۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
سیرتِ النبی

حوزہ/ فخر رسل کو رب کائنات نے وہ بلند شان، مقام اور مرتبہ عطا کیا کہ آپ کو ہر خوبی، اکمل ترین عطا کی گئی۔ اسی وجہ سے ہر مومن اپنے پیارے تاج دار مدینہ سے بے ساختہ محبت و پیار کرتا ہے۔

تحریر: نواب علی اختر، ایڈیٹر روزنامے صحافت دہلی

حوزہ نیوز ایجنسی | نبی برحق، خاتم الانبیاء کی ولادت باسعادت کا مہینہ ربیع الاول مقدس ماہ مبارک ہے، جس میں سیّد المرسلین احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفی اس دنیا میں جلوہ افروز ہوئے۔ اس ماہ میں دو ایسے واقعات اسلامی تاریخ کا حصہ بنے جو ہمیشہ کے لیے تاریخ عالم میں ثبت ہو گئے۔ ان میں ایک محسنِ انسانیت، خاتم الانبیاء والمرسلین حضرت محمد کی ولادت باسعادت کا واقعہ اور دوسرا آپ کا وصال ہے۔ آپ کی اس دنیا میں تشریف آوری تاریخ انسانیت کا سب سے عظیم اور سب سے مقدس واقعہ ہے۔ نبی کریم کا روئے زمین پر تشریف لانا ہی تخلیق کائنات کے مقصد کی تکمیل ہے۔

’ربیع الاوّل‘ وہ ماہِ مبارک ہے، جب امام الانبیاء، سیّد المرسلین، خاتم النبیّین، سرورِ کونین، حضرت محمد مصطفی کی ولادت با سعادت ہوئی، آفتابِ رسالت طلوع ہوا، دنیا توحید کے نور سے منوراور تاریخ کے مثالی دور کا آغاز ہوا۔’ربیع الاوّل‘ سرکارِ دو جہاں کی ولادت اورآپ کی تشریف آوری کے حوالے سے ماہ و سال کی پوری تاریخ میں ایک منفرد حوالہ رکھتا ہے۔اسلامی تاریخ میں ربیع الاول کو جو عظمت وتقدس حاصل ہے، وہ صرف اور صرف فخر دو عالم، سرورِ کائنات، فخر موجودات، بشیر و نذیر، سراج منیر، امام الانبیائ، آفتابِ دو عالم، حضرت محمد مصطفی ،احمد مجتبیٰ کی بدولت ہے۔ یہ وہ بابرکت اور بہارآفرین مہینہ ہے، جس کی آمد سے چمنستانِ دہر کی مرجھائی کلیاں کھل اٹھیں، خزاں رسیدہ گلستان سرسبز و شاداب ہو گئے۔

محمد مصطفی، احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر آئی۔ وہ محسن انسانیت جس نے مذہبی اداروں میں شخصیت پرستی کے بجائے خداپرستی قائم کی،جس نے اعتقادات کی توہمات کے بجائے حقیقت پر بنیاد رکھی۔ جس نے کائنات کو مسخر کرنے کا سبق دیا، جس نے سیاسیات میں نسلی و موروثی بادشاہت کے بجائے شورائی نظام کا راستہ دکھایا، جس نے علم کی دنیا میں خیال آرائی کے بجائے حقیقت نگاری کی طرح ڈالی، جس نے سماج کی تنظیم کے لیے ظلم کے بجائے عدل کی تعلیم دی۔

آپ نے انسانیت کی جھولی میں اخلاق عظیم کے جواہرات بھرے۔ مظلوم کو ظالم سے نجات دلائی،جاہل کو علم سے آراستہ کیا، اونٹ چرانے والے ہدی خوانوں کو انسانیت کا پاسبان و نگہہ بان بنایا۔ جو دنیا کے دیوانے تھے انہیں اللہ کا سودائی بنایا، جو نفس پرست تھے انہیں خداپرست بنایا، جو مجاور تھے انھیں مجاہد بنایا، جو آپس میں غضب ناک تھے انہیں آپس میں دوست بنایا، سراپا گفتار کو کردار کا غازی بنایا، اس خاصہ خاصان رسل کے ساتھ محبت و عشق کا ہونا، ایمان کی شرائط اوّل میں سے ہے۔

نبی کریم کی محب دنیوی اور اخروی کامیابیوں کے حصول کی کلید ہے۔ اس سے رحمت الٰہی موسلادھار بارش کی طرح برستی ہے، بلکہ یہی سعادت مند ہونے کی نشانی ہے۔ اگر مسلمان کے دل میں اللہ تبارک وتعالیٰ اور سید الانبیا کی محبت اپنی تمام تر رعنائیوں اور تابانیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوجائے تو پھر ہفت اقلیم بھی اس کے سامنے ہیچ ہے۔انسان کی فطرت ہے کہ وہ دوسروں کے خصائص و کمال، حسن و جمال، محاسن اور کردار سے متاثر ہوکر ان سے محبت کرنے لگتا ہے۔ فخر رسل کو رب کائنات نے وہ بلند شان، مقام اور مرتبہ عطا کیا کہ آپ کو ہر خوبی، اکمل ترین عطا کی گئی۔ اسی وجہ سے ہر مومن اپنے پیارے تاج دار مدینہ سے بے ساختہ محبت و پیار کرتا ہے۔

محبت رسول کی بنیادی اور سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ آپ رب العالمین کے بھی محبوب ہیں۔ قرآن مجید نبی اکرم کے کمال و جمال پر سب سے بڑا گواہ ہے۔ جس طرح قرآن مجید کے علمی عجائبات کی انتہاء نہیں، اسی طرح سیرت نبوی کے عملی عجائبات کی حد نہیں۔ ایسی مبارک ہستی سے محبت ہونا فطری تقاضا ہے۔کسی سے محبت اور اس پر فریفتہ ہونے کی ایک وجہ حسن و جمال بھی ہے۔ انسان خوب صورت شخصیت کو دیکھے تو دل بے اختیار اس کی طرف کھنچ جاتا ہے۔ نبی اکرم کو اللہ تعالیٰ نے ایسا حسن و جمال عطا کیا تھا کہ الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔

آپ اللہ کے حبیب ہیں، روز قیامت لوائِ حمد آپ کے ہاتھ ہوگا جس کے سائے میں جملہ انبیائے کرام ہوں گے۔ آپ شفیع محشر ہیں، آپ اور آپ کی امت سب سے پہلے جنت میں داخلے کے اعزاز سے مشرف ہوگی، اولین و آخرین میں آپ ہی سب سے زیادہ مکرم و محترم ہیں۔آپ خاتم النبیین ہیں۔ آپ دیدار الٰہی سے نوازے گئے۔ عرش و ملکوت کی سیر کرائی گئی، آپ ہی کو النبی الامی کا لقب عطا کیا گیا، آپ دنیا میں کسی کے سامنے شاگرد بن کر نہ بیٹھے، مگر آپ کو پڑھانے اور علم سکھانے والا خود کائنات کا مالک و مختار ہے۔

دنیا کو اعلیٰ اخلاق کا درس دینے کے لیے آپ مبعوث ہوئے اور قرآن نے آپ کو ”انک لعلیٰ خلق عظیم“ کے الفاظ سے سراہا۔ آپ نے اپنے اخلاق عظیم کے ذریعے دس سال کے قلیل عرصے میں انقلاب برپا کردیا۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ مدینے کو اخلاق سے فتح کیا گیا۔ آپ انسانوں، جنوں اور فرشتوں غرض تمام مخلوقات کے امام ہیں۔یہ انسانی ہی نہیں حیوانی فطرت بھی ہے کہ جو ان پر احسان کرے اس سے محبت کرتے ہیں۔ امت پر نبی کے اتنے اور اس قدر احسانات ہیں کہ ان کا احاطہ مشکل ہے۔

نبی اکرم مومنین کے ساتھ حد درجہ شفقت کرنے والے ہیں، آپ کی ہمدردی ،دل سوزی کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ آپ ساری رات عبادت کرتے اور اپنی گناہ گار امت کے لیے دعائیں مانگتے حتیٰ کہ قدم مبارک پر ورم آجاتا۔ آپ قاسم العلوم و البرکات ہیں، نبی اکرم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو علم و معارف اور انوار و برکات ملتے وہ آپ صحابہ کرامؓ میں منتقل فرما دیا کرتے۔ نبی کریم میں تمام اسباب محبت درجہ کمال موجود ہیں۔ حالاں کہ ان اسباب میں سے ہر ایک سبب، ایسا ہے کہ اس کی وجہ سے محبت ہوجاتی ہے۔

حضور اقدس کی سیرتِ طیبہ ہمارے لیے ایک بہترین نمونہ ہے، پروردگارِ عالم کی پاک ذات نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا (ترجمہ) تمہارے لیے نبی کریم کی زندگی مبارک میں بہترین نمونہ ہے۔ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اللہ کی راہ میں اس قدر ڈرایا گیا کہ کوئی (دوسرا انسان) اس قدر نہیں ڈرایا گیا اور مجھے اس قدر ایذا پہنچائی گئی کہ کسی (دوسرے انسان) کو اس قدر ایذا نہیں پہنچائی گئی۔ اعلانِ نبوت سے لے کر فتح مکہ تک رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مقدس پر مصائب کے اس قدر پہاڑ توڑے گئے کہ تاریخ انسانی جس کی مثال دینے سے قاصر ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .