حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا منہال رضا، نائب مدیر و استاد حوزہ علمیہ حیدریہ خیرآباد نے کہا کہ مدح وثنا، قصیدہ خوانی و نوحہ خوانی، مرثیہ سرائی و نوحہ سرائی کے تقدس اور اس کی عظمت سے کسی کو انکار نہیں ہے ممدوحین نے مداحوں کو مادی ہدایا کے ساتھ معنوی تحائف کا مژدہ جانفزا سنایا ہے معصومین علیہم السلام نے ایک ایک بیت پر جنتی گھر کا وعدہ فرمایا، ثنا خوان عصمت کو زر و جواہر سے نوازا ہے اب اور کیا چاہئے کہ آج کل چند خوش الحان وخوشنوا افراد سستی شہرت مال و منال کی لالچ میں اس کے تقدس کو پامال کرتے نظر آرہے ہیں اور کچھ نام نہاد مولائی اس پر جھوم رہے ہیں۔
مولانا موصوف نے کہا کہ موجودہ صدی جہاں دنیا بھر میں نت نئی آفتوں کا مہیب سایہ سکون عالم کو ملیا میٹ کئے ہے۔ انسانیت اور آدمیت۔ اقدار مذہب۔ آئین اسلام کو بازیچہ اطفال بنانے کی اسلام دشمن طاقتیں مذموم سعی کررہے ہیں۔ منبر و محراب پر ناعاقبت اندیش۔ بے بصیرت مولائیوں کا ہجوم ہےایسی بھیانک صورتحال میں ایک نئی سازش نے جنم لے لیا کہ اب قصائد پر بھی شہرت کے رسیا مال و متاع کے پجاری مولائیت کا جھوٹا ڈھڈھورا پیٹنے والے افراد نے ڈاکہ ڈال دیا اور ایک حسین توجیہ پیش کرتے ہوئے کہ ہم قصائد میں جدیدیت لانے کی کوشش کررہے ہیں ہم چاہتے ہیں لوگ ذکر مولا سن کر جھوم اٹھیں انھیں پتہ نہیں جدیدیت کی یہ آندھی جھوٹی مولائیت کے یہ جھکڑ اسلامی تہذیب اور مذہبی ثقافت پر استعمار کی نقب زنی کا نیا پیرایہ ہے۔
ہندوستان کے برجستہ عالم دین نے زور دیتے ہوئے کہا کہ کیا ذکر اہل بیت علیہم السلام میں کیف و سرور کی خدانخواستہ کمی ہے جو جدیدیت کے دلدادہ پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ اگر یہی مولائیت ہے تو سلمان ومالک اشتر کو مولائیت کے کس خانہ میں رکھیں گے؟ مولائیت ضرب ساز پر جھومنے کا نام نہیں دار پر مسکرانے کا نام ہے، مولائیت پرسکون ماحول اور آرام دہ کمروں میں بیٹھ کر سازوں کی دھن پر مدح خوانی کا نام نہیں ہے بلکہ بدترین حالات میں بھی پابندی شریعت۔ سیرت آل محمد پر گامزن رہنے کا نام ہے۔ مولائیت اللہ کی دی ہوئی نعمت آواز و گفتار کی تجارت نہیں سکھاتی ہے حکم خدا پر چل کر دنیا کے عوض آخرت خرید لینے کا درس دیتی ہے۔
حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا منہال رضا نے مزید کہا کہ آج سوشل میڈیا سے لیکر مواصلات کے ہر موڑ پر ایسی ہوڑ دیکھنے کو مل رہی ہے کہ الآمان والحفیظ۔ ایسا محسوس ہوتاہے بد عملی وبے دینی کے دلدل مین جتنا پھنستے چلے جاؤ وہی کامیابی ہے کبھی نوحوں میں گریہ و مصائب کا ایسا حسین انداز ہوتاتھا کہ آنکھوں کے ساحل پر اشکوں کی موجیں سرپٹکتے نہیں تھکتی تھیں اور آج کل قصیدوں میں استعارات و تشبیہات۔ سہل ممتنع ودیگر صنعتوں کی ایسی کاری گری ہوتی تھی کہ زبان داد و تحسین سے نواز نے پر مجبور ہوجاتی تھی اور آج دین ومذہب کے ساتھ ادب بھی حیران و ششدر ہے۔
کل تک منبروں پر عالمانہ نکتہ آفرینی، اخلاقی مضامین کی موشگافیوں، تاریخی واقعات سے حقائق کے در شہوار تلاش کرنے کی فکر رہتی اور آج۔۔۔۔
"کچھ تو ہے اس پردہ زنگاری میں بیدار ذہن۔ اسلامی افکار کے حامل جوان"
آخر میں کہا کہ سنجیدہ افراد مہذب سماج کہیں ایسا نہ کہ مجلس و محفل سے دور ہوجائے اس سے قبل قوم کے با غیرت جوان۔ علماء زعماء قوم۔ دانشوران مذہب بے راہروی کے اس بڑھتے ہوئے سیلاب کے مقابل سدا سکندری بن کر کھڑے ہوں ورنہ یہ سیلاب سب کو بہا لے جائے گا۔