۱۲ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۲ شوال ۱۴۴۵ | May 1, 2024
بعثت

حوزہ/ بعثت میں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کا اعلان ہوا وہیں امیرالمومنین علیہ السلام کی ولایت کا بھی اعلان ہوا۔ 

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی | ملک عرب کے نامور شہر مکہ مکرمہ میں ایک پہاڑ ہے جسے ‘‘حرا ’’ کہتے ہیں۔ جسکی بلندی پر ایک چھوٹی سی غار ہے جس کے آدھے حصے میں سورج کی روشنی پہنچنے کے سبب روشنی ہوتی ہے باقی آدھا حصہ تاریک رہتا ہے۔ حج بیت اللہ یا خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے جو لوگ جاتے ہیں وہ اس غار کی زیارت کے لئے بھی ضرور جاتے ہیں ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ پوری دنیا سے مکہ مکرمہ جانے والے فرزندان توحید کیوں غار حرا کی زیارت کے لئے جاتے ہیں؟ کیوں کہ یہاں ہمارے حضور سرور انبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کثرت سے تشریف لے جاتے تھے، وہاں اللہ کی عبادت کرتے ، اس سے دعا مانگتے ، راز و نیاز کرتے ۔یعنی حبیب اپنے محبوب کو یہاں یاد کرتے تھے۔

حبیب خدا کے معمول میں تھا کہ جب بھی اپنے محبوب خدا سے راز و نیاز کی ضرورت محسوس کرتے تو غار حرا چلے جاتے اور اس گوشہ تنہائی میں ایک عاشق جو عشق کی حقیقت کو جانتا بھی تھا اور اسے حاصل بھی تھا حسب دستور ماہ رجب المرجب میں اپنے معبود سے محو گفتگو تھا ۔ ظاہر ہے زمان و مکان دونوں خدا کا تھا شہر مکہ حرم خدا ہے اور رجب ماہ خدا ہے یعنی دونوں لحاظ سے رحمت کا ایک سلسلہ تھا ۔ مکان پر رحمت کا میزاب ہے تو زمان میں موسلا دھار رحمت ہے۔ اسی ماہ خد ا و ماہ رحمت کی ستائسویں تاریخ تھی عبد اپنے معبود، عاشق اپنے معشوق ، حبیب اپنے محبوب کے سامنے حاضر ہو کر محو گفتگو تھا کہ معشوق و محبوب و معبود خدا کا فرشتہ جو فرشتوں کا سردار ہے یعنی سید الملائکہ جبرئیل امین ظاہر ہوئے، قریب گئے، اور قریب گئے، چہرے سے ظاہر ہے کہ کوئی اہم خبر لائے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ حضور نے پہلی بار کسی فرشتہ کو دیکھا ہو یا آپؐ فرشتہ کی آمد سے خوف زدہ ہو گئے ہوں کیوں کہ جس کے دل میں خدا ہوتا ہے نہ کسی سے ڈرتا ہے اور نہ ہی کسی سے مانگتا ہے ۔ وہ بھی رسول ؐ جس کی رسالت کا کلمہ پڑھ کر جناب ابراہیم علیہ السلام خلیل خدا ہوئے ہوں تو جب کلمہ گو فرشتے سے نہ گھبرایا اور نہ ہی اس سے کچھ مانگا تو جس کا کلمہ پڑھا گیا وہ کیسے خوف زدہ ہوتا اور ایسا تصور ہی شان رسالت کے منافی ہے کہ مخدوم خادم سے خوف کھا جائے۔ بہرحال محبوب کے سفیر نے حبیب سے، معبود کے قاصد نے عبد سے کہا ‘‘اقْرَأْ’’ پڑھو! عبد نے پوچھا کیا پڑھوں ؟ جبرئیل امین نے آیات الہی کو پیش کر دیا۔

‘‘اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ’’ (سورہ علق ، آیت ۱ تا ۵)

‘‘اس خدا کا نام لے کر پڑھو جس نے پیدا کیا ہے، اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے، پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی ہے، اور انسان کو وہ سب کچھ بتا دیا ہے جو اسے نہیں معلوم تھا۔’’ حضورؐ نے ان آیات کی تلاوت کی تو جبرئیل امین نے آپؑ کو مژدہ بعثت دیا کہ اب آپؑ کو اللہ نے رسالت کے لئے مبعوث کر دیا ہے۔

اللہ نے آسمان کے دروازوں کو کھول دیا اور ملائکہ گروہ در گروہ آتے اور بعد درود و سلام بعثت کی مبارکباد پیش کر کے رخصت ہو جاتے۔ آخر جبرئیل امین ؑ بھی اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے بعد چلے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی بیت الشرف جانے کے لئے غار سے نکلے ، دل میں خیال آیا کہ کیا میں اس عظیم ذمہ داری کی ادائیگی میں کامیاب ہو جاوں گا، کہیں قریش میری جانب جنون کی نسبت نہ دیں اور کار رسالت کی ادائیگی میں رکاوٹ نہ بنیں ، اسی وقت وحی نازل ہوئی ‘‘قریش کی تکذیب سے پریشان نہ ہوں ، عنقریب آپؑ کے دین میں وسعت آئے گی ، لوائے حمد آپؐ کے ہاتھ میں ہے آپؑ کے بعد علیؑ کے ہاتھ میں ہو گا، اللہ نے علیؑ کو آپؑ کے بعد تمام انبیاء و اولیاء پر فضیلت دی ہے۔

حضورؑ کے دل میں خیال آیا کہ کیا اس ‘‘علی’’ سے مراد میرا بھائی ‘‘علیؑ’’ ہی ہے تو دوبارہ وحی آئی ‘‘ ہاں ! وہی علیؑ کہ روز قیامت جس کے پرچم کے زیر سایہ تمام انبیاء، اولیاء، صدیقین اور شہداء نعمتوں والی جنت میں داخل ہوں گے۔’’ اس کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وہاں سے گھر کی جانب روانہ ہوئے تو جس پہاڑ یا پتھر کے پاس سے گزرتے وہاں سے آواز آتی ‘‘السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُولَ اللّهِ السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا حَبِیبَ اللّهِ السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا نَبیَّ اللّه’’

(ّبحار الانوار، جلد۱۷، صفحہ ۳۰۹)

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے ‘‘بعثت رسولؐ’’ کے سلسلہ میں سوال ہوا تو آپؑ نے فرمایا: میں نے یہی سوال اپنے والد ماجد امام جعفر صادق علیہ السلام سے کیا تھا تو انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعثت کے بعد اپنے گھر واپس آئے تو جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا نے دیکھا کہ آپؐ کا وجود نور سے منور ہے تو انہوں نے اس تبدیلی کے سلسلہ میں دریافت کیا تو حضورؐ نے فرمایا: ائے خدیجہ! میں مبعوث بہ رسالت ہو گیا ہوں۔ جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا نے فرمایا: میں برسوں سے اس دن کی منتظر تھی اور وہ آپؑ پر ایمان لائیں۔

اس روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا اور امیرالمومنین امام علی علیہ السلام سے فرمایا: جان لو کہ اسلام کی کچھ شرطیں ہیں، آپؑ نے ایک ایک شرط بیان کی جسے ان دونوں نے قبول کیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ‘‘تمہارا ایمان قبول نہیں ہو گا جب تک کہ تم میری زندگی میں ہی میرے بعد امام اور میرے جانشین کو نہ پہچان لو اور اسے مان نہ لو ۔ ’’ ان دونوں نے اطاعت و فرمانبرداری کا اظہار کیا تو آپؑ نے فرمایا: ائے خدیجہؑ! میرے بعد امام، میرے جانشین اور میرے وصی ہونے کے عنوان سے علیؑ کی بیعت کرو۔’’جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا پہلی خاتون ہیں جنہوں نے مولا علی علیہ السلام کی بیعت کی۔ (بحارالانوار، جلد ۱۸، صفحہ ۲۳۲)

مذکورہ روایات سے چند نکات واضح ہوتے ہیں۔

۱۔ فرشتہ کوئی پہلی بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس نہیں آیا تھا کہ جس سے آپ وحشت زدہ ہوجاتے۔

۲۔ جب جبرئیل امین ؑ نے آپؐ سے پڑھنے کو کہا تو آپؐ نے پوچھا کہ کیا پڑھوں اور جب انہوں نے وضاحت کی تو آپؑ نے صراحت سے آیات خدا کی تلاوت فرمائی۔

۳۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم خدا کی تعمیل میں خوف نہیں بلکہ قریش کے ایمان نہ لانے کا خدشہ تھا۔

۴۔ ام المومنین حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کو بعثت کا انتظار تھا اور بعثت سے قبل بھی آپؑ کو یقین تھا کہ حضرت محمد ؐ اللہ کے رسول ہیں۔

۵۔ بعثت میں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کا اعلان ہوا وہیں امیرالمومنین علیہ السلام کی ولایت کا بھی اعلان ہوا۔

۶۔ ایمان کی قبولیت کی اہم شرط امیرالمومنین علیہ السلام کی ولایت کا اقرار اور اس پر ایمان ہے۔

۷۔ جس طرح حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کا اقرار ہر ایک پر واجب ہے چاہے وہ آپؑ کی زوجہ ہی کیوں نہ ہوں اسی طرح امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کی ولایت کا اقرار بھی سب پر واجب ہے چاہے آپؐ کی زوجہ ہی کیوں نہ ہوں۔ اور شائد اسی لئے یوم بعثت کے اعمال میں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہے وہیں شاہ ولایت امیرالمومنین علیہ السلام کی بھی زیارت اعمال میں شامل ہے۔

یوم بعثت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم ہوا کہ خاص افراد کو ہی اسلام کی دعوت دیں اور یہ سلسلہ تین سال تک جاری رہا جسمیں تقریباً چالیس افراد ایمان لائے ۔ تین سال بعد اسلام کی عمومی دعوت کا حکم ہوا تو حضور ؐ نے لوگوں کو عمومی دعوت دی ۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیوں مبعوث بہ رسالت ہوئے۔ آپؐ کی رسالت کا مقصد کیا ہے؟

قرآن کریم اور معصومین علیہم السلام کی روایات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کے مقاصد بیان ہوئے ہیں جنمیں سے چند کی جانب ہم صرف اشارہ پر اکتفاء کریں گے۔

۱۔ اقدار کا انقلاب: یعنی سماج میں انسانی اقدار کی پاسبانی ہو اور عدل و انصاف قائم ہو۔

۲۔ روح کا تزکیہ و تربیت: کیوں کہ جب تک روح پاکیزہ نہیں ہو گی انسان کامیاب نہیں ہو سکتا اور نہ ہی جسم کی ظاہری طہارت روح کو پاکیزہ بنا سکتی ہے۔

۳۔ انسان کو اس کے مقصد خلقت یعنی عبودیت اور بندگی سے روشناس کرانا۔

۴۔ انسانی اتحاد کا استحکام: اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ مسلمان غیر مسلم کا حق پامال کر دیں ۔جیسے پڑوسی اگر غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو ، وہ پڑوسی کے حق سے محروم نہیں رہے گا۔

۵۔ الہی فضل کا ذریعہ: انسان اللہ سے مستقیم (ڈائرکٹ) رابطہ نہیں کر سکتا تو یہ انبیاء و مرسلین اور ائمہ طاہرین علیہم السلام ہی ہیں جو اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان واسطہ ہیں اور انہیں کے ذریعہ الہی فضل انسان کا نصیب ہوتا ہے۔

۶۔ بھولے ہوئے معاہدے کا احیاء: جیسا کہ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: اللہ نے رسولوں کو بھیجا تا کہ وہ انہیں انکی فطرت کے معاہدے کی ادائیگی پر تیار کریں جنہیں وہ بھول گئے ہیں اور نعمتوں کو یاد دلائیں۔

۷۔ اخلاقی خوبیوں کو فروغ دینا: جیسا کہ خود حضورؐ نے فرمایا:‘‘میں مکارم اخلاق کی تکمیل و توسیع کے لئے مبعوث ہوا ہوں۔’’

۸۔ معاشرہ میں قیام عدل : جس کی دلیل ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور امیرالمومنین علیہ السلام کے دور حکومت میں ملتی ہے کہ جہاں سماج میں صرف عدل قائم تھا، کوئی اپنے حق سے محروم نہیں تھا اور انشاء اللہ جب غیبت کی بدلی چھٹے گی تو دنیا ایک بار پھر نظام عدل کا مشاہدہ کرے گی۔

خدایا! ہمیں اپنی ، اپنے رسول اور اپنی حجت کی معرفت عطا فرما۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .