۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
مولانا تقی عباس رضوی

حوزہ/ نئے چئیرمین’’ علی زیدی‘‘ ایک خوش رو ،جوان بھی ہیں اور ان کے اندر نئی سوچ، نیا جذبہ،نیا جوش و ولولہ اور نئی اُمنگ ہے ، کچھ نیا کر دکھانے کی خواہش لئے اس سنگین ذمہ داری نبھانے کے لئے آگے آئے ہیں جن کے  ساتھ ہماری ہی نہیں پوری شیعہ برادری کی نیک خواہشات ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ہندوستان کے معروف مبلغ و اسکالر اور اہل بیت ؑ فاؤنڈیشن کے نائب صدر مولانا تقی عباس رضوی کلکتوی نے ہندوستان میں شیعہ سینٹرل وقف بورڈ (یوپی)کےنئے چئیرمین کے منتخب ہونے کے موقع پرحوزہ نیوز ایجنسی سے اپنی ایک گفتگو میں کہا کہ : ہندوستان میں وقف کی بات سامنے آتے ہی ذہن ’’وقف املاک‘‘ کی تباہی،خستہ حالی ،ویرانی اور اس پر براجمان وسیم رشدی جیسے مرتد ،بدعنوان اور چند سکوں کے عوض اپنا دین و ایمان فروخت کرنے والوں کے لوٹ کھسوٹ کی طرف متوجہ ہونے لگتا ہے۔
من از بیگانگاں ہرگز نہ نالم کہ بامن ہر چہ کرد آں آشنا کرد
(مجھے بیگانوں سے کوئی گلہ نہیں کہ میرے ساتھ جو کیا وہ اپنوں نے کیا)

یہاں برسوں سے شیعہ اوقاف کو خاص کران پندرہ سالوں میں جس طرح کچلا گیا، اگر اس کا پوسٹ مارٹم کیاجائے تو کچلنے کے اتنے بھیانک اور دلخراش منظر سامنے آئیں گے جس سے روح جریح دار ہوجائے گی ۔۔۔

مولانا موصوف نے کہا کہ :یہ کہنا حق بجانب ہے کہ ہمارے محسنانِ قوم نے نہ صرف ریاست اتراپردیش(یوپی)بلکہ پورے ہندوستان(برصغیر ہند) میں اتنی وقف جائدادیں چھوڑی ہیں اگر صرف نصف پرہی ان پر تصرف حاصل ہوجائے اور موجودہ دور کے حساب سے استعمال میں آنے لگے تو وہ دن ہرگز دور نہیں ہے کہ چند برسوں میں ہندوستان کے شیعہ نان شبینہ کے محتاج نہیں رہیں گے اور نہ ہی انہیں دیگر قوم کے دروازے پر اپنے بچوں کی تعلیم و روزگارکے لئے دستک دینے کی ضرورت ہوگی!
زمیں سے آسماں تک ایک سناٹے کا عالَم ہے
نہیں معلوم میرے دِل کی ویرانی کہاں تک ہے
جدھر دیکھو اُدھر بکھرے ہیں تِنکے آشیانے کے
میری بربادیوں کا سلسلہ یا رب کہاں تک ہے

اہل بیتؑ فاؤنڈیشن کے نائب صدرمولانا تقی عباس رضوی نے کہا : افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ایک طرف مسلمانوں بالخصوص مذہبِ حقہ کےعالمی دشمن اوردرون ملک فرقہ پرست طاقتیں پوری شد و مد اور منصوبہ بندی کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں تو دوسری طرف ان کی وقف شدہ جائیداد کی تباہی و بربادی میں روز و شب اپنے ہی ملک کے اعلی سیاست داں، وقف بورڈ کے ممبران، وقف بورڈ کے ملازمین، دلال، بچولیے اور زمین مافیا ہی شامل نظر آتے ہیں۔
اس گھر کو آگ لگ گئی گھرکے چراغ سے

انہوں نے کہا :اب دیکھا جائے شیعہ سینٹرل وقف بورڈ کے نئے چئیرمین ’’علی زیدی‘‘ کی موجودگی تباہ و برباد شدہ اوقاف املاک کو کیا زینت بخشتی ہے اور یہ شیعہ اوقاف کو کن بلندیوں پر لے جاتے ہیں!
’’وقف امانت خداوندی اور ہمارا قومی سرمایہ ہے جس کی حفاظت ہم سب کا شرعی فریضہ ہے‘‘

ہندوستان کے معروف صاحبِ قلم اور مشہور عالم دین نے کہا:وقف املاک ایک ایسا بیش قیمت قومی سرمایہ ہے جس کی تعمیر و ترقی میں فرد واحد نہیں بلکہ اسے نئی بلندیوں پر لے جانے میں پوری قوم کو اپنا فعال کردار ادا کرنا ہوگا البتہ ظاہراً یہ محسوس ہو رہا ہے کہ وقف اپنی تباہی و بربادی کے بعد شاید اب اپنی جدید شکل میں ایسے ہاتھوں میں لوٹ رہا ہے جہاں صدیوں پہلے اسے ہونا چاہئے تھا، ’’علی زیدی‘‘ کا شیعہ وقف املاک کے لیے خود کو وقف کرنا ان کے اپنے محسنوں کی وقف شدہ جائدادوں سے والہانہ محبت اس کی بازیابی اوراس کے تحفظ و تعمیر کا اعلان ہے ۔

موصوف نے کہا:نئے چئیرمین’’ علی زیدی‘‘ ایک خوش رو ،جوان بھی ہیں اور ان کے اندر نئی سوچ، نیا جذبہ،نیا جوش و ولولہ اور نئی اُمنگ ہے ، کچھ نیا کر دکھانے کی خواہش لئے اس سنگین ذمہ داری نبھانے کے لئے آگے آئے ہیں جن کے ساتھ ہماری ہی نہیں پوری شیعہ برادری کی نیک خواہشات ہیں۔

انہوں نے کہا :اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ نئی نسل کی سوچ اس سورج کی طرح سامنے آتی ہے جوکہ پورے آب وتاب سے چمکتا ہے اور تمام جہاں کےاندھیروں کو اپنی روشنی میں سمیٹ لیتا ہے۔ وہ اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر کے وقف املاک کے متعلق اپنی مثبت سوچ کے ساتھ اس چمکتے اور دمکتے ہوئے ستارے کی طرح نظر آئیں گے جو اپنی چمک سے اندھیروں میں اُجالا کر دیتا ہے۔

اہل بیتؑ فاؤنڈیشن کے نائب صدر نے کہا:البتہ حوادث تاریخ اور عذابِ ماضی کو پیش نظر رکھ کرانہیں اپنی زندگی کی صحیح راہ اور وقف سے متعلق تمام امور کو سچے اور اچھے اندازکو انتخاب کرنا ہوگا اور لوگوں کے بقول :
’’چہرہ بدلا، کردار وہی ہے‘‘ کو غلط ثابت کرنا ہوگا !

اب تک سابق چئیرمین کے خلاف ہنگامہ آرائیاں تھیں اب چئیرمینی کے الیکشن کے بعد نئے چیئرمین کی مبارکبادی کو بھی میڈیا سمیت سوشیل میڈیا میں ایسے پیش کئے جانے لگا جیسے:آسمان ٹوٹ کر زمین پر گر گیا ہو، دراصل ہماری قوم نہایت جذباتی قوم ہے! اگر ہم باشعور اور بابصیرت ہوتے تو ان پندرہ سالوں میں اوقاف املاک کی جو تباہی کا منظر نامہ تاریخ ہند پر ثبت ہوا وہ ہرگز نہیں ہوتا.... موصوف نے کہا :خیر اس امید کے ساتھ کے دیر آئے درست آئے پر نئے چئیرمین صاحب کو کھَرا اُترنا ہوگا اور اس بات کو شرمندۂ تعبیر کردکھانا ہوگا۔۔۔اس اہم ذمہ داری کی ادائیگی اور اس بیش بہا سرمایہ کی تحفظ ،تعمیر اور ترقی کہ جو برسوں سے اسلام دشمن رشدیٔ ہند کے ہاتھوں روحی اور جسمی لحاظ سے جریحہ دار ہوچکا ہے پر نیا مرہم رکھیں اور اس امر میں شیعہ برادری کے بیدارمغز اور مخلص افراد کو بھی اِنہیں ماحول دینا ہوگا اور وقف کی تعمیر و ترقی میں حائل رکاوٹوں کو بھی دور کرنا ہوگا جو کہ ان کی سوچ کو مثبت اور حقیقت پسندی سے سامنے لاسکیں اور وہ اپنی سوچ کو بہترین طریقے سے عملی جامہ پہنا سکیں اور 'تباہی کی لہر' کو 'ترقی کی لہر' سے روک سکیں۔

سب کچھ ہاتھ سے چلے جانے کے بعد اگرکچھ بچتا ہے تووہ امید ہی ہے

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .