تحریر: مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی
حوزہ نیوز ایجنسی | امام مہدی علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر کائنات کا ذرہ ذرہ خوشی سے جھومنے لگتا ہے اور اپنےخالق کا شکر ادا کرنے کے لیے اس کی عبادت میں سرگرم ہوجاتاہے۔مسلمان ولادت کی شب کو ایک خاص اہمیت دیتے ہیں جس میں اللہ کی عبادت اور مخصوص اعمال کے بجا لانے کو سعادت محسوس کرتے ہیں۔ شیعہ مسلمان عبادت اور اعمال کے ساتھ ساتھ منجی عالم کے ظہور کی دعا بھی کرتے ہیں۔ جبکہ امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کا عقیدہ فقط شیعہ مسلمانوں سے ہی مختص نہیں ہے بلکہ عالمی عقیدہ ہے کہ ایک دن منجی بشریت دنیا میں عدل و انصاف قائم کریں گے۔ آسمانی ادیان کے ماننے والے اپنی اپنی کتابوں کی تعلیمات کی بنیاد پر حجت خدا اور دنیا میں انصاف قائم کرنے والے کے منتظر ہیں۔ تمام آسمانی اور مقدس کتابوں میں امام مہدی کے ظہور کی طرف اشارہ ہوا ہے البتہ ہر قوم و ملت نے امام مہدی کو الگ الگ زبان میں الگ الگ نام سے یاد کیاہے جیسے عیسائیوں نے ”مسیح موعود“ آتش پرستوں نے ”سوشیانس“ یعنی دُنیا کو نجات دینے والےاور یہودیوں نے ”سرور میکائلی“ کے نام سے یاد کیا ہے۔
( ادیان و مہدویت، ص ۱۲)
امام مہدی کے ظہور سے متعلق مسلمانوں کے عقائد کی کتابوں میں بے شمار احادیث موجود ہیں ہم یہاں پر ایک حدیث نقل کر رہے ہیں:
آنحضرت (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا:”میری نسل سے ایک شخص قیام کرے گا جس کا نام اور سیرت مجھ سے مشابہ ہو گی، وہ (دُنیا کو) عدل و انصاف سے بھر دے گا جیسا کہ وہ ظلم و ستم سے بھری ہو گی“۔
( معجم الکبیر، ج ۱۰، ح ۹۲۲، ص ۳۸)
جہاں نوع انسانی منجی عالم کا انتظار اور ان کے ظہور کی دعا کر رہی ہے وہیں ان سے دشمنی میں بھی کوئی کمی نہیں رکھی جا رہی ہے کیونکہ ظہور اور انتظار کی دعا اگر بغیر علم اور معرفت کے ہے تو امام سے دشمنی کی علامات ظاہر ہیں۔ کیونکہ امام عليہ السلام کو جاہل اور بے معرفت لوگوں سے مقابلہ کرنا پڑے گا۔ کیونکہ وہ لوگ کتاب خدا سے من گڑھت تاويلیں امام کے سامنے پیش کر یں گے اور اپنے کو حق پر سمجھیں گے۔ قرآن کریم سے تفسیر بالرائے اور تاویلات کرنے والا اپنے گمان میں قرآن پر عمل کرتا ہے اور وہ اصلاح کو قرآن کریم پر تنقید قرار دیتے ہوئے امامؑ کے خلاف اسی طرح کھڑاہوجائے گاجیسے خوارج اپنے کو حق پر گمان کرکے امام علیؑ کے مقابلے میں کھڑے تھے۔ امام کے مقابل جاہل ہی آسکتا ہے۔ جہالت دو طرح کی ہوتی ہے: ایک انسان جانتے ہوہے اپنی خواہشات نفسانی کی بناء پر انکار کرتاہے جیسے ابو جہل، وہ اپنے دور میں جديد علوم کا ماہر اور عالم شمار ہوتا تھا لیکن جاننے کے باوجود امام زمانہ عليہ السلام کا انکار کیا۔ اس طرح کی مثالیں ہر دور میں ملتی ہیں ان کو اپنے اپنے نفس اورمعاشرے میں تلاش کرنا ہوگا۔ جہالت کی دوسری قسم میں انسان حقیقی جاہل ہوتا ہے یا شک کا شکار ہوتا ہے کہ وہ ہیں بھی یا نہیں یا ظہور ہو گا بھی؟۔ چنانچہ ہرفرد کا وظیفہ ہے کہ اپنے کو ہرقسم کی جہالت سے دور رکھے۔ چنانچہ انسان کو تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے وقت کے امام کی معرفت حاصل کرنی ہوگی۔
اگر ایسا نہیں کیا تو وہ اپنے آپ کو امام کا مقابلہ کرنے کے لیے آمادہ کر رہا ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان کرچکا ہوں۔اس مطلب کی تائید میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک پُر معنی روایت منقول ہے جسے محدث نعمانی نے اپنی کتاب -غیبت نعمانی- میں نقل کیا ہے:
فُضَيْلِ بْنِ يَسَارٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللہ يَقُولُ: إِنَّ قَائِمَنَا إِذَا قَامَ اسْتَقْبَلَ مِنْ جَہْلِ النَّاسِ أَشَدَّ مِمَّا اسْتَقْبَلَہُ رَسُول اللہ ص مِنْ جُہّال الْجَاهِلِيَّةِ، قُلْتُ: وَكَيْفَ ذَاكَ ؟ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص أَتَى النَّاسَ وَهُمْ يَعْبُدُونَ الْحِجَارَةَ وَالصُّخُورَ وَالْعِيدَانَ وَالْخُشُبَ الْمَنْحُوتَةَ، وَإِنَّ قَائِمَنَا إِذَا قَامَ أَتَى النَّاسَ وَكُلُّهُمْ يَتَأَوَّلُ عَلَيْهِ كِتَابَ اللَّهِ يَحْتَجُّ عَلَيْهِ بِهِ، ثُمَّ قَالَ: أَمَا وَاللَّهِ لَيَدْخُلَنَّ عَلَيْهِمْ عَدْلُهُ جَوْفَ بُيُوتِهِمْ كَمَا يَدْخُلُ الْحَرُّ وَالْقُرُّ.
فضيل بن يسار کہتے ہيں ميں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سُنا کہ وہ فرماتے ہیں: بے شک ہمارے قائم (عج) جب قيام فرمائيں گے تو ان لو لوگوں کی جہالت کاکئی گنا شديد سامنا کرنا پڑے گا جتنا رسول اللہ (ص)کو زمانہ جاہلیت کے جاہلوں کاسامناکرنا پڑا تھا۔ ميں نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ امام (ع) نے فرمايا: رسول اللہ (ص) لوگوں كے درمیان تشريف لائے تو لوگ پتھروں، چٹانوں،درختوں اور لکڑی سے بنے ہوئے بتوں کی پرستش و عبادت كکرتے تھے، لیکن جب ہمارے قائم (عج) قيام فرمائيں گے تو وہ بھی لوگوں کے درمیان تشریف لائيں گے جبکہ تمام لوگ ان کے مقابلے میں کتاب الہی کی (من گڑھت) تأويليں پيش کر رہے ہوں گے اور اپنی تاویلوں پر کتابِ الہٰی سے دلیل قائم کریں گے۔ پھر امام (ع) نے فرمایا: قسم خدا کی! جس طرح (موسم کی)گرمی اور سردی لوگوں تک اور ان کے گھروں میں داخل ہوتی ہے اسی طرح قائم (عج) کا عدل ان لوگوں تک ان کے گھروں کے اندر داخل ہو جائے گا۔
(نعمانی، محمد بن ابراہیم، الغیبۃ، ص ۲۹۷، باب ۱۷، حديث ۱۔)
اگر دور حاضر کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے اس زمانہ میں جہالت، گمراہی، بے معرفتی۔ منجی عالم سے دوری اور دنیا کا ظلم و ستم سے پر ہونا دکھائی دیتا ہے لہذا اللہ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ پالنے والے تمام برائیوں خصوصاً ظلم و جور کا خاتمہ فرما، لوگوں کی ہدایت فرما ۔دنیا کو عدل و انصاف سے بھردے اور منجی بشریت امام مہدی علیہ السلام کا ظہور فرما۔ آمین والحمد لله رب العالمین