں لوگوں میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ سلام اللہ علیہا کی شبیہ ہوں۔ (مناقب آل ابی طالب، جلد 3، صفحہ 170)

10. جب مسجد کوفہ میں حاکم شام کےضمیر فروش ذاکر نے مولائےکائنات امام علی بن ابی طالب علیہ السلام کی توہین کی یا مدینہ میں خود حاکم شام نے امیرالمومنین علیہ السلام کی بے حرمتی کرنی چاہی تو امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے انہیں جواب دیا جسمیں جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا پر افتخار فرمایا۔ (الارشاد، جلد 2، صفحہ 15۔ احتجاج طبرسی، جلد 1، صفحہ 282)

11۔ امام حسین علیہ السلام نے روز عاشور لشکر یزید کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

فَاِنِّی‌ ابْنُ‌ بِنْتِ‌ نَبِیکُمْ‌ وَ جَدَّتِی خَدِیجَةُ زَوْجَةُ نَبِیکُم

بے شک میں تمہارے نبی کی بیٹی کا بیٹا ہوں اور میری جدہ ماجدہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا تمہارے نبی کی زوجہ تھیں۔ (بحارالانوار، جلد 45، صفحہ 6)

12. اسی طرح دوسرے مقام پر لشکر یزید کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔

اَنْشُدُکُمُ اللَّهَ هَلْ تَعْلَمُونَ اَنَّ جَدِّی رَسُولُ اللَّهِ ص قَالُوا اللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَ اَنْشُدُکُمُ اللَّهَ هَلْ تَعْلَمُونَ اَنَّ اَبِی عَلِی بْنُ اَبِی طَالِبٍ ع قَالُوا اللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَ اَنْشُدُکُمُ اللَّهَ هَلْ تَعْلَمُونَ اَنَّ اُمِّی فَاطِمَةُ الزَّهْرَاءُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ الْمُصْطَفَی صقَالُوا اللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَاَنْشُدُکُمُ اللَّهَ هَلْ تَعْلَمُونَ اَنَّ جَدَّتِی خَدِیجَةُ بِنْتُ خُوَیلِدٍ اَوَّلُ‌ نِسَاءِ هَذِهِ‌ الْاُمَّةِ اِسْلَاماً قَالُوا اللَّهُمَّ نَعَم‌

تمہیں خدا کی قسم کیا تم جانتے ہوکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میرے جد تھے؟ انھوں کہا ہاں، فرمایا تمہیں خدا کی قسم کیا جانتے ہو کہ علی بن ابی طالب علیہ السلام میرے والد تھے؟ انھوں کہا ہاں، فرمایا تمہیں خدا کی قسم کیا جانتے ہو کہ میری ماں فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی تھیں؟ انھوں نے کہا ہاں، فرمایا تمہیں خدا کی قسم کیا تم جانتے ہوکہ میری جدہ ماجدہ خدیجہ بنت خویلد اس امت کی پہلی مسلمان خاتون تھیں ؟ انھوں کہا ہاں جانتے ہیں۔ (اللھوف، صفحہ 86)

اسی طرح دیگر تمام ائمہ ہدیٰ علیہم السلام نے نیکی سے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کا ذکر کیا اور آپ سے نسبت پر افتخار کیا جیسے امام زین العابدین علیہ السلام نے دربار یزید میں حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی نسبت پر افتخار کیا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے آپ کی عظمت بیان کی، امام حسن عسکری علیہ السلام نے آپ پر صلوات پڑھی۔

اسی طرح حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا نے اپنی دعا میں حضرت خدیجہ کی عظمت بیان فرمائی اور زید شہید رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے آپ سے نسبت پر افتخار کیا ۔

خدایا: ہمیں اپنے اولیاء کی معرفت اور انکی سیرت پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .