ماہ ربیع ‌الاول خوشی کا مہینہ ہے یا غم و عزاداری کا؟

حوزہ / دینی و تاریخی شکوک و شبہات کے ماہر تعلیم کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس موضوع پر گفتگو کی گئی ہے کہ آیا حضرت محسن علیہ السلام کے لیے "ایام محسنیہ" کے نام سے عزاداری کی ایجاد اور ترویج درست ہے یا نہیں؟۔ اس سلسلہ میں عزاداری کی تاریخی سوابق، مراجع تقلید کی آراء اور اہل بیت علیہم السلام کی حرمت و احترام کے لیے مناسب طریقہ کار پر نکات بیان کیے گئے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، شیعہ عقائد میں اہل بیت علیہم السلام کی عزاداری کا مقام انتہائی بلند اور بے مثال ہے لیکن محرم و صفر کے بعد جب ماہِ ربیع الاول آتا ہے جو کہ میلاد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے روز ولادت کے سبب خوشی و مسرت کا مہینہ ہے، ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے لیے مناسب ہے کہ ہم ان ایام میں بھی "ایام محسنیہ" کے عنوان سے عزاداری کو رواج دیں؟

کیا ربیع الاول جو اپنی اصل میں ماہِ خوشی و سرور ہے، صرف مبارکباد کے لیے ہے؟ یا اس میں باقاعدہ عزاداری شامل کر کے عوام سے سوگواری کی توقع بھی کی جائے؟ یا پھر بغیر رسمی عزاداری کے اہل بیت علیہم السلام کی یاد کا کوئی درمیانی اور شایستہ راستہ بھی موجود ہے؟

اس سلسلہ میں دینی و تاریخی شکوک و شبہات کے ماہر تعلیم سید آیت اللہ احمدی سے گفتگو کی گئی۔ جنہوں نے اس موضوع کے مختلف پہلوؤں کو بیان کیا۔

آیت اللہ احمدی نے کہا: اولاً، "ایام محسنیہ" بطور ایک مخصوص دورِ عزاداری حضرت محسن علیہ السلام کے لیے تاریخ میں سابقہ نہیں رکھتا اور نہ ہی ہمارے بزرگان دین نے ایسے ایام منعقد کیے ہیں حتیٰ کہ آج بھی علماء و مراجع تقلید عام طور پر ان ایام میں منظم عزاداری نہیں کرتے اگرچہ بعض حضرات ان ایام کو حضرت محسن علیہ السلام کی شہادت سے منطبق سمجھتے ہیں مگر پھر بھی اس کے لیے مستقل عزاداری کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔

ماہ ربیع ‌الاول خوشی کا مہینہ ہے یا غم و عزاداری کا؟

ثانیاً، بعض مراجع عظام تقلید نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ نئی "دہہ سازی" (عشرہ منانا) درست نہیں کیونکہ اس سے محرم، صفر اور ایام فاطمیہ جیسے اصلی عزاداری ایام کمزور ہو سکتے ہیں لہذا "دہہ محسنیہ" کے عنوان سے عزاداری کی ترویج مناسب نہیں البتہ اگر کوئی شخص مخصوص ایام جیسے یکم یا آٹھ ربیع الاول (شہادت امام حسن عسکری علیہ السلام) یا حضرت محسن و حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے مربوط ایام میں عزاداری کرے تو یہ بذات خود اشکال نہیں رکھتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا: اگر "ایام محسنیہ" یا "دہہ محسنیہ" کے عنوان سے باقاعدہ تحریک یا ترویج کی جائے تو یہ عمومی مصلحت کے خلاف ہو گا۔

انہوں نے ماہِ ربیع الاول کے بارے میں گفتگو کے دوران کہا: یہ مہینہ اپنی حقیقت میں صرف "مبارکبادی" کا مہینہ نہیں لیکن چونکہ محرم و صفر میں شیعہ عزادار رہتے ہیں اور قدیم زمانے سے صفر کے اختتام پر سیاہ پوشی کو ختم کر دیتے تھے، اس لیے ربیع الاول کو ولادت پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سبب "ماہِ مبارک" سمجھا گیا ہے۔

یہی نظر بعض بزرگان حتیٰ کہ رہبر معظم انقلاب سے بھی منقول ہے۔ تاہم یہ اس بات کا مطلب نہیں کہ اس ماہ کو عید کی شکل میں منایا جائے جیسا کہ بعض مقامات پر رائج ہے۔

بعض اہل نظر کہتے ہیں: جیسا کہ واضح ہے کہ ایام اوائل ماہ ربیع الاول وہ دن ہیں جو رحلت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کے ایام سے منطبق ہیں اور تاریخی تجزیے کے مطابق حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر پر حملے کا واقعہ اور شہادت حضرت محسن علیہ السلام تقریباً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے تیس سے پچاس دن بعد رونما ہوا۔ اس لیے حضرت محسن کی تاریخ شہادت قطعی طور پر معین نہیں ہے۔

اگر تاریخ شہادت یقینی طور پر معلوم ہوتی تو ان ایام میں مستقل عزاداری بالکل درست تھی لیکن جب تاریخ ہی واضح نہیں تو ایام فاطمیہ ہی بہترین اور مناسب ترین موقع ہے کہ حضرت محسن علیہ السلام کے مصائب کی یاد اور عزاداری بھی انہی ایام میں منائی جائے۔

انہوں نے آخر میں کہا: چونکہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور حضرت محسن علیہ السلام ایک دوسرے سے جدا نہیں لہذا ایام فاطمیہ کی عزاداری درحقیقت انہی پر وارد مصیبت اور حضرت محسن علیہ السلام کی شہادت کی یاد ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha