جمعہ 1 اگست 2025 - 16:38
اگر ظلم، ظہورِ موعود کا زمینہ ہے تو پھر اس سے جنگ کیوں؟

حوزہ/ظلم اور امام زمانہ (عج) کے ظہور کے درمیان تعلق پر ہمیشہ بحث و سوالات ہوتے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ظلم، ظہور کے لیے زمینہ ساز ہے یا انسانوں کی عدل و انصاف کے لیے قیام کی آمادگی کی نشانی ہے؟ کچھ غلط فہمیاں سماجی بے پرواہی کا باعث بن سکتی ہیں؛ تاہم دینی ماہرین کا کہنا ہے کہ ظلم کے خلاف جدوجہد، واقعی انتظار کا حصّہ ہے، نہ کہ ظہور میں رکاوٹ۔

حوزہ نیوز ایجنسی؛ دینی تعلیمات کے مطابق، امام زمانہ (عج) کے ظہور سے قبل کا دور ظلم و ستم سے بھرا ہوا ہو گا؛ یہ بات مختلف روایات میں آئی ہے، جن میں سے ایک مشہور حدیث، پیغمبر اکرم (ص) کی ہے: زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جیسے کہ وہ ظلم و جور سے بھری ہوئی ہو۔(بحار الأنوار، جلد 52، صفحہ 340)

لیکن سوال یہ ہے:

ہم دنیا کے ظلم سے بھرپور ہونے اور امام زمانہ (عج) کے ظہور کے درمیان تعلق کو کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ کیا ظلم کا بڑھنا ظہور میں جلدی کی وجہ ہے یا یہ صرف وہ حالات ہیں جن میں ظہور ہوگا؟

کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ظلم کے سامنے خاموش رہنا چاہیے، تاکہ ظہور کا زمینہ فراہم ہو؟ کیا ایسی سوچ ہمیں اپنی سماجی ذمہ داریوں اور بے عدالتی کے خلاف جدوجہد سے غافل کر سکتی ہے؟

ان سوالات کے جوابات، اخلاقی شبہات کے ماہر حجت الاسلام رضا پارچہ‌باف نے آیات اور احادیث کی روشنی اور عظیم علمائے کرام کے نظریات کے مطابق دئیے ہیں۔

بسم الله الرحمٰن الرحیم

ظلم ایک ضروری شرط ہے جو امام زمانہ (عج) کے ظہور کے لیے لازم ہے، لیکن یہ ظہور کا براہِ راست سبب نہیں ہے۔ رسولِ خدا کی مشہور حدیث ہے: یَمْلَأُ الْأَرْضَ قِسْطًا وَعَدْلًا کَمَا مُلِئَتْ ظُلْمًا وَجَوْرًا.

(بحارالأنوار، ج۵۲، ص۳۴۰)

علامہ طباطبائی اس حوالے سے فرماتے ہیں: ظلم سے دنیا کا بھر جانا ظہورِ امام زمانہ کے لیے زمینہ ہے، لیکن ظہور کا اصل سبب نہیں ہے۔ (المیزان، ج۱۲، ص۳۲۷)

ہمیں انفرادی اور سماجی ذمہ داریوں کے درمیان فرق کرنا چاہیے اور انفرادی طور پر غیبت کے دوران نہی عن المنکر اور امر بالمعروف کا عمل ضروری ہے (آل عمران:۱۱۰)۔ جبکہ سماجی طور پر غیبت کے دور میں، ایک عادلانہ نظام کے قیام کے لیے اقدامات کرنا ضروری ہوگا، تاکہ ظہور کے لیے زمینہ فراہم کیا جا سکے۔

مثال کے طور پر: ظہور سے پہلے امام حسین (ع) کا قیام؛ ظلم کے خلاف جدوجہد کا ایک نمونہ تھا۔ شہید مطہری نے "انتظار فعال" کے نظریے کو واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں: انتظار کا مطلب، ظلم کے خلاف جدوجہد کر کے ظہور کے لیے شرائط فراہم کرنا ہے۔ (قیام و انقلاب مہدی، ص۲۵)

اس بنیاد پر اجتماعی سرگرمیاں جیسے عدالت کے قیام کے لیے جدوجہد، اخلاقی تعلیمات اور فساد سے مقابلہ انتظار کے عملی مصادیق ہیں۔

نفی سبیل (نساء، 141) کے قاعدے کے مطابق، اسلامی معاشرے کی آزادی کی ظالموں کے تسلط سے حفاظت شرعی واجب ہے۔

امام صادق علیہ السّلام کا فرمان ہے: مَنْ أَصْبَحَ وَلَا یَهْتَمُّ بِأُمُورِ الْمُسْلِمِینَ فَلَیْسَ بِمُسْلِمٍ. مسلمانوں کے امور کا اہتمام نہ کرنے والا انسان اسلام کے دائرے سے خارج ہو جاتا ہے۔ (کافی، ج۲، ص۱۶۴)۔

لہٰذا ظلم ظہور کے لیے ایک ضروری شرط ہے، لیکن اس کے خلاف جدوجہد کرنا مؤمنین کی ذمہ داری ہے۔ظہور ظلم کے عوج میں ہوگا، لیکن اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ ہم ظلم کی تشویق کریں، بلکہ اس کا مطلب ہے کہ عدالت کا بول بالا برے حالات میں بھی حتمی ہے۔امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی اسلامی حکومت کی بنیاد بھی ظہور کی تیاری کا ایک نمونہ ہے۔

نتیجتاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ ظلم، ظہور کی زمینہ سازی کی ضرورت ہے نہ کہ اس کی فاعلی علت۔ظلم کے خلاف جدوجہد، انتظار فرج کے مصادیق میں سے ہے اور ظلم پر خاموش رہنا حرام ہے۔

طاقت کے مطابق، عدالت پسندی شرعی واجبات میں سے ایک ہے۔شہید صدر رحمۃ اللّٰہ علیہ کے فرمان کے مطابق، انتظار، بیداری کا نتیجہ ہے نہ کہ خواب کا گوہر۔ظلم کے خلاف ہر اقدام، ظہور کی جانب ایک قدم ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha