حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، نئ دہلی/ ترقی پسندی نظام فطرت سے ذہنی اور فکری ہم آہنگی کا نام ہے۔ کوئی بھی بیدار و حساس انسان ترقی پسندی سے انحراف نہیں کر سکتا ہے۔ان خیالات کا اظہار پرفیسر انور پاشا نے معروف صحافی و ادیب لئیق رضوی کی نئی تصنیف ’ترقی پسند ادبی صحافت‘ کی رونمائی کے موقع پر منعقد مذاکرہ میں کیا۔ اس کا اہتمام غالب اکیڈمی بستی حضرت نظام الدین کی جا نب سے کیا گیا تھا۔ پروفیسر انور پاشا نے اس موقع پر کہا کہ لئیق رضوی کی یہ کتاب ترقی پسند ادب کو نئے سرے سے سمجھنے کا موقع فراہم کرے گی۔
جلسے کی صدارت غالب اکیڈمی کے صدر پروفیسر جی آر کنول نے کی۔ اپنے صدارتی کلمات میں انھوں نے کہاکہ لئیق رضوی کی یہ کتاب ایک بے مثال کتاب ہے،جس میں ترقی پسند تحریک کے 80برس سے زیادہ کے سفر کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ کتاب صحافت کے طالب علموں کو پڑھنی چاہئے۔انہوں نے مزید کہاکہ یہ دلکش کتاب زندہ و جاوید رہنے والی ہے۔
غالب اکیڈمی کے سکریٹری ڈاکٹر عقیل احمد نے اس موقع پر کہا کہ لئیق رضوی صاحب نے اپنی کتاب میں اردو کے مختلف ادبی رسائل کے حوالے سے ترقی پسند تحریک کی تاریخ پیش کردی ہے۔ ترقی پسند ادب اور تحریک کو سمجھنے کے لیے یہ ایک اہم کتاب ہے۔ انہوں نے اس کتاب کو مصنف کی شخصیت کی آئینہ دار قرار دیا۔ کتاب کے مصنف لئیق رضوی نے اس مذاکرہ کے میں اپنی بات رکھتے ہوئے کہاکہ ترقی پسند ادبی صحافت نے عام صحافت سے کہیں بڑھ کر ملک و قوم کی خدمت کی ہے۔انہوں نے کہاکہ ترقی پسند ادبی صحافت ترقی پسند تحریک کاایسا چوتھا ستون ہے، جو نہ صرف تحریک کی حمایت کرہا تھا بلکہ ان خامیوں وکوتاہیوں کی نشاندہی بھی کررہاتھا، جو ملک وقوم اور زبان وادب کے لیے کسی بھی طرح مناسب نہیں تھی۔
معروف جرنلسٹ ڈاکٹر ممتاز عالم رضوی نے اس موقع پر کہاکہ ترقی پسند ادبی صحافت ایک تار یخی دستاویز اور ایک بڑا ادبی سرمایہ کہلا نے کی حامل ہے۔جو کام ایک ادارے کا تھا وہ کام ایک شخص نے انجام دیا۔یقینا وہ اس کے لیے مبارکباد کے مستحق ہیں۔یہ مطالعہ ترقی پسند ادبی صحافت پر کیا گیا، پہلا تنقیدی وتحقیقی کام ہے،لئیق رضوی کی ترقی پسند تحریک اور اس کے نظریہ پر بھی ہے۔جس کا وہ بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں اور وہ ترقی پسند ادبی صحافت پر بہت ہی آہستہ آہستہ آگے بڑھتے ہیں۔
مذاکرہ کی نظامت کرتے ہوئے صحافی وشاعر معین شاداب نے کہاکہ لئیق رضوی کی یہ کتاب اس معنی میں جداگانہ اہمیت کی حامل ہے، یہ ترقی پسند ادبی صحافت کا محض گوشوارہ نہیں ہے، بلکہ اس میں تنقیدی وتحقیقی شعور بھی کار فرما ہے۔معین شاداب کا یہ بھی کہناتھا کہ مصنف نے اس بات کا بخوبی تجزیہ کیا ہے کہ ترقی پسند صحافت نے زبان وادب کی کس طرح خدمت کی ہے اور اس کے اثرات کی کیا اہمیت ہے۔
اس موقع پر گوتم بدھ یو نیورسٹی اردو شعبہ کی استاد ڈاکٹر ریحانہ زیدی اوردہلی یو نیورسٹی کی ریسرچ اسکالر فرحت انوار نے بھی اظہارخیال کیا۔ قبل ازیں جلسے کے آغاز میں غالب کی زمین میں متین امروہوی نے پیش کیا۔ قابل ذکر شرکا میں ڈاکٹر ضیا زیدی، ظہیر برنی،فضل بن اخلاق، عرفان احمد، ڈاکٹر رئیس الخیر،سردار چرنجیت،محمدغفران آفریدی،نتن کمار،ناگیندر،احمدکبیر کے علاوہ غالب اکیڈمی کے طلبہ وطالبات بھی شامل تھے۔