تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی | منجی عالم بشریت ، قطب عالم امکان، لنگر زمین و زمان ، صاحب الزمان ، خاتم الاوصیاء حضرت بقیۃ اللہ قائم المنتظر امام مہدی صلواۃ اللہ و سلامہ علیہ و علیٰ آبائہ الطاہرین و عجل اللہ فرجہ الشریف ہمارے بارہویں اور آخری امام ہیں ۔ آپؑ کے والد ماجد امام حسن عسکری علیہ السلام اور والدہ ماجدہ جناب نرجس خاتون سلام اللہ علیہا ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آخری وصی اور جانشین کا نام وہی ہے جو آپؐ کا نام ہے اور کنیت بھی وہی ہے جو آپؐ کی کنیت ہے یعنی ابوالقاسم ، نیز امام زمانہ ؐ کی ایک کنیت ابا صالح بھی ذکر ہوئی ہے۔ کتابوں میں آپ ؑ کے 180 سے زیادہ القاب بیان ہوئے ہیں جنمیں مہدی، خاتم، منتظر، حجت، صاحب الامر، صاحب الزمان، قائم اور خلف صالح وغیرہ شامل ہیں۔
غیبت صغریٰ میں چاہنے والے اور شیعہ آپؑ کو ‘‘ناحیہ مقدسہ’’ کے لقب سے یاد کرتے تھے۔
امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور اور قیام کو صرف شیعہ ہی نہیں بلکہ اہل سنت بھی مانتے ہیں ۔حتیٰ غیر مسلم بھی یہ مانتے ہیں کہ آخری زمانے میں جب دنیا ظلم وجور سے بھر جائے گی تو انسانیت کو نجات دلانے والا ایک منجی آئے گا۔
جیسے کتاب تورات میں اشعیای نبی فصل 11 میں ذکر ہوا ہے کہ ‘‘وہ مسکینوں میں عدالت سے فیصلے کرے گا اور مظلومین کے حق میں حکم کرے گا ۔۔۔ بھیڑیا اور بھیڑ اکٹھے زندگی بسر کریں گے اور چیتا، بچھڑے کے ساتھ سوئے گا اور چھوٹے بچے شیر سے کھیلا کریں گے، وہ مقدس پہاڑ میں ضرر و فساد نہیں کریں گے کیونکہ دنیا معرفت خداوند سے بھر جائے گی۔’’
کتاب عہد عتیق، كتاب مزامير ، مزمور 37 میں ایسا ذکر ہوا ہے کہ ‘‘کیونکہ شیطان صفت انسان ختم ہو جائیں گے اور خداوند کے منتظر، زمین کے وارث ہو جائیں گے، بے شک تھوڑی مدت کے بعد ظالم باقی نہیں رہیں گے، انکی جگہ کے بارے میں غور کرو گے تو وہ وہاں نہیں ہوں گے، بہرحال حلیم اور نیک لوگ زمین کے وارث ہوں گے اور وہ قیامت تک وارث رہیں گے۔’’
قرآن کریم نے بھی اسی جانب اشارہ کیا ہے۔
وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ
(سورہ انبیاء، آیت ۱۰۵)
‘‘اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے۔’’
کتاب انجیل لوقا ، فصل 12 میں ذکر ہوا ہے کہ ‘‘اپنی کمر کس کر چراغوں کو جلائے رکھنا اور تم ان لوگوں کی طرح رہو کہ جو اپنے آقا و سردار کا انتظار کرتے ہیں کہ وہ شادی سے کس وقت واپس آئیں گے، تا کہ وہ جب بھی آ کر دروازے پر دستک دیں تو تم فورا انکے لئے دروازے کو کھول دو، خوش قسمت ہیں وہ خادم و غلام کہ جب انکے آقا و سرادر آئیں تو وہ انکو بیدار و تیار پائیں، پس تم بھی تیار رہو کیونکہ تمہارے گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ انسان کا بیٹا کب آئے گا۔’’
اسی طرح اہل سنت کی کتب صحاح ستہ میں بھی امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کا تذکرہ ہے۔
افضل العبادة انتظار الفرج
سب سے افضل عبادت انتظار فرج ہے۔ (سنن ترمذی، جلد 5، صفحہ 528)
کتب اہل سنت میں ظہور کے حتمی ہونے کا بھی ذکر ہوا ہے۔
‘‘اگر دنیا کے ختم ہونے میں صرف ایک دن باقی رہ گیا ہو تو خداوند اس دن کو اتنا طولانی کرے گا تا کہ میرے اہل بیت میں سے ایک میرا ہمنام شخص مبعوث ہوگا جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جیسے کہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی۔’’ (سنن ترمذی، جلد4، صفحہ 438)
‘‘دنیا ختم نہیں ہو گی جب تک میرے اہل بیت میں سے ایک شخص عرب پر حکومت نہ کرلے کہ وہ شخص میرا ہمنام ہو گا۔’’ (سنن ترمذی، جلد 4، صفحہ 438)
‘‘اگر دنیا کے ختم ہونے میں صرف ایک دن باقی رہ گیا ہو تو خداوند اس دن کو اتنا طولانی کرے گا تا کہ میرے اہل بیت میں سے ایک میرا ہمنام شخص مبعوث ہو گا کہ جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جیسے کہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی۔’’ (سنن ابی داؤد، جلد 4، صفحہ 106)
المهديّ منّا أهل البيت
‘‘مہدیؑ ہم اہلبیت میں سے ہیں۔ ’’ (سنن ابن ماجہ، جلد 2، صفحہ 1367)
اس روایت سے واضح ہے کہ اہل سنت بھی مانتے ہیں کہ امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف اہلبیت میں سے ہیں۔
المهدي من ولد فاطمه
‘‘مہدی ؑ نسل فاطمہ ؑ سے ہوں گے۔ ’’ (سنن ابن ماجہ ، جلد 2، صفحہ 1368)
المهديّ من عترتي من ولد فاطمه
‘‘مہدی میری عترت اور اولاد فاطمہ میں سے ہیں’’ (سنن ابی داود، کتاب المہدیؑ، ح 4284)
مذکورہ روایتوں سے واضح ہے کہ امام مہدیؑ کا تعلق اہلبیت رسولؐ اور نسل بتولؑ سے ہے۔
المختصر شیعہ و سنی سب مانتے ہیں کہ امام مہدی علیہ السلام ظہور کریں گے، آپ ؑ نسل رسول ؐ و بتولؑ سے ہوں گے۔ نیز یہ بھی مانتے ہیں کہ امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول فرمائیں گے۔
كيف انتم اذا نزل ابن مريم فيكم و امامكم منكم
‘‘رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: تمہارا اس وقت کیا حال ہو گا جب مریم کا بیٹا تم میں نازل ہو گا اور تمہارا امام تم میں سے ہو گا۔’’ (صحیح بخاری، جلد 4، صفحہ 205)
‘‘پھر عیسی ابن مریم نازل ہوں گے، انکا سردار ان سے کہے گا: آئیں اور ہمیں نماز پڑھائیں (یعنی امام جماعت بنیں) وہ کہیں گے: نہیں، تم میں سے بعض ایک دوسرے پر امیر و حاکم ہیں کیونکہ خداوند نے اس امت کو محترم بنایا ہے۔’’ (صحیح مسلم، جلد 1، کتاب الایمان ، باب 71، صفحہ 137، سنن ابن ماجہ، جلد 2، صفحہ 1361)
لیکن اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ دیگر مکاتب فکر کے لوگوں کا ماننا ہے کہ امام مہدی ؑ ابھی پیدا نہیں ہوئے، وہ آخری زمانے میں پیدا ہوں گے، امام حسن علیہ السلام کی نسل کے سید ہوں گے ، ان کے والد کا نام عبداللہ ہوگا۔ لیکن ہم شیعوں کا عقیدہ ہے کہ ہمارے ولی و وارث امام مہدی علیہ السلام 15؍ شعبان المعظم سن 255 ہجری کو سامرا میں پیدا ہو چکے ہیں ۔ جیسا کہ جناب شیخ صدوق ؒ نے اپنی کتاب کمال الدین ، جلد 2، باب 42 میں، جناب شیخ طوسیؒ نے اپنی کتاب الغیبہ صفحہ 238 میں مرقوم فرمایا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کی پھوپھی جناب حکیمہ سلام اللہ علیہا نے فرمایا:
‘‘امام حسن عسکریؑ نے مجھ [حکیمہ خاتون] کو بلوا کر فرمایا: پھوپھی جان! آج آپ ہمارے یہاں قیام کریں کیونکہ نیمہ شعبان (پندرہ شعبان ) کی شب ہے اور خداوند متعال آج رات اپنی حجت کو ـ جو روئے زمین پر اس کی حجت ہے ـ ظاہر فرمائے گا۔ میں نے عرض کیا: ان کی ماں کون ہے؟ فرمایا: نرجس خاتون، میں نے عرض کیا: میں آپ پر قربان ہوجاؤں، ان میں حمل کا کوئی اثر نہیں ہے۔ فرمایا: بات وہی ہے جو میں آپ سے کہہ رہا ہوں۔
جناب حکیمہؑ کا بیان ہے کہ میں آئی ، سلام کیا اور بیٹھ گئی تو نرجس آئیں اور میری جوتیاں اٹھا لی اور مجھ سے کہا: اے میری سیدہ اور میرے خاندان کی سیدہ! آپ کا کیا حال ہے؟ میں نے کہا: تم میری اور میرے خاندان کی سیدہ ہو۔ نرجس میرے اس کلام سے ناراض ہوئیں اور کہنے لگیں: پھوپھی جان! یہ کیا بات ہوئی؟ میں نے کہا: میری بیٹی! خداوند متعال تمہیں ایسا فرزند عطا کرے گا جو دنیا اور آخرت کا سید و سردار ہے۔ نرجس شرما گئیں اور حیا کر گئیں۔ میں نے نماز ادا کی۔ روزہ افطار کیا اور اپنے بستر پر لیٹ گئی۔ آدھی رات کو نماز شب کے لئے اٹھی اور نماز پڑھ لی؛ اس وقت نرجس سو رہی تھیں۔ میں نماز کے بعد کے اعمال کے لئے بیٹھ گئی اور پھر سو گئی اور خوفزدہ ہوکر جاگ اٹھی؛ وہ ابھی سو رہی تھیں؛ چنانچہ اٹھیں اور نماز شب پڑھ کر سو گئیں۔
جناب حکیمہ فرماتی ہیں کہ میں باہر آئی اور فجر کی تلاش میں آسمان کی طرف دیکھا تو فجر اول طلوع ہو چکی تھی اور وہ ابھی سو رہی تھیں، میرے دل میں شک پیدا ہوا کہ اچانک امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنے حجرہ سے آواز دی کہ پھوپھی جان! عجلت سے کام نہ لیں، کیونکہ امر قریب ہوچکا ہے۔ یہ سننا تھا کہ میں بیٹھ گئی اور سورہ سجدہ اور سورہ یس کی تلاوت میں مصروف ہو گئی کہ اچانک جناب نرجس خاتون ہراساں ہو کر اٹھیں اور میں فورا ان کے پاس پہنچی اور ان سے کہا: آپ پر اللہ کی رحمت ہو، کیا کچھ محسوس ہورہا ہے؟ کہنے لگیں: پھوپھی جان! ہاں محسوس کر رہی ہوں۔ میں نے کہا: خود پر قابو کریں اور دل مضبوط رکھیں کیونکہ وہی ہونے جا رہا ہے جو میں نے کہا تھا۔ جناب حکیمہ کہتی ہیں: مجھ پر بھی اور نرجس پر بھی ضعف طاری ہوا اور اپنے سید و سردار (امام عسکریؑ) کی آواز پر میری جان میں جان آئی اور کپڑا ان کے چہرے سے اٹھایا اور اچانک میں نے اپنے سید و سرور (اما م مہدیؑ) کو دیکھا جو حالت سجدہ میں تھے اور آپ کے ساتوں اعضائے سجدہ زمین پر تھے۔ میں نے آپؑ کو آغوش میں لیا تو دیکھا کہ پاک و پاکیزہ ہیں۔
امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: پھوپھی جان! میرے فرزند کو میرے پاس لائیں، میں آپؑ کو امامؑ کے پاس لے گیی؛ امامؑ نے اپنے پاؤں کو پھیلایا اور فرزند کو پاوں کے درمیان قرار دیا اور آپؑ کے پیروں کو اپنے سینے پر رکھا اور پھر اپنی زبان مبارک ان کے منہ میں رکھ دی اور اپنا ایک ہاتھ آپؑ کی آنکھوں، کانوں اور بدن کے جوڑوں پر پھیرا اور فرمایا: ائے میرے نور نظر بولو تو امام مہدیؑ نے فرمایا: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ۔ وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللہِ اس کے بعد امیرالمومنین علیہ السلام سے لے کر امام حسن عسکری علیہ السلام تک ہر امام پر صلوات پڑھی۔
حضرت امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف پانچ سال اپنے والد ماجد کے زیر سایہ پروان چڑھے اور اس مدت میں امام حسن عسکری علیہ السلام نے خاص لوگوں کو آپؑ کی زیارت کرائی۔ جب 8؍ ربیع الاول سن 260 ہجری کو امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت ہوئی تو امامت کی ذمہ داری آپؑ پر آئی ۔
سن 260 ہجری سے 15؍ شعبان سن 329 ہجری تک غیبت صغریٰ ہوئی جنمیں یکے بعد دیگرے چار نائب خاص نے آپؑ کی نیابت فرمائی اور اس کے بعد سے اب تک غیبت کبریٰ کا زمانہ ہے اور جب حکم خدا ہو گا تو آپؑ ظہور فرمائیں گے۔
خدایا! امام زمانہؑ کے ظہور میں تعجیل فرما۔ آمین