تحریر: مولانا سید رفاقت علی کاظمی
حوزہ نیوز ایجنسی| 8 ربیع الاول 260 ہجری قمری مطابق 4 جنوری 874 عیسوی کو خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گیارہویں وصی امام حسن عسکری علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت اور خاتم الوصیین امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی امامت کے آغاز کا دن ہے جو کہ "عید زہراء" کے نام سے بھی مشہور ہے اور اس میں رونما ہونے والے حادثے کا شمار شیعیت کی تاریخ کے اہم ترین واقعات میں ہوتا ہے۔
بہت زمانے سے شیعوں کے یہاں یہ رسم چلی آ رہی ہے کہ ۹ ربیع الاول کو وہ امام مھدی علیہ السلام کی امامت کے آغاز کا جشن مناتے رہے ہیں۔
درج ذیل مضمون کو کہ جس کا مقصد روئ زمین پر خدا کی آخری حجت کی شخصیت کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی اور ان کے تئیں اظہار عقیدت ہے آنحضرت کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
امید ہے کہ غیبت کے پردے میں پنہاں اس عزیز کی یاد کو ہم ہمیشہ اپنے دلوں میں زندہ رکھیں اور اس تقدیر ساز دور میں اپنی بھاری ذمہ داریوں سے غفلت نہ برتیں ۔
امامت کی اصل
امامت اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی جانشینی کا مسئلہ تاریخ کے ہر دور میں مسلمانوں کے درمیان ایک اہم اعتقادی مسئلے کے عنوان سے بحث کا موضوع رہا ہے ۔شیعوں کے زاویہء نگاہ سے آسمانی کتابوں کےنزول اور الہی پیغمبروں کے ارسال کے مقاصد اس وقت مکمل طور پر حاصل ہوں گے کہ جب نبوت کے خاتمے کے بعدامام معصوم کا تقرر عمل میں آجائے ۔امام کے اندر وحی کو دریافت کرنے کے علاوہ پیغمبر کی تمام خصوصیتیں موجود ہوں ،کہ جو اپنی ولایت تکوینی (یعنی نظام ہستی میں تصرف پر قادر ہونے ) اور ولایت تشریعی (آیات و احکام الہی کی تبیین و تفسیر ) کے ذریعے ،اور موجودہ کمیوں کو دور کر کے انسان کے روحانی کمال تک پہنچنے کا راستہ ہموار کرتا ہے ۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سال دس ہجری میں آخری حج سے واپسی کے موقع پر آیہ:" الْيوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا"(المائدة/3) کے نازل ہونے کے بعد خداوند عالم کی جانب سے مامور ہوئے کہ ایک مقام پر کہ جس کا نام غدیر خم ہے، حضرت علی علیہ السلام کے مقام شاہ ولایت و سیدالاوصیاء پر منصوب کیے جانے سے لوگوں کو آگاہ کریں ۔ابو جعفر محمد بن جریر طبری ،اہلسنت کا نامور مفسر اور مورخ اس واقعے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے : پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غدیر خم کے مقام پر فرمایا : جبرئیل خداوند کی جانب سے حکم لائے ہیں کہ میں اس مقام پر ٹھہروں اور ہر سیاہ و سفید کو یہ بتا دوں کہ علی ابن ابی طالب، میرا بھائی ،میرا وصی ،میرا جانشین اور میرے بعد امام ہے ۔ البتہ جو کچھ کہا گیا ہے اس کا تعلق سب کے سامنے سرکاری اعلان کرنے اور لوگوں سے بیعت لینے سے ہے ؛ اس لیے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رسالت کے دور میں بارہا اماموں کی تعداد بتا کر اور ان کے نام لے کر مسئلہء امامت کی تبیین کی تھی، جس وقت آیہ:" يا أَيهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ "(النساء/59) نازل ہوئی ،تو جابر ابن عبد اللہ انصاری نے رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا : "اولی الامر" کہ جن کی اطاعت کا حکم آپ کی اطاعت کے بعد آیا ہے وہ کون لوگ ہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : وہ میرے جانشین اور میرے بعد مسلمانوں کے پیشوا ہیں ؛ان میں سب سے پہلے حضرت علی ابن ابی طالب اور ان کے بعد ان کے فرزند حسن اور انکے بعد حسین، انکے بعد علی ابن الحسین ، انکے بعد محمد بن علی جوکہ تورات میں باقر کےنام سے معروف ہیں اور اے جابر تم اسے دیکھو گے اور جب ملو تو ان تک میرا سلام پہچانا انکے بعد جعفر بن محمد صادق، انکے بعد موسی بن جعفر انکے بعد علی ابن موسی انکے بعد محمد بن علی انکے بعد علی بن محمد انکے بعد الحسن بن علی " ثُمَّ سَمِیی وَ کنِیی حُجَّةُ اللَّهِ فِی أَرْضِهِ وَ بَقِیتُهُ فِی عِبَادِهِ ابْنُ الْحَسَنِ بْنِ عَلِی " اس کے بعد محمد کے ہمنام اور ہم کنیت رکھنے والا لوگوں کے لیےاللہ کی حجت اور اللہ کا باقی رکھا ہوا حسن بن علی علیہ السلام ہے جس کے ہاتھوں اللہ مشرق و مغرب کو فتح کرے گا اور وہ اپنے ماننے والوں سے پردہ غیب میں ہے اسطرح کہ امامت کے عقیدے پر [شک کرنے کے بنا پر]باقی رہنے والے نہیں رہیں گے مگر وہ کہ اللہ نے جن کے دلوں کو ایمان سے آزمایا ہے۔
«عَنْ جَابِرٍ الْأَنْصَارِی قَالَ سَأَلْتُ النَّبِی صلّی اللَّه علیه و آله عَنْ قَوْلِهِ" یا أَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا أَطِیعُوا اللَّهَ وَ أَطِیعُوا الرَّسُولَ" عَرَفْنَا اللَّهَ وَ رَسُولَهُ فَمَنْ "أُولِی الْأَمْرِ" قَالَ هُمْ خُلَفَائِی یا جَابِرُ وَ أَئِمَّةُ الْمُسْلِمِینَ بَعْدِی أَوَّلُهُمْ عَلِی بْنُ أَبِی طَالِبٍ (علیه السلام) ثُمَّ الْحَسَنُ، ثُمَّ الْحُسَینُ ثُمَّ عَلِی بْنُ الْحُسَینِ ثُمَّ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِی الْمَعْرُوفُ فِی التَّوْرَاةِ بِالْبَاقِرِ وَ سَتُدْرِکهُ یا جَابِرُ فَإِذَا لَقِیتَهُ فَأَقْرِئْهُ مِنِّی السَّلَامَ ثُمَّ الصَّادِقُ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ثُمَّ مُوسَی بْنُ جَعْفَرٍ ثُمَّ عَلِی بْنُ مُوسَی ثُمَّ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِی ثُمَّ عَلِی بْنُ مُحَمَّدٍ ثُمَّ الْحَسَنُ بْنُ عَلِی ثُمَّ سَمِیی وَ کنِیی حُجَّةُ اللَّهِ فِی أَرْضِهِ وَ بَقِیتُهُ فِی عِبَادِهِ ابْنُ الْحَسَنِ بْنِ عَلِی الَّذِی یفْتَحُ اللَّهُ عَلَی یدِهِ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَ مَغَارِبَهَا ذَاک الَّذِی یغِیبُ عَنْ شِیعَتِهِ غَیبَةً لَا یثْبُتُ عَلَی الْقَوْلِ فِی إِمَامَتِهِ إِلَّا مَنِ امْتَحَنَ اللَّهُ قَلْبَهُ بِالْإِیمَانِ؛ (بحارالأنوار، ج 23، ص 290.)
حضرت مہدی عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف کی خصوصیات
نبوت کے خاتمے کے بعد انسان کے لیے واقعی کمال کا حصول ،ہر زمانے کے امام کی ہدایات کی پیروی سے وابستہ ہے ،اور پیروی بھی امام کی معرفت اور شناخت کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ اس بنا پر افراد کے فردی اور اجتماعی تکامل کی راہ میں آئمہء اطہار علیھم السلام کے اوصاف کی معرفت اور صحیح ایمان کا وجود اہمیت کے حامل ہیں ،اس وجہ سے کہ مختلف الفاظ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کی گئی ہے کہ: " مَنْ ماتَ وَ لَمْ يَعْرِفْ إمامَ زَمانِهِ ماتَ مَيْتَةً جاهِلِيَّةً "(وسائل الشيعه، ج 16، ص 246). جو شخص مر جائے اور اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانتا ہو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔
الف ) حضرت مہدی علیہ السلام کا نسب
امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے امام اور پدر بزرگوار گیارہویں امام المومنین وارث المرسلین و حجت رب العالمین امام حسن عسکری علیہ السلام سال ۲۳۲ ھ قمری میں مدینے میں پیدا ہوئے تھے اور سال ۲۶۰ ھ قمری میں سامراء میں شہید ہوئے ۔
امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی والدہ نرجس خاتون ہیں جو باپ کی طرف سے مشرقی روم کے قیصر کے بیٹے "یشوعا" کی بیٹی ہیں اور ماں کی جانب سے حضرت عیسی کے ایک حواری "شمعون" کی نواسی ہیں کہ جو ایک معجزے کی مانند واقعے میں روم سے مدینے منتقل ہوئیں اور اس کے بعد دسویں امام المومنین و ارث المرسلین و حجت رب العالمین امام ھادی علیہ السلام کے گھر میں حکیمہ خاتون کی نگرانی میں کہ جو امام جواد علیہ السلام کی بیٹی ہیں اسلامی احکام سے واقف ہوئیں ۔اس کے بعد امام ھادی علیہ السلام نے ان کی شادی حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سے کروا دی اور اس طرح اس پاک دامن بی بی کو مہدی آل محمد علیہ السلام کی ماں بننے کا شرف حاصل ہوا، یہ پرہیز گار خاتون ایک روایت کی بنا پر سال ۲۶۱ ھجری میں اور دوسری نقل کی بنا پر امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت سے ایک سا ل پہلے دنیا سے رحلت کر گئیں، اس پرہیز گار خاتون کی قبر مبارک سامراء میں گیارہویں امام علیہ السلام کے مرقد کے پاس ہے ۔
ب ) امام مہدی علیہ السلام کی ولادت
خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اوصیاء النبی آئمہء اطہار علیھم السلام کی امام مھدی علیہ السلام کے بارے میں نقل شدہ متعدد روایات کی بنا پر عباسی خلفا ء اس حقیقت سے مکمل طور پر آگاہ تھے کہ جلد ہی خاندان اہل بیت علیھم السلام میں ایک بچہ پیدا ہو گا کہ جو انسانی معاشروں سے ظلم و فساد کی بساط کو لپیٹ دے گا ۔اس بنا پر عباسی حکام نے نویں امام علیہ السلام کے بعد سے اماموں پر کڑی نظر رکھنا شروع کر دی ۔یہاں تک کہ امام ھادی علیہ السلام اور ان کے فرزند امام حسن عسکری علیہ السلام کو مدینے سے عباسی حکومت کے مرکز سامراء میں منتقل کر دیا ،تاکہ ان کے اعمال پر نظر رکھ سکیں ۔اس دباو کا سلسلہ گیارہویں امام علیہ السلام کے دور میں اپنے اوج کو پہنچ گیا اور حضرت کے شیعوں کے ساتھ رابطے کو بالکل محدود کر دیا ۔عباسی حکمرانوں نے کئی بار آپ کو جیل بھیجا اور کبھی کبھی آپ کے گھر پر حملہ بھی کرتے تھے اور تلاشی کرتے تھے، تاکہ وہ بچہ انہیں مل جائے، لیکن خدا کی مشیت یہ تھی کہ" يرِيدُونَ لِيطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ"(الصف/8)کا مصداق بن کر یہ مبارک بچہ اس خاندان وحی و نبوت میں دنیا میں آئے۔
۱۵شعبان سال ۲۵۵ ھجری قمری مطابق پہلی اگست 869 عیسوی اس حالت میں کہ آپ کی مادر گرامی میں حمل کے آثار بالکل نمایاں نہیں تھے ،اس امام ہمام نے عرصہء گیتی پر قدم رکھا ۔اس طرح ان دشوار حالات اور رعب و ترس سے مملو ماحول میں وعدہ الٰہی تحقق پذیر ہوا اور امامت کے بارہویں بر حق ستارے نے طلوع ہو کر ستم گروں کی حاکمیت کے زوال کی نوید دی ۔ اس مولود کی ولادت کے مخفی ہونے کے باوجود امام حسن عسکری علیہ السلام نے اتمام حجت اور بعد میں پیش آنے والی گمراہی سے بچنے کے لیے بارہویں امام کی ولادت کی خبر اپنے دوستوں رشتہ داروں اور خاص شیعوں تک پہنچا دی ،یہاں تک کہ ان میں سے بعض کو امام علیہ السلام کی زیارت بھی کروا دی ۔مثال کے طور پر" احمد ابن اسحاق قمی" ایک بزرگ شیعہ کہتے ہیں: میں امام عسکری علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوا اور میں نے سوچا کہ میں آنحضرت کے جانشین کے بارے میں سوال کروں ۔جب میں حضرت کی خدمت میں پہنچا تو آنحضرت سے پہلے کہ میں کچھ پوچھوں، حضرت نے مجھ سے فرمایا :اے احمد !خدا وند متعال نے جب سے آدم کو پیدا کیا ہے اس نے زمین کو اپنی حجت سے خالی نہیں رکھا ہے اور قیامت تک اس کو حجت سے خالی نہیں رکھے گا۔ حجت خدا کے وجود کی وجہ سے بلائیں اہل زمین سے دور رہتی ہیں اور زمین اپنے اندر موجود نعمتوں اور برکتوں کو اہل زمین پر نچھاور کر دیتی ہے ۔
اسحاق ابن احمد قمی کہتا ہے : اے میرے مولا ! آپ کے بعد امام کون ہے ؟اس سوال کے بعد امام گھر کے اندر تشریف لے گئے اور تھوڑی دیر کے ایک چودھویں کے چاند جیسا چہرہ رکھنے والے تین سال کے بچے کو اپنی گود میں لیے ہوئے جلوہ افروز ہوئے ۔اس کے بعد مجھ سے فرمایا: اے حمید !اگر تم خدا وند متعال اور اس کی حجتوں کے نزدیک محترم نہ ہوتے تو میں اپنے بچے کو تمہیں نہ دکھاتا ؛ یقینا وہ رسول خدا کے ہمنام اور ہم کنیت ہیں وہ وہی ہیں کہ جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے ۔اس امت میں ان کی مثال حضرت خضر علیہ السلام کی سی ہے ۔خدا کی قسم ! وہ جلد ہی غائب ہو جائیں گے اور ان کی غیبت کا زمانہ اتنا طولانی ہو گا کہ اکثر لوگ گمراہی اور ہلاکت کا شکار ہو جائیں گے ۔صرف وہ لوگ نجات پائیں گے کہ جن کو خدا نے امامت پر پایدار رہنے کی توفیق دی ہے۔
احمد ابن اسحاق کہتا ہے: اے میرے امام!کیا کوئی نشانی بھی ہے کہ جس کی مدد سے مجھے زیادہ اطمئنان قلب حاصل ہو جائے ؟اس وقت اس خوبصورت اور نورانی بچے نے انتہائی فصیح عربی لہجے میں انتہائی سکون کے ساتھ فرمایا : میں ہوں بقیۃ اللہ زمین میں؛ وہی جو خدا کے دشمنوں سے انتقام لے گا ؛اے احمد ابن اسحاق !جب تم نے خود اس کی زیارت کر لی ہے تو دوسری علامت اور نشانی کے پیچھے نہ جاو ۔
ج ) حضرت مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی علامت
پہلے اشارہ کر دیا گیا ہے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آئمہء اطہار علیہم السلام نے مختلف الفاظ میں حضرت مہدی علیہ السلام کی امامت کی جانب اشارہ کیا اور ان کی ولادت کی کیفیت ، ان کی زندگی کے حالات اور آنحضرت کی حکومت کی خصوصیات سے لوگوں کو آگاہ کر دیا تھا۔مثال کے طور پر ایک موقعے پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا : میرے بعد امام بارہ ہوں گے کہ جن میں سب سے پہلے تم ہو اور ان میں سب سے آخری قائم ہوں گے کہ خدا وند متعال کائنات کے مشرق و مغرب کو ان کے ہاتھ فتح کرے گا ۔
یا ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: اماموں میں نویں فرد میرے اہل بیت میں سے قائم اور اس امت کے مہدی ہیں کہ جو رفتار ،گفتار اور کردار میں مجھ سے تمام لوگوں سے زیادہ مشابہ ہوں گے، وہ ایک لمبی غیبت اور حیرت و سرگردانی کے بعد ظہورکرے گا اور پورے عالم میں دین خدا کی حکومت قائم کرے گا ۔وہ خداوند متعال کی نصرت اور لگاتار تائیدات سے زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا ،جس طرح کہ اس سے پہلے ظلم و ستم سے بھری ہوگی ۔
اس بنا پر وہ گھٹن کا ماحول کہ جو عباسی خلفاء نے ایجاد کر رکھا تھا اس کی وجہ سے حضرت امام مھدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف نے ولادت کے بعد تقریبا نیم پوشیدہ قسم کی زندگی کا آغاز فرمایا ۔اس دور میں کہ جس کا سلسلہ امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت تک چلتا رہا بہت کم شیعہ آپ کی زیارت سے مشرف ہو پائے اس کے بعد بارہویں امام علیہ السلام کی امامت کا دور کہ جو آپ کی زندگی کا خطر ناک مرحلہ ہے کہ جو غیبت کے نام سے مشہور ہے آغاز ہوتا ہے ۔
امام حسن عسکری علیہ السلام کے پیکر مطہر پر امام مہدی علیہ السلام کا نماز پڑھنا لوگوں کے لیے وضاحت کا سبب بن گیا اور اس نے امامت کے مسئلے میں بعد میں لوگوں کو گمراہ ہونے سے بچا لیا ۔اس کام نے تمام شیعوں پر واضح کر دیا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کے بعد ان کے فرزند منصب امامت پر فائز ہیں ۔اس طرح وہ سازش جو بنی عباس نے مکتب تشیع کی نابودی کےلئے تیار کر رکھی تھی وہ ناکام ہو گئی ۔
یہ جان لینا ضروری ہے کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد عباسیوں نے کوشش کی کہ خلیفہ کی طرف سے کسی کو امام کی نماز جنازہ پڑھانے پر مامور کریں ۔اور اپنے گمان ناقص میں اس طرح دوران امامت کے ختم ہونے اور عباسی خلیفہ کے شیعوں کی امامت کا وارث ہونے کا اعلان کر دیں ۔لیکن بہت ساری مقدمہ چینیوں کے باوجود کہ جو انہوں نے کی تھیں ان کا منصوبہ عملی جامہ نہ پہن سکا عین اس وقت کہ جب حکومت کا مقرر کیا ہوا شخص امام حسن عسکری علیہ السلام کے پیکر پاک پر نماز پڑھنے کے لیے تیار تھا اچانک پانچ سال کا ایک بچہ وقار اور اطمئنان کے ساتھ سامنے آیا اور اس شخص کو اس نے ہٹا کر خود نماز جنازہ پڑھانا شروع کر دی ۔یہ ایسی حالت میں ہوا کہ خدا وند متعال کی عنایت سے حکومت کے کارندے معمولی سی حرکت بھی نہیں کر پائے ۔نماز ختم ہوتے ہی اس سے پہلے کہ حکومت کے گماشتے کچھ کر پائیں وہ نظروں سے غائب ہو گئے ۔اس طرح امام مھدی علیہ السلام کی امامت کے دور کا آغاز ہو گیا ۔
امام زمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی امامت کا آغاز خدا کی مشیت سے اور دوسرے مصالح کے تحت غیبت کے ہمراہ تھا کہ جو" غیبت صغری" کے نام سے مشہور ہے ،اور یہ سلسلہ" ۳۲۹ ھجری قمری" تک چلتا رہا ۔اس کے بعد غیبت کا نیا مرحلہ کہ جو" غیبت کبری" کے نام سے مشہور ہے شروع ہو گیا کہ جس کا سلسلہ آج تک چل رہا ہے ۔ یہ دور لوگوں کے امتحان کا سب سے مشکل دور ہے ۔اس لیے کہ امام عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف سے سیدھا رابطہ کسی کے لیے میسر نہیں ہے اور ان کا کوئی نائب خاص بھی نہیں ہے، تاکہ لوگ اس کے وسیلے سے آنحضرت سے کسب مسئولیت کریں اور اپنے سوالوں کے جواب دریافت کریں ۔
زمانے کے اس حصے کی توصیف میں روایات میں بہت سارے الفاظ وارد ہوئے ہیں کہ جن میں انتہائی خطر ناک فتنوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ انسان اس دور میں اصلی الٰہی اور انسانی اقدار سے بے توجہی برتنے کی وجہ سے ظاہرا خوبصورت، آراستہ اور ماڈرن زندگی سے برخوردار ہونے کے باوجود، نحوست بار زندگی سے دوچار ہو گا ۔اس معنی میں کہ اگر چہ شکم سیر ہوں گے اور زندگی پر زرق و برق ہو گی ،لیکن روحیں مضطرب ،پریشان اور سر گردان ہوں گی اور صحیح زندگی کے فلسفے اور مقصد کو کھو دینے کی وجہ سےوہ تمام افراد بشر کو یاس و نا امیدی کی زندگی سے دوچار کرے گی ۔
اصلی اسلامی ثقافت میں اس قسم کی حالت سے دوچار ہونے سے بچنے کے لیے ،دوران غیبت کی ذمہ داریوں کے عنوان کے تحت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آئمہء اطہار علیہم السلام کی طرف سے بہت قیمتی ہدایات نقل ہوئی ہیں ۔ان چیزوں کی رعایت گمراہی کے خطرے سے محفوظ رہنے کا سبب ہے؛ اس لیے کہ احکام الٰہی کا پابند نہ ہونا اور صحیح فکری اور اعتقادی ثبات کو کھو دینا آخری زمانے کے فتنوں سے آلودہ ہونے کا سبب ہو گا ۔
امید ہے کہ غیبت کے دور سے متعلق ذمہ داریوں پر عمل کر کے ہم آنحضرت کے واقعی منتظرین میں شمار ہو سکیں گے اور مہدی موعود(عج) کے ظہور کے موقع پر اس سبز پوش سوار کے ساتھ چلنے کی لیاقت پیدا کر سکیں۔
" بَقِيتُ اللَّهِ خَيرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ وَمَا أَنَا عَلَيكُمْ بِحَفِيظٍ"(هود/86)









آپ کا تبصرہ