۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۴ شوال ۱۴۴۵ | Apr 23, 2024
مولانا سلمان عابدی

حوزہ/ خانہ کعبہ پورے عالم اسلام اور مسلمانوں کی توجہ کا مرکز ہے، اور اللہ چاہتا ہے کہ انسانوں میں بھی ایک شخص ایسا ہو جو عالم اسلام اور مسلمانوں کی توجہ کا مرکز بنا رہے ۔ علی (ع) قبلہ ء ناطق ہیں ، اور خدا چاہتا ہے کہ اگر اسکی نماز کعبہ کی طرف رخ کرکے پڑھی جائے تو جس طرح بندگی کے لئے کعبہ قبلہ ہے اسی طرح زندگی کے لئے بھی کوئی قبلہ ہو اور وہ علی (ع) ہو ۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، معروف اسلامی اسکالر، ماہر سماجیات،نہج البلاغہ کے منظوم ترجمہ نگار، محقق و مصنف اور علمی و فرہنگی امور میں مصروف حجت الاسلام مولانا سلمان عابدی نے ولادت با سعادت حضرت علی علیہ السلام کے موقع پر کہا کہ امیرالمومین علیہ السلام نے وقت ضربت فرمایا : "رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا ۔"  کعبہ کی تاریخ چھ سے سات ہزار سال پرانی ہے۔ حضرت آدم نے کعبہ تعمیر کیا اور ابراہیم خلیل اللہ نے اسے دوبارہ بنایا۔ تخلیق آدم سے لے کر آج تک " مولود کعبہ " صرف ایک ہے اور وہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ذات اقدس ہے ۔

مولانا موصوف نے اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک دن شرفائے مکہ نے دیکھا کہ فاطمہ بنت اسد کعبہ کے سامنے کھڑی ہیں اور دعا کر رہی ہیں کہ اتنے میں کعبہ کی دیوار شق ہوئی اور وہ اس کے اندر داخل ہوگئیں ۔ انہوں نے دروازہ کھولنے کی ہر ممکن کوشش کرڈالی لیکن وہ نہیں کھلا ۔ سب حیران تھے پورے مکہ میں شہرہ ہوگیا تین دن بعد اہل مکہ نے دیکھا کہ کعبہ کی وہی دیوار   دوبارہ شق ہوئی اور فاطمہ بنت اسد اس سے باہر آئیں اور ان کے ہاتھوں میں ایک چاند سا بچہ تھا ۔
مریم اپنی عظمتوں کے باوجود جب عیسی کی ولادت کا وقت آیا تو وہ بیت المقدس میں ہی تھیں ان سے کہا گیا: مریم! یہ عبادت خانہ ہے زچہ خانہ نہیں۔ چنانچہ وہ ایک سوکھے درخت کے پاس گئیں اور وہاں جناب عیسی کی ولادت ہوئی ۔ کہاں کعبہ اور کہاں بیت المقدس ؟؛ کوئی موازنہ نہیں بیت المقدس کی حیثیت اپنی جگہ لیکن کعبہ کعبہ ہے اور مریم ایک نبی کی ماں ہیں پر انہیں بیت المقدس سے نکال دیا گیا اور علی کی ماں فاطمہ بنت اسد کو کعبہ کے اندر بلالیا گیا۔
فعل الحکیم لا یخلواعن الحکمہ حکیم کا فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ اللہ نے اپنے گھر کے لئے کیوں علی کا انتخاب کیا؟ آدم سے خاتم تک سارے انبیاء اور اولیاءمیں سے کوئی بھی کعبہ میں پیدا نہیں ہوا تو اللہ کیا سمجھانا چاہتا ہے؟ کیا راز ہے اسکے در پردہ ؟۔

مولود کعبہ صرف تنہا علی کیوں ہے؟

آئیے ذرا اسکا جائزہ لیتے ہیں کہ علی اور کعبہ کے مابین کونسی مماثلت پائی جاتی ہے؟ اللہ نے علی ہی کو " مولود کعبہ " کیوں بنایا  اور علی نے وقت ضربت " فزت برب کعبہ " ہی کیوں کہا ؟ کوئی دوسرا فقرہ کیوں ارشاد نہیں فرمایا ؟ 
کعبہ پورے عالم اسلام اور مسلمانوں کی توجہ کا مرکز ہے ، اور اللہ چاہتا ہے کہ انسانوں میں بھی ایک شخص ایسا ہو جو عالم اسلام اور مسلمانوں کی توجہ کا مرکز بنا رہے ۔ علی (ع) قبلہ ء ناطق ہیں ، اور خدا چاہتا ہے کہ اگر اسکی نماز کعبہ کی طرف رخ کرکے پڑھی جائے تو جس طرح بندگی کے لئے کعبہ قبلہ ہے اسی طرح زندگی کے لئے بھی کوئی قبلہ ہو اور وہ علی (ع) ہو ۔ کیوں کہ زندگی ایک مسلسل چکر کا نام ہے اور ہر چکر کے لئے ایک محور کا ہونا ضروری ہے دنیا شجاعت کا درس لینا چاہے یا تواضع اختیار کرنا چاہے تو اسکی توجہ کا مرکز و محور علی کی ذات رہے علی قبلہ ہدایت ہے اور جو بھی قبلہ ہدایت سے دور ہوگا وہ گمراہ ضرور ہوگا۔

دوسری مماثلت :- کعبہ کی طرف رخ کرنا نماز کی درستگی کے لئے شرط ہے۔ اور نماز دین کا ستون ہے  اور یہ ستون کعبہ کے بغیر بے بنیاد اور باطل ہے ، اسی طرح علی مولود کعبہ ہے اور علی کی محبت کے بغیر  کوئی شخص نماز پڑھتا ہے تو اس کی نماز فضول ہے ۔

تیسری مماثلت :- کعبہ کے واجب طواف کو "طہارت" کی ضرورت ہے۔ یعنی جسم پاک ہو اور کپڑے صاف ستھرے ہوں بندہ طاہر اور با وضو ہو۔ مولود کعبہ کے وجود کا طواف بھی "روح کی پاکیزگی" اور" تہذیب نفس " چاہتا ہے ۔ گناہ کے ساتھ  کوئی بھی شیعہ ہونے کا دعوی نہیں کرسکتا۔ معصیت کے ساتھ کوئی بھی شخص امام علی سے محبت اور ولایت کا دعویٰ نہیں کرسکتا تیرہویں رجب کی خوشی منانے والے اوراکیس رمضان کو سیاہ لباس زیب تن کرنے والے اور علی کی محبت  میں جنکے  دل دھڑکتے ہیں انھیں معلوم ہونا چاہئے کہ

"ہم جس سے پیار کرتے ہیں وہ مولود کعبہ ہے یعنی طاہر و مطہر اسکی طلب تقوی اور پاکیزگی ہے ،  یعنی جس طرح کعبہ کے طواف کو طہارت اور تزکیہ کی ضرورت ہے اسی طرح کعبہ میں پیدا ہونے والے  علی کے طواف کو بھی طہارت کی ضرورت ہے۔ اہل بیت علیھم السلام کی احادیث میں وارد ہوا ہے کہ ہماری زینت بنو اور ہماری بدنامی کا سبب نہ بنو ۔

چوتھی مماثلت :- طواف کو یقین کے ساتھ ہونا چاہئے کیونکہ شکوک و شبہات اسے باطل کردیتے ہیں جس طرح کعبہ کا طواف یقین چاہتا ہے اسی طرح مولود کعبہ کی ذات کا طواف  بھی یقینی  ہونا چاہئے۔ "علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی  کے ساتھ ہے "  یہ نہایت ہی اہم حدیث ہے زندگی میں جب بھی کبھی دو راہا آ جائے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ علی کہاں ہے۔ جہاں علی ہے وہاں حق ہے -

نیز طواف میں جس طرح کعبہ کے اندر اور اس کے آگے نہیں جانا چاہئے حجر اسماعیل میں داخل نہیں ہونا چاہئیے کیونکہ یہ خدا کے گھر کے صحن کی مانند ہے اور اس حصے میں طواف باطل ہے اسی طرح مولود کعبہ سے آگے جانا ہلاکت ہے اسی لئے جب امیرالمومین نے مالک اشتر سے جو معاویہ کے خیمے سے کچھ قدموں پرپہنچ چکے تھے: کہا واپس ہوجاو تو واپس ہو گئے اور مالک نے اپنی تلوار روک لی کسی نے کہا مالک یہ تم نے کیا کیا : تو مالک نے کہا: میں معاویہ کو قتل کرنے نہیں آیا ہوں۔ میں  امیرالمومین کی فرمانبرداری کرنے آیا ہوں۔ عمل کا معیار معاویہ اور عمرو عاص کا قتل نہیں بلکہ کسوٹی امام کی اطاعت ہے۔ لہذا ہمیں صرف جوش سے نہیں بلکہ ہوش سے بھی کام لینا چاہئیے حکم امام سے آگے بڑھیں تو عمل باطل ہو جائے گا ۔

کعبہ کو توحید پرستوں نے تعمیر کیا ہے 

آدم سے ابراہیم تک ، "خانہ کعبہ" کے سارے معمار امیرالمومین کے موحد اجداد ہیں۔ علی و رسول کے شجرے میں دور دور تک بھی کوئی مشرک نہیں رہا ہے۔ کعبہ کو از سر نو تعمیر کرنے والا ابراہیم  اسماعیل کو قربان گاہ پر لے گیا تو مولود کعبہ نے اپنے حسین کو قربان گاہ پر بھیجا۔ اس فرق کے ساتھ کہ ابراہیم نے کہا : خدایا! اگر تیرا حکم ہے تو میں  اسماعیل کو تو ذبح کردوں گا لیکن میری خواہش ہے کہ تو مجھے اس امتحان میں پاس کردے! یہی وجہ ہے کہ منا کو منا کہتے ہیں یعنی  آرزوئے ابراہیم کی سرزمین۔

ابراہیم نے کہا: خدایا  اگرچہ یہ میرے لئے مشکل امر ہے لیکن میں انجام دوں گا۔ پر اسوقت میرا کیا ہوگا جب اسماعیل میری چھری کے نیچے آجائیں گے  تو خطاب ہوا : "اے ابراہیم میں نے تمہاری قربانی قبول کرلی اور اسے ذبح عظیم سے بدل دیا  "ہم اسی طرح کی سادگی چاہتے ہیں -  اللہ نے امیرالمومین کے صلب سے حسین کو نکالا تاکہ کربلا کو ہدایت و قربانی کا ایک خونیں اور رنگین دسترخوان بنائے - پانچویں مماثلت :- کعبہ کو دیکھنا عبادت ہے اسی طرح رسول نے فرمایا علی کا چہرہ دیکھنا بھی عبادت ہے-

چھٹی مماثلت :-کعبہ کے چار ستون ہیں۔ "حجر اسود ، رکن یمانی ، عراقی اور شامی"؛ امیرالمومین نے بھی فرمایا : میرے چار ستون ہیں۔ "فاطمہ ، حسن ، حسین اور زینب"۔ کعبہ کا طواف حجر اسود سے شروع ہوتا ہے اسی طرح اہل بیت کی معرفت کا محور فاطمہ ہیں ،

کعبہ کا اہم ستون ، حجر اسود آسمان سے آیا تھا۔ ولایت کا ستون فاطمہ بھی جنت سے آئی ہیں  یعنی "انسیت الحوراء " ،  انسانی شکل میں ایک آسمانی تحفہ ۔ اللہ نے  رسول سے کہا کہ اگر آپ فاطمہ کے مالک بننا چاہیں تو آپ کو چالیس دن  روزہ رکھنا ہوگا اور خدیجہ سے کہنا کہ وہ بھی چالیس دن کا روزہ رکھے۔ 
 

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .