تحریر: مولانا ظہور مہدی، حوزہ علمیہ قم، ایران
حوزہ نیوز ایجنسی | مہر و محبت اتنی عظیم شے ہے کہ اللہ عز وجل نے ساری کائنات کو اسی کی وجہ سے پیدا کیا ہے، چنانچہ حدیث قدسی میں وارد ہوا ہے کہ:
جب اللہ عزوجل سے حضرت داؤد علیہ السلام نے یہ سوال کیا:
یا رب لماذا خلقتَ الخلق؟
کہ اے اللہ تونے مخلوقات کو کیوں خلق فرمایا ہے؟
تو اللہ سبحانہ و تعالی نے جواب میں ارشاد فرمایا:
کنت کنزا مخفیا فاحببت ان اعرف و خلقت الخلق لکی اَعرَفَ۔ (1)
یعنی میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا، پس میں نے محبوب جانا کہ میں پہچانا جاوں تو مخلوقات کو پیدا کیا تاکہ پہچانا جاوں۔
اس مبارک حدیث میں کلمہ "اَحْبَبْتُ " سے واضح ہے کہ اللہ تعالی نے اس عالم ہستی کو مہر و محبت کی وجہ سے خلق فرمایا ہے۔
لیکن ہماری بات کو رد کرتے ہوئے اگر کوئی یہ کہے کہ نہیں، اس حدیث کی زیادہ صریح دلالت اس بات پر ہے کہ اللہ تعالی نے اس کائنات کو محبت نہیں بلکہ اپنی معرفت کی وجہ سے پیدا کیا ہے۔
تو ہم اسے تسلیم کرتے ہوئے کہیں گے پھر بھی نتیجہ محبت ہی نکلتا ہے، جس کی وضاحت یہ ہے:
بلاشبہ اللہ تعالی تمامتر جمالات و کمالات کا حقیقی و واقعی مالک ہے اور اہل جمال و کمال کی معرفت کے بعد اس سے محبت ہونا، ایک فطری بات ہے۔
پس اگر اس عالم ہستی کو خداوند حکیم نے اپنی معرفت کی وجہ سے پیدا کیا ہے تو اس صاحب جمال و کمال پروردگار کی معرفت کے حصول کے بعد اس سے محبت ہونا ایک قہری و فطری شے ہے۔
اسی لئے جنھیں اللہ کی واقعی معرفت ہوجاتی ہے وہ اس کی محبت میں اس قدر غرق ہوجاتے ہیں کہ اس کے ایک اشارہ حکم پر اپنے چہیتے نوخیز و نوجوان اور نہایت حسین و جمیل بیٹے کے گلے پر چھری چلانے سے بھی نہیں گھبراتے۔
دوسری بات یہ ہے کہ علمائے عرفان نے اس حدیث کا مطلب اس طرح بیان کیا ہے کہ خلقت مخلوقات کے ذریعہ اللہ تعالی نے اپنے اسماء و صفات کی جلوہ نمائی فرمائی ہے اور مخلوقات کو اپنی معرفت کی منزل میں لا کر کھڑا کیا ہے کیوں؟
اس لئے کہ اللہ تعالی کو یہ امر محبوب ہے کہ اس کی مخلوقات مرحلہ کمال تک پہنچیں اور ان کا کمال تک پہنچنا، اللہ اور خالق عالم و آدم کی معرفت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔(2)
اس کا نتیجہ بھی یہی نکلتا ہے کہ اللہ نے اس عالم ہستی کو محبت کی بنا پر پیدا کیا ہے۔
سوال و اعتراض:
ممکن ہے اس حدیث کو ملاحظہ کرنے کے بعد کسی کے ذہن میں یہ سوال آئے کہ خداوند متعال غنی مطلق ہے اس نے خواہ اس عالم ہستی کو محبت کی وجہ سے پیدا کیا ہو یا اپنی معرفت کی بنا پر، کیا اس سے اس کا محتاج ہونا لازم نہیں آتا؟
جواب: اس اعتراض کا جواب ہمارے علما و حکماء نے اس طرح دیا ہے کہ:
خداوند متعال کی ذات اقدس تمامتر کمالات کی حقیقی صاحب و مالک ہے اور اس کے صاحب کمال ہونے کا لازمہ "بخشش و فیاضی" ہے، لہذا اس کی ذات اقدس پر خلق عالم ہستی کے حوالہ سے یہ اعتراض نادانی یا پھر عدم غور و فکر کی دلیل ہے، چونکہ اس طرح کا اشکال بالکل اس طرح سے ہے جیسے کوئی کسی متکلم پر یہ اعتراض کرے کہ تم کلام کیوں کرتے ہو یا کسی شاعر سے یہ کہے کہ تم شعر کیوں کہتے ہو۔
ظاہر ہے متکلم و شاعر ہونا ایک کمال ہے اور کلام و شعر کی شکل میں اس کمال کا صادر و ظاہر ہونا، ایک فطری و لازمی امر ہے، جس پر اشکال و اعتراض بے معنی ہے۔
اس تمہیدی گفتگو کے بعد عرض ہے کہ عشق و محبت بلاشبہ ذاتاً اور نفساً بھی ایک لطیف و عظیم شے ہے، لیکن جب یہ خداوند اعلی کی ذات اقدس سے نسبت پا جاتی ہے تو اس کی قدر و عظمت میں غیر معمولی اضافہ ہوجاتا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ مہر و محبت ایک نسبی و اضافی شے ہے یعنی اس کائنات میں ہماری مہر و محبت بہت سے اشخاص و افراد سے متعلق ہوسکتی ہے جیسے والدین، اولاد اور اقارب و احباب، لیکن ان سب سے بڑھ کر اور بالاتر مہر و محبت ہمیں جس ذات سے ہونی چاہیئے وہ فقط اللہ رب العزت کی ذات اقدس ہے۔
اس کی ذات جس طرح خلاق موجوات و مخلوقات ہے، اسی طرح خالق مہر و محبت بھی ہے اور اس نے تمامتر مخلوقات اور ہمیں اپنی مہر و محبت کی وجہ سے ہی خلق فرمایا ہے، لہذا حق اور انصاف بلکہ فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں اس سے سب سے شدید بلکہ اشد طور پر محبت کرنی چاہیئے، لیکن یاد رہے کہ اس کی ذات اقدس سے ایسی محبت اس پر حقیقی ایمان لائے بغیر ممکن نہیں ہے، چنانچہ اس نے خود قرآن مجید میں یہ فرمایا ہے:
والذین آمنوا اشدحبا للہ (3)۔
اور جو لوگ واقعی ایمان لا چکے ہیں وہی اللہ سے اشد محبت رکھتے ہیں۔
پس یہ مسلم ہے کہ جس کے دل میں حقیقی ایمان ہوگا، اسی کے دل میں اللہ عز و جل کی اشد محبت ہوگی۔
جب گفتگو اس منزل تک پہنچ گئی ہے تو شائستہ ہے کہ سرکار رسالتماب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ مبارک حدیث نقل کردی جائے:
ان ابنتى فاطمه ملاء اللہ قلبها و جوارحها ايمانا الى مشاشها۔۔۔ (4)۔
یعنی بیشک اللہ نے میری بیٹی فاطمہ کے پورے وجود کو ایمان سے بھردیا ہے۔
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ جس طرح فاطمہ کا وجود ایمان سے بھرا ہوا ہے اسی طرح عشق الہی سے بھی سرشار ہے۔
حضرت زہراء اور عشق الہی:
حضرت زہرا سلام اللہ علیہا عشق الہی میں اس قدر غرق رہتی تھیں کہ اکثر و بیشتر اللہ سے یہ دعا فرمایا کرتی تھیں:
اَللّهُمَّ أسألُكَ النَّظَرَ إلى وَجهِكَ و الشَّوقَ إلى لِقائِكَ۔(5)
اے اللہ میں تجھ سے یہ چاہتی ہوں کہ ہمیشہ تیری ذات اقدس کی طرف نظر کرتی رہوں اور سدا تجھ سے ملاقات کی مشتاق رہوں۔
ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں جبریل امین حاضر ہوئے اور اللہ تعالی کا ایک اہم پیغام لائے، اس پیغام کو سن کر اللہ کے رسول اپنی بیٹی کے پاس آئے اور بی بی زہرا سے یہ فرمایا:
بیٹی ابھی اللہ عز وجل کی طرف سے جبریل امین یہ پیغام لے کر حاضر ہوئے ہیں کہ جو بھی تم درخواست کرو گی، اللہ اسے ضرور متحقق و قبول فرمائے گا، بی بی بتاؤ تم کیا چاہتی ہو۔
یہ سن کر بی بی نے جواب دیا:
«شَغَلَنی عَنْ مَسأَلته لَذَّة خِدْمَته، لا حاجَة لی غیر النَّظر اِلی وَجْهِهِ الْکریم۔(6)
بابا مجھے بارگاہ الہی کی خدمت سے وہ لذت حاصل ہوچکی ہے کہ اب کسی چیز کی کوئی حاجت نہیں ہے، سوائے اس کے کہ میں ہمیشہ اس کی کریم ذات کا دیدار کرتی رہوں۔
اے رب رحیم و کریم تجھے حضرت زہرا اور ان کے پاکیزہ دل میں پائی جانی والی تیری والہانہ محبت و الفت کا واسطہ ہمیں بھی اپنی سچی معرفت، اپنی ذات اقدس پر حقیقی ایمان اور اپنی والہانہ محبت کی عظیم دولت مرحمت فرما۔ آمین
سلام اللہ و صلواتہ الدائمة القائمة المتواترة علی امتہ المخلصہ فاطمہ الزہرا و ابیھا و بعلھا و بنیھا والسر المستودع فیھا و لعنة اللہ الوافرة الأبدية علی قاتلیھا و اعدائھا أجمعین آمین یارب العالمین۔
حوالے:
1. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج 84، ص 198۔ نشر دار الاحیا، بیروت 1403 ق۔
2. شیرازی، ناصر مکارم تفسیر نمونه، ج 22، ص 395۔ تہران: نشر دارالکتب الاسلامیہ، بی تا۔
3. قرآن مجید، پارہ 2، سورہ بقرہ، آیہ 165۔
4. مجلسی، بحارالانوار، ج 43، ص 46۔
5. حوالہ سابق، ج 94، ص 225۔
6. دشتی، محمد، نهج الحیاة، فرهنگ سخنان فاطمہ علیہا السلام، ص 99، ح 56