۲۸ فروردین ۱۴۰۳ |۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 16, 2024
جموں و کشمیر میں شیعہ اور سنی وقف بورڈ

حوزہ/ ذرائع کے مطابق جموں و کشمیر میں شیعہ اور سنی وقف بورڈ قائم کرنے کا کام سرکاری طور پر شروع ہو چکا ہے اور اس حوالے سے مستقبل قریب میں متعلقین کے ساتھ میٹنگوں کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب کشمیر کی سب سے بڑی شیعہ تنظیم 'انجمن شرعی شیعیان' کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت کا یہ اقدام اگر شریعت کے ساتھ متصادم ہوگا تو اس کو کسی بھی حال میں برداشت نہیں کیا جائے گا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سری نگر/ مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور مختار عباس نقوی نے کہا کہ مرکزی حکومت جموں و کشمیر میں شیعہ اور سنی وقف بورڈ قائم کرنے سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔ انہوں نے یہ بات یو این آئی اردو کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ 'جموں و کشمیر میں ہر حال میں دونوں (شیعہ اور سنی) وقف بورڈ قائم کیے جائیں گے۔ اس سے ہم ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے'۔

نقوی نے شیعہ وقف بورڈ میں آنے والی پراپرٹیز کے بارے میں پوچھے جانے پر کہا کہ 'جموں و کشمیر میں شیعہ پراپرٹیز فکس ہیں'۔ تاہم انہوں نے 'فکس' کی وضاحت نہیں کی۔ سرکاری ذرائع نے یو این آئی اردو کو بتایا کہ جموں و کشمیر میں شیعہ اور سنی وقف بورڈ قائم کرنے کا کام سرکاری طور پر شروع ہو چکا ہے اور اس حوالے سے مستقبل قریب میں متعلقین کے ساتھ میٹنگوں کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مرکزی حکومت جموں و کشمیر میں شیعہ اور سنی وقف بورڈ کے علاوہ خطہ لداخ میں بھی ایک وقف بورڈ قائم کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے جو شیعہ مسلمانوں کے لئے ہوگا۔ وادی کشمیر میں اکثر شیعہ تنظیموں نے مرکزی حکومت کے جموں وکشمیر میں شیعہ وقف بورڈ قائم کرنے کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

کشمیر کی سب سے بڑی شیعہ تنظیم 'انجمن شرعی شیعیان' کے صدر آغا سید حسن الموسوی الصفوی نے حال ہی میں یو این آئی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ مرکزی حکومت کا شیعہ وقف بورڈ قائم کرنے کا اقدام وقف بورڈ کے بارے میں طے شدہ شرعی قواعد و ضوابط کی پامالی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہمارے اوقاف کا اپنا ایک مستقل بورڈ ہوتا ہے جو شرعی قواعد و ضوابط کے عین مطابق اس کو چلا کر مستحقوں کی مدد و معاونت کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مرکزی حکومت کا یہ اقدام اگر شریعت کے ساتھ متصادم ہوگا تو اس کو کسی بھی حال میں برداشت نہیں کیا جائے گا۔

قبل ازیں رواں برس جنوری کے اواخر میں آغا سید حسن موسوی کی صدرات میں انجمن شرعی شیعیان کے صدر دفتر پر علما کا ایک اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں مرکزی حکومت کی طرف سے جموں و کشمیر میں شیعہ وقف بورڈ قائم کرنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اس اجلاس میں چھ رکنی رابطہ کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جو اس ضمن میں علما و مفکرین کے ساتھ تبادلہ خیال کر کے ایک لائحہ عمل تیار کرے گی۔

اجلاس میں مجلس علماء کی تشکیل کے بارے میں بھی حتمی فیصلہ لیا گیا تھا اور ایک آزاد و خودمختار شیعہ وقف بورڈ بنانے کے بارے میں اتفاق رائے سے فیصلہ ہوا تھا جسے جموں و کشمیر میں شیعہ اوقاف کو منظم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس سے قبل مختار عباس نقوی نے نئی دہلی میں مرکزی وقف کونسل کی جانب سے وقف بورڈ کے افسران کے لئے منعقد اورینٹیشن پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جموں و کشمیر اور لداخ یونین ٹریٹری میں وقف بورڈ قائم کرنے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ جموں و کشمیر اور لداخ میں تشکیل ہونے والے بورڈ کی جانب سے وقف جائیداد کا بہتر استعمال یقینی ہوگا اور ان جائیدادوں کے سماجی، معاشی، تعلیمی سرگرمیوں کے لیے استعمال کے لیے 'پردھان منتری جن وکاس کاریہ کرم' (پی ایم جے وی کے) کے تحت حکومت کی جانب سے مکمل مدد کی جائے گی۔

واضح رہے کہ جموں و کشمیر میں 'جے اینڈ کے مسلم وقف بورڈ' نامی ادارہ موجود ہے جو مساجد اور زیارت گاہوں کی ایک بڑی تعداد کا انتظام و انصرام سنبھالتا ہے۔ جے اینڈ کے مسلم وقف بورڈ کو نیشنل کانفرنس کے بانی شیخ محمد عبداللہ نے سن 1932 میں قائم کیا تھا اور اس کو مبینہ طور پر اب 'سنی وقف بورڈ' میں ضم کر لیا جائے گا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .