حوزہ نیوز ایجنسی کے نمائندہ سے گفتگو کے دوران حوزہ علمیہ آذربائیجان شرقی تبریز میں تبلیغی اور ثقافتی امور کے سرپرست حجت الاسلام والمسلمین ذاکر قاسم زادہ نے عقیدۂ انتظار کی ثقافت کے مختلف پہلوؤں اور دور غیبت میں شیعہ معاشرے کی ذمہ داریوں کو بیان کیا اور اس دور میں زندگی کو ذمہ داری قبول کرنے اور جہادی حرکت کا تقاضا قرار دیا۔
انہوں نے قرآن کریم کی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے دور غیبت کو بڑے الٰہی امتحانات میں سے ایک کا مقدمہ قرار دیا اور کہا: جیسا کہ خداوند سورہ عنکبوت کی آیت نمبر ۲ میں فرماتا ہے: "کیا لوگوں نے گمان کیا کہ صرف یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لائے، وہ چھوڑ دیے جائیں گے اور ان کا امتحان نہیں ہوگا؟" غیبت کا زمانہ بھی مؤمنین کی ولایت اور دینی تعلیمات کے ساتھ صداقت، صبر اور وفاداری پرکھنے کا پیمانہ ہے۔ یہ زمانہ اگرچہ ظاہراً حجت خدا سے دوری کا ہے، لیکن حقیقت میں خودسازی، روحانی بلندی اور مهدوی عادلانہ عالمی معاشرے کی تیاری کے لیے ایک بے مثال موقع ہے۔
حجت الاسلام والمسلمین قاسم زادہ نے انتظارِ منفعل اور انتظارِ فعال کے درمیان فرق کو واضح کرتے ہوئے کہا: انتظار مکتب تشیع میں ہرگز ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے کا نام نہیں ہے، بلکہ ہماری روایات میں اسے بہترین اعمال میں شمار کیا گیا ہے۔ پس مهدویت یعنی ایک "روشن مستقبل" انتظار میں ہے۔
انہوں نے مزید کہا: انتظار کا یہ بلند مقام اس بات کی علامت ہے کہ منتظر ہونا یعنی کوشش کرنا، ذمہ داری اٹھانا اور امام عصر علیہ السلام کے مقاصد کی راہ میں قدم بڑھانا۔ ایک حقیقی منتظر اپنی زندگی کو ایسے منظم کرتا ہے جیسے وہ ہر لمحہ ظہور کے دہانے پر کھڑا ہو۔









آپ کا تبصرہ