تحریر: مولانا عقیل رضا ترابی،مدرسہ بنت الہدیٰ، ہریانہ الہند
حوزہ نیوز ایجنسی| تاریخِ اسلام کی روشنی میں ہر امام کی حیات ایک نئے باب کی حیثیت رکھتی ہے۔ کبھی یہ باب جہاد و شجاعت کا آئینہ دار ہے، کبھی علم و حکمت کا سرچشمہ اور کبھی صبر و سکوت کے پردے میں عظیم الٰہی حکمت کا حامل۔ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام (۲۳۲ھ – ۲۶۰ھ) کی امامت اگرچہ صرف چھ سال پر محیط رہی، لیکن یہی مختصر سا دور شیعہ تاریخ میں ایک عظیم موڑ اور فیصلہ کن سنگِ میل ہے۔ یہی وہ زمانہ ہے جس نے غیبتِ امام مہدی علیہ السلام کی بنیاد کو مضبوط کیا اور امت کو نئے عہد کے لئے تیار کیا۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:> "وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ"(القصص: 5)
یہ آیت وعدۂ الٰہی کی نشاندہی کرتی ہے کہ مظلوم و محروم جماعت کو قیادت اور وراثت عطا ہوگی۔ یہی وعدہ غیبت و ظہور کی حکمت میں جھلکتا ہے۔
سیاسی و سماجی حالات
امام عسکری علیہ السلام کے دور میں عباسی خلافت اندرونی انتشار اور عوامی نارضایتی کا شکار تھی۔ حکمران جانتے تھے کہ حقیقی قیادت آلِ محمد علیہم السلام کے پاس ہے، اسی لئے انہوں نے امام کو سامرہ کی فوجی چھاؤنی (عسکر) میں سخت نظر بندی میں رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو "عسکری" کہا جاتا ہے۔
مؤرخ ابن اثیر اور شیخ مفید بیان کرتے ہیں کہ عباسی خلیفہ معتمد باللہ نے امام پر کڑی نگرانی رکھی، کیونکہ اسے خوف تھا کہ موعودِ امم، وہ مہدی موعود، امام عسکری علیہ السلام کے گھر سے ظاہر ہوں گے۔ (الارشاد، شیخ مفید، ج۲، ص۳۳۶)
علمی و فکری قیادت
قید و نظر بندی کے باوجود امام عسکری علیہ السلام نے اپنے علم و حکمت کی روشنی کو بجھنے نہیں دیا۔ آپ نے مکاتیب اور خفیہ رابطوں کے ذریعے اپنے شیعوں کو ہدایت عطا کی۔ تفسیرِ قرآن پر آپ کے اشارات اور اخلاقی نصائح آج بھی علمی سرمایہ ہیں۔
شیخ صدوق نے اپنی کتاب کمال الدین و تمام النعمة میں نقل کیا ہے کہ امام عسکری علیہ السلام نے اپنے اصحاب کو بارہا متوجہ کیا کہ غیبت کا زمانہ قریب ہے اور اس کے لئے فکری و عملی آمادگی ضروری ہے۔
نظامِ وکالت اور غیبت کی تمہید
امام حسن عسکری علیہ السلام نے غیبت کی تیاری کے لئے "نظامِ وکالت" قائم فرمایا۔ یہ وہ نیابت کا سلسلہ تھا جس میں منتخب نمائندے (وکلاء) شیعہ معاشرے کے مسائل کو امام تک پہنچاتے اور امام کی ہدایات لوگوں تک منتقل کرتے۔ انہی وکلاء کی تربیت نے بعد میں "نوابِ اربعہ" کی بنیاد رکھی اور غیبتِ صغریٰ کا نظام قائم ہوا۔
اہم وکلاء و نواب یہ ہیں:
1. عثمان بن سعید عَمری
2. امام ہادی و امام عسکری علیہما السلام کے خاص وکیل، بعد میں امام مہدی علیہ السلام کے پہلے نائبِ خاص۔
2. محمد بن عثمان بن سعید عثمان بن سعید کے فرزند، امام مہدی علیہ السلام کے دوسرے نائبِ خاص۔
3. ابو سهل نوبختی
4. عباسی دربار میں علمی و کلامی حیثیت کے حامل، شیعہ فکر کی مضبوطی میں نمایاں کردار ادا کیا۔
4. احمد بن اسحاق قمی
5. اہلِ قم کے بزرگ عالم، امام عسکری علیہ السلام کے خاص اصحاب اور وکیل۔
5. حسین بن روح نوبختی امام مہدی علیہ السلام کے تیسرے نائبِ خاص، وسیع اثر و رسوخ کے حامل۔
6. علی بن محمد سمری
7. امام مہدی علیہ السلام کے چوتھے نائبِ خاص؛ آپ کی وفات کے ساتھ ہی غیبتِ کبریٰ کا آغاز ہوا۔
یہ سب حضرات امام حسن عسکری علیہ السلام کی براہِ راست نگرانی اور رہنمائی میں تیار ہوئے، اور انہی کے ذریعے امت کو غیبت کے دور کے لئے ذہنی و عملی طور پر آمادہ کیا گیا۔
غیبت کا سنگِ بنیاد
امام عسکری علیہ السلام نے اپنے اصحاب کو فرمایا:> "إِنَّ ابْنِي هَذَا هُوَ الْقَائِمُ بَعْدِي، وَهُوَ الَّذِي يَجْرِي فِيهِ سُنَنُ الْأَنْبِيَاءِ فِي الْغَيْبَةِ"(کمال الدین، شیخ صدوق، ج۲، ص۴۳۴)
یعنی میرا یہ فرزند (مہدی) ہی میرے بعد قائم ہے اور اس میں انبیاء کی سنت غیبت جاری ہوگی۔
یہ ارشاد غیبت کے نظریے کو مضبوط اور مستند بناتا ہے۔ آپ نے اپنے فرزند امام مہدی علیہ السلام کی ولادت کو رازدارانہ رکھا تاکہ دشمنانِ دین اس چراغِ ہدایت کو بجھا نہ سکیں، لیکن اپنے خاص اصحاب کو اس عظیم امانت کی معرفت عطا کی تاکہ امت گمراہی میں نہ پڑے۔
شیعی معاشرہ اور عملی ذمہ داریاں
غیبت کے دور کے لئے امام عسکری علیہ السلام نے ایمان، تقویٰ، صبر اور انتظارِ فرج پر زور دیا۔ آپ نے فرمایا:> "اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا زَيْناً وَلا تَكُونُوا شَيْناً"(تحف العقول، ص 489) یعنی اللہ سے ڈرو، زینت بنو اور باعثِ ننگ نہ بنو۔
یہی اصول دورِ غیبت میں شیعی فرد اور معاشرے کے کردار کی بنیاد ہیں۔
غیبت اور آزمائش
غیبت کا زمانہ امت کے لئے صرف پردہ پوشی کا دور نہیں بلکہ ایک کڑی آزمائش ہے۔ امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا کہ اس وقت میں دین پر ثابت قدم رہنا دہکتے انگارے کو ہاتھ میں تھامنے کے مترادف ہوگا۔ (بحار الانوار، علامہ مجلسی، ج۵۱، ص۱۵۹)
یوں کہا جاسکتا ہے کہ امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنی الٰہی بصیرت کے تحت غیبت کے نظام کی وہ بنیادیں فراہم کیں جن پر آج شیعہ عقیدۂ مہدویت قائم ہے۔ آپ نے اپنی امت کو غیبت کے دور کے لئے فکری، روحانی اور تنظیمی طور پر تیار کیا اور اپنے فرزند امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کو امت کے دل و دماغ میں راسخ کیا۔
ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم امام عسکری علیہ السلام کی تعلیمات کو حرزِ جاں بنائیں، اپنے کردار کو سنواریں اور امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے حقیقی منتظر بنیں۔ یہی غیبت کے سنگِ بنیاد کا پیغام ہے اور یہی مومنانہ حیات کی اصل روح۔









آپ کا تبصرہ